بے نظیر بھٹو کی شہادت

دس سال بعد فیصلہ ہوگیا، انصاف ہوسکا؟


انھیں ایک مدبر، دلیر اور دور اندیش سیاست داں کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ فوٹو؛ فائل

پاکستان کی دو بار منتخب وزیراعظم، عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی روح کو ان کی شہادت کے دس برس بعد سکون مل گیا؟

پاکستان کی بڑی اور طاقت ور سیاسی جماعت کے قائدین اپنے دوراقتدار میں بھی اپنی چیئرپرسن کے قاتلوں کا سُراغ نہ لگاسکے، اور پورے دس سال بعد فیصلہ ہوا بھی تو محافظ ہی قاتل قرار پائے اور مبینہ قاتل پروانہ آزادی حاصل کرکے رہا ہوگئے۔ راولپنڈی میں انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج اصغر خان نے چونتیس صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم بے نظیربھٹو کے قتل کے الزام میں زیرحراست پانچ مرکزی ملزمان کو بری کرتے ہوئے دو پولیس افسران کو مجرمانہ غفلت برتنے پر 17 برس قید اور جرمانے کی سزا سنا دی، جب کہ کسی سے نہ ڈرنے والے اُس وقت کے فوجی سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو اس فیصلے میں اشتہاری ملزم قرار دیا گیا۔

27دسمبر 2007 کو راول پنڈی کے لیاقت باغ کے باہر خود کش حملے میں ہلاک ہونے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام میں پولیس نے پانچ ملزمان اعتزاز شاہ، شیر زمان، حسنین گل، رفاقت حسین اور قاری عبدالرشید کو گرفتار کیا تھا۔ تاہم دس سال بعد ان ملزمان کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کردیا گیا، جب کہ محترمہ کی سیکیوریٹی پر مامور اس وقت راولپنڈی پولیس کے سربراہ ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کو مجموعی طور پر 17، 17 سال قید اور پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔ ان افسران کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 119 کے تحت دس، دس سال جب کہ دفعہ 201 کے تحت سات سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔

جرمانے کی عدم ادائیگی پر انھیں مزید چھے ماہ قید بھگتنی ہوگی۔ فیصلے کے فوری بعد ضمانت پر رہا ان افسران کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔ عدالتی فیصلے مطابق استغاثہ نے ان دونوں پر بے نظیر کی قتل کی سازش میں ملوث ہونے اور خودکش حملہ آور کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔ سعود عزیز کو اس الزام پر ملزم قرار دیا گیا کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کی سیکیوریٹی پر مامور پولیس افسران کو اس جگہ سے ہٹایا اور راول پنڈی جنرل ہسپتال کے ڈاکٹر مصدق کو بے نظیر کا پوسٹ مارٹم کرنے سے روک دیا تھا، جب کہ سابق ایس پی خرم شہزاد نے محترمہ پر ہونے والے حملے کے بعد جائے حادثہ کو دھونے کا حکم دے کر اہم ثبوت ضایع کردیے تھے۔ اس مقدمے میں شامل تیسرے ملزم پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے کر ان کی جائیداد کی قرق کرنے کا حکم دیا گیا۔

بے نظیر بھٹو نے اپنے والد اور منتخب وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کے ایوان سے جیل منتقل ہوتے دیکھا اور ان کی پھانسی کے بعد دلیری اور بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے بھی جیل اور مقدمات کا سامنا کیا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی نظریے اور عوامی خدمت کا مشن لے کر انتخابی میدان میں اتریں تو بھٹو خاندان کے چاہنے والوں اور عوام نے بھٹو کی بیٹی کو خوش آمدید کہا اور بھرپور پزیرائی کی۔ آج اسی عظیم راہ نما کی برسی منائی جارہی ہے۔ دنیا بے نظیر بھٹو کو ایک مدبر، دلیر اور بہادر لیڈر اور دور اندیش سیاست داں کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی۔

بے نظیر قتل کیس: کب کیا ہوا؟

لیاقت باغ راول پنڈی میں ہونے والے اس الم ناک سانحے کے جائے حادثہ پر تحقیقات کا آغاز ہوا، تفتیش شروع ہوئی، گواہوں کی طلبی اور بیانات، گرفتاریاں، ملزمان کی پیشی اور فردِ جرم بھی عائد کی گئی۔ اسی عرصے میں اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی آئی، اداروں اور انتظامی امور کے کرتا دھرتا بدلے گئے۔ اب طاقت اور اختیار کسی اور کے ہاتھوں میں تھا۔ مقامی تفتیشی اداروں کے بعد اسکارٹ لینڈ یارڈ اور پھر اقوامِ متحدہ کی ٹیم نے بھی بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے کھوج میں جائے حادثہ کا رخ کیا، لیکن یہ سب بے نتیجہ ثابت ہوا۔ شہید بے نظیر بھٹو کی نویں برسی تک یہی سوال ہمارے سامنا رہا کہ قاتل کون ہے؟

پاکستان میں آمریت کے سیاہ دور کے خاتمے کے حوالے سے جدوجہد اور قربانیوں کی وجہ سے نہ صرف ملک میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو نہایت قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ دنیا بھی ان کی جمہوریت کے لیے خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کرتی ہے۔ تاہم 31اگست 2017تک ملک کے کروڑوں عوام میں مقبول اور جیالوں کی محبوب لیڈر کا قتل ہنوز ایک معما ہے۔ ان دس برسوں میں ملک کی سیاسی صورتِ حال یک سر بدل چکی ہے، ریاست کو دہشت گردی سمیت کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی شہید لیڈر کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اپنا سیاسی سفر شروع کرچکی ہے اور کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کے روایتی حلقہ انتخاب این اے 207 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کریں گے۔

سانحے کے ابتدائی چند گھنٹوں بعد میڈیکل کالج کے ماہرین پر مشتمل ٹیم نے راول پنڈی جنرل اسپتال میں بے نظیر بھٹو کا طبی معائنہ کیا اور بتایا کہ موت کی وجہ سَر پر لگنے والی گولی ہے، مگر اگلے ہی روز یہ کہا گیا کہ بے نظیر بھٹو کا سَر کسی سخت چیز سے ٹکرایا تھا، جس سے موت واقع ہوئی۔ 4 جنوری 2008ء کو اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ایک ٹیم نے تحقیقات کے بعد کہا کہ بے نظیر بھٹو کی موت کی وجہ براہِ راست گولی یا جلسہ گاہ میں ہونے والا دھماکا نہیں بلکہ حملے کے فوری بعد ان کا سَر کسی چیز سے ٹکرانا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ مسترد کردی۔ 29 ستمبر 2012ء کو ایک اور بات سامنے آئی۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ بے نظیر بھٹو کی موت کی وجہ خودکُش دھماکا تھا۔

سانحے کے اگلے برس یعنی 2008ء میں اعتزاز شاہ کا نام سامنے آیا جو اس کیس میں پولیس کی زیرِحراست پہلا ملزم تھا۔ اس کے اقبالی بیان پر رفاقت، حسنین، عبدالرشید اور شیر زمان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ راول پنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں ملزمان پر فردِ جرم عاید کی گئی۔ بعد میں اعتزاز شاہ اور طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کے مابین ٹیلی فونک گفتگو کا دعویٰ بھی کیا گیا، مگر قتل کے اصل ملزمان بے نقاب نہ ہوسکے۔ حکومتِ وقت قتل کی تحقیقات برطانوی ادارے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے کرانے کا فیصلہ کیا۔

ادھر پیپلز پارٹی کا مطالبہ سامنے آیا کہ قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرائی جائیں اور 22 مئی 2008ء کو اس حوالے سے اعلان کردیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پیپلز پارٹی 2008ء کے عام انتخابات میں کام یاب ہونے کے بعد وفاق میں حکم راں تھی۔

15 اپریل 2010ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ منظرِعام پر آئی، جس کے مطابق حکومت بے نظیر بھٹو کو مکمل سیکیورٹی فراہم نہ کرسکی جب کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی حفاظتی بندوبست ناقص تھا۔ ایک سیکیوریٹی انچارج کو بھی اس حوالے سے غافل قرار دیا گیا۔ اسی طرح سی پی او راول پنڈی کے فرائض کی انجام دہی پر بھی سوال قائم کیا گیا تھا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ تیار کرنے کے لیے 250 افراد کے انٹرویوز کیے تھے۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ لاش کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کرایا گیا؟

کمیشن کے سربراہ کے مطابق اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ اس قتل میں خاندان کا کوئی فرد ملوث ہے۔ اس رپورٹ کو پی پی پی نے عجلت کا نتیجہ بتایا۔ 2010ء میں بے نظیر کی تیسری برسی پر آصف علی زرداری نے کہا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ پر تحفظات ہیں، اس کے ساتھ انہوں نے پرویز مشرف پر الزام لگایا کہ بے نظیر کو وطن واپسی پر تحفظ نہیں دیا گیا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد پرویزمشرف سمیت دیگر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اپریل 2010ء میں 9 افراد کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگائی گئی، جب کہ مختلف افسران کی تنزلی کے علاوہ ان میں سے چند کو کام کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ قتل کے بعد جائے حادثہ کو پانی سے دھو دیا گیا تھا اور اس پر سبھی نے حیرت کا اظہار کیا۔ یہ قتل کے شواہد اور ممکنہ ثبوت کو مٹا دینے کی کوئی کوشش تھی؟ اس حوالے سے بھی 24 اپریل 2010ء کو تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی، لیکن کوئی ثبوت نہ مل سکا۔

اسی سال 25 مئی کو ڈائریکٹر ایف آئی اے خالد قریشی کی قیادت میں قتل کی ازسرنو تحقیقات کی گئیں، جس میں راول پنڈی پولیس کے 3 افسران بھی نام زَد کیے گئے۔ بیت اللہ محسود کا نام مرکزی ملزم کے طور پر لیا گیا اور بتایا گیا کہ سازش اکوڑہ خٹک میں تیار کی گئی تھی۔

13 دسمبر 2010ء کو ایف آئی اے کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے اس وقت کے سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کو باقاعدہ شامل تفتیش کر لیا۔ ان کی کمرہ عدالت سے گرفتاری عمل میں لائی گئی اور چالان میں اعانت جرم، تحفظ فراہم نہ کرنے اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ دیگر الزام عاید کیے گئے۔ سابق صدر پرویز مشرف پہلی بار 7 فروری 2011ء کو بے نظیر قتل کیس میں مفرور قرار پائے۔ 12 فروری کو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ اسی دن جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی قیادت بھی تبدیل کردی گئی۔

تین مرتبہ وارنٹ جاری ہونے کے بعد انٹر پول کے ذریعے گرفتاری کا حکم دیا گیا جس پر بتایا گیا کہ وہ جس ملک میں ہیں اس کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ 30 مئی 2011ء کو پرویز مشرف اشتہاری قرار دیا گیا اور بعد میں تمام جائیداد ضبط اور کھاتے منجمد کر دیے گئے۔ تاہم وہ 24 مارچ 2013ء کو وطن واپسی سے قبل ضمانتیں منظور کروانے میں کام یاب ہو گئے۔ 24 اپریل 2013ء کو پرویز مشرف کو اس مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔

بے نظیر بھٹو قتل کیس میں امریکا میں موجود مارک سیگل نے بھی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے ایک بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ اس کے مطابق محترمہ نے دھمکیوں کا بتایا تھا اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ 2007ء کے الیکشن سے پہلے پاکستان جائیں گی تو قتل کردیا جائے گا اور اس کے ذمے دار جنرل پرویز مشرف اور دیگر ہوں گے۔ اس حوالے سے تفتیش میں پرویز مشرف نے کسی بھی دھمکی کے الزام کو مسترد کیا۔ مقدمے کے سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار نے سیگل کے خط کا حوالہ دے کر کہا کہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ انہیں سابق آرمی چیف پرویزمشرف سے جان کا خطرہ ہے۔ تاہم مئی 2013ء میں پرویز مشرف کی ضمانت ہو گئی۔

20 اگست 2013ء کو سات ملزمان سمیت مشرف پر فرد جرم عاید کر دی گئی۔ بعد میں امریکی صحافی مارک سیگل نے سابق صدر کے خلاف بہ طور گواہ پیش ہونے سے معذرت کر لی جب کہ قتل کیس میں پیروی کرنے والے وکیل کو 2013 ء میں اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے قتل کردیا۔ پرویز مشرف کی وطن آمد کے بعد 2013ء میں دوبارہ اس کیس کی سماعت کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم اس وقت تک 25 گواہان کے بیانات غیرموثر ہوچکے تھے۔ 4 ستمبر 2013ء کو بلاول بھٹو کی طرف سے قتل کیس کی دوبارہ سماعت چیلنج کی گئی، جسے خارج کر دیا گیا۔ یوں 22 اکتوبر 2013ء کو اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔

عدالت نے 31 دسمبر 2014ء کو سماعت مکمل کرکے کیس کا فیصلہ سنانے کا حکم دیا، لیکن یہ نہ ہوسکا۔ اگلے سال یعنی 2015ء میں بھی یہی کہا گیا، لیکن یہ کیس تمام نہ ہوسکا اور مقدمہ طول پکڑتا رہا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے قاتلوں کو جاننے اور جلد انہیں بے نقاب کرنے کے دعوے بھی سامنے آتے رہے، لیکن یہ دعوے صرف دعوے ہی رہے۔

21اگست 2017 کو انسداد دہشت گردی عدالت کے جج محمد اصغر خان نے اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے دس دن بعد ہی دس سال پُرانے اس کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔

وہ ملک دشمنوں کی آنکھوں میں کیوں کھٹکتی تھیں؟
بے نظیر کو عوام کے بنائے ہوئے ملک میں عوام کا راج مطلوب تھا
نعمان شیخ (رابطہ سیکریٹری پی پی پی سندھ)

27 دسمبر2007ء، ایک خونیں دن کی خونیں شام۔۔۔ جس کے بارے میں سوچتا ہوں کہ اس واقعے کو کس سے تشبیہ دوں، اس سانحے کو کیا نام دوں، کیا کہوں کہ جب بے نظیربھٹو جیسا چراغ جو بجھ گیا۔ ہم اس تحریر کے ذریعے یہ حقیقت سامنے لانے کی کوشش کریں گے کہ کہ ملک دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتی کیوں تھیں؟

ساڑھے29 سالہ سیاسی زندگی میں بے نظیربھٹو نے24 سال جدوجہد، مشکلات اور حزب اختلاف میں گزارے۔ انھیں دوباراقتدار تو دیا گیا لیکن اختیار نہیں دیا گیا۔ 1998ء میں بیرون طاقتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کی وجہ سے جلا وطن ہونے پر مجبور ہوئیں۔ ان سازشوں کے آلہ کار اس وقت کے حکم راں تھے جنھیں فقط ایک سال بعد ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

لندن میں مقیم اور آکسفورڈ میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والے صحافی شیام بھاٹیہ نے ان پر ایک کتاب "الوداع شہزادی" کے نام سے لکھی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ بے نظیر نے ان سے کہا تھا کہ ان کے والد جوہری پروگرام کے باپ تھے، لیکن میزائل پروگرام کی ماں وہ ہیں۔

بے نظیر بھٹو دسمبر 1988 میں بے نظیر بھٹو اپنے والد اور اس ملک کی عوام سے چھینی ہوئی کرسی پر جب براجمان ہوئیں تو ملک دشمنوں، عوام دشمنوں اور جمہوریت دشمنوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ ان کے خلاف یہ قوتیں یکجا ہوگئیں اور انہوں نے یہ تہیہ کرلیا کہ بھٹو خاندان کو راستے سے ہٹایا نہ گیا تو ان کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ اسی طرح پہلے 1988ء پھر 1996ء اور پھر 1998ء میں سازشوں کے ایسے تانے بانے بنے گئے کہ وہ جلاوطن ہونے پر مجبور ہوگئیں۔

دشمن ان کے جان کے درپے تھے۔ 1998ء سے 2007ء تک ملکی وبین الاقوامی سیاست پر ان کی گہری نظر رہی۔ وہ دہشت گردی اور جہادی تنظیموں کے خلاف واضح موقف رکھنے والی راہ نما تھیں۔ وہ زیرک سیاست داں تھیں۔ یہ ان کی سیاسی بصیرت اور فہم وفراست تھی کہ پاکستان اور بین الاقوامی سیاست کے سارے ستون ان کے مخالف کیمپ میں ہونے کے باوجود وہ بے نظیر بھٹو سے مذاکرات پر راضی ہوئے۔ وقت کے آمر اور بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ کچھ معاملات طے کرکے وہ پاکستان آرہی تھیں۔ سیاسی امور کے ماہرین مجھ سے اس بات پر ضرور متفق ہوں گے کہ وہ معاملات طے کئے بغیر پاکستان نہیں آسکتی تھیں۔

18اکتوبر کا دن بھی آگیا جس دن بے نظیر بھٹو کو اپنی دھرتی پر قدم رکھنا تھا۔ ملک بھر سے قافلے کراچی پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ جمہوریت پسند عوام اپنے محبوب قائد کے لیے دیدہ ودل فرش راہ کیے ہوئے تھے۔ ملک اور عوام سے بے حد پیار کرنے والی راہ نما بھی اپنی مٹی کو چومنے کے لیے بے تاب تھی، مگر شکاریوں کو یہ دن کھٹک رہا تھا ۔ انہیں ترقی قبول نہیں تھی، عوام کی خوشی قبول نہیں تھی۔ لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل پریشان تھے انہیں خبر ہوچکی تھی بہادر باپ کی بہادر بیٹی ان کے ایجنڈے پر عمل کرنے نہیں آرہی بلکہ اس کے عزائم کچھ اور ہیں۔ بے نظیر کیا چاہتی تھیں جو ان لوگوں کو قبول نہیں تھا۔

وہ چاہتی تھیں: فاٹا اور بلوچستان سمیت پورے ملک میں پاکستان کا جھنڈا لہرائے۔ وہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کو بااختیار کرنا چاہتی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ عوام کے بنائے ہوئے ملک میں عوام کا راج ہو۔ عوام اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں۔ وہ ہتھیار بندوں کو ہتھیار پھینکنے پر راضی کرچکی تھیں۔ وہ اس ملک سے مذہبی و لسانی منافرت ختم کرنے آرہی تھیں۔ ٹکڑوں میں بٹی قوم کو ایک کرنے آرہی تھیں۔ انھیں یقین تھا کہ وہ یہ سب کرپائیں گی، کیوںکہ وہ صوبوں کی زنجیر تھیں، وہ بے نظیر تھیں۔

وہ پڑوسی ممالک سے دوستانہ تعلقات چاہتی تھی کیوںکہ انھیں معلوم تھا کہ دشمن بدلے جاسکتے ہیں پڑوسی نہیں۔ جب 18اکتوبر کو انہوں نے اس ملک میں قدم رکھا تو دشمنوں نے انہیں یہ باور کرایا کہ معاملات اب ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو ان کی جان بخشی جاسکتی ہے مگر وہ تو بھٹو کی بیٹی تھیں۔ وہ مرنے سے نہیں ڈرتی تھیں۔ اس دن خوشی سے جھومتے عوام کو لہولہان کیا گیا، جمہوریت پسندوں اور عوام دوستوں کے چیتھڑے فضاؤں میں اڑ ائے گئے۔



قاتلوں نے سمجھا کہ لوگ ڈر جائیں گے۔ یہ مشن یہیں ختم ہوجائے گا مگر انہیں ایک بار پھر شکست ہوئی ۔18اکتوبر کی دل شکستہ، زخموں سے چور عوام 19اکتوبر کی صبح نئی امیدوں اور نئے عزم کے ساتھ اپنی محبوب قائد کے ساتھ مشن کی تکمیل کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ سول، جناح اور لیاری ہسپتال میں زخمیوں نے اپنے درمیان کھڑی اپنی قائد کا نئے انداز سے استقبال کیا۔ وہ سمجھ گئیں کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بڑی طاقتوں کو واضع پیغام دیا کہ مشن کی تکمیل تک یہ جدوجہد جاری رہے گی۔

اُن دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کے مختلف علاقوں میں جگہ جگہ اپنی انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔ اس حوالے سے 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ان کا عظیم الشان جلسہ تھا، جہاں حد نظر تک انسانی سر ہی سر نظر آرہے تھے۔

انھوں نے اپنے خطاب میں فوجی آمر کی حکومت پر دل کھول کر تنقید کی اور ججوں کی معزولی کے خلاف اور عدلیہ کی بحالی کے حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے فوجی آمر کے خلاف مہم کو بڑھانے اور دن بدن مہم میں شدت لانے کا اعلان کیا۔ جب انھوں نے ملک کی سرزمین پر قدم رکھا اور قریہ قریہ، چپہ چپہ اپنی انتخابی مہم چلائی۔ تب انھیں بڑی شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اگر ہم نے بیرونی طاقتوں او ران کے گماشتوں کی باتیں من وعن مان تسلیم کرلیں تو ہمیں اپنی خودمختاری و اساس سے محروم ہونا پڑے گا اور ملک اور قوم کو گروی رکھنا پڑے گا، جس کی وجہ سے انھوں نے اپنے عوام اور ملک وقوم کی بہتری کا راستہ چنا۔ جس کی پاداش میں بین الاقوامی قوتوں کے نزدیک وہ مجرم ٹھہریں لیکن ملک وقوم کی نظر میں وہ ہیرو بنیں اور 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کام یابی نے یہ بات ثابت کردی کہ وہ ہیرو تھیں ، ہیں اور رہیں گی۔

یہ ایک نقطہ نظر ہے کہ بیرونی طاقتوں نے اپنے مفادات پورا نہ کرنے کی پاداش میں انھیں شہید کرادیا۔ اس کام کے لیے کرائے کے اجرتی قاتل خریدے گئے، جنھوں نے بم دھماکا کیا جس کی وجہ سے محترمہ کے ساتھ ہجوم میں شامل 20افراد بھی موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد ایک سرکاری موقف سامنے آیا کہ اُن کی شہادت گاڑی کے سن روف کا لیور لگنے سے واقع ہوئی۔ دھماکے سے قبل بے نظیر عوام کا جم غفیردیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکیں اور چلتی گاڑی میں سن روف کو ہٹا کر گاڑی میں کھڑی ہو گئیں اور ہاتھ ہلاکر پُرجوش عوام کے نعروں کا جواب دینے لگیں۔

اس دوران بم کے دو زوردار دھماکے ہوئے اور محترمہ کا سر سن روف کے لیور سے ٹکرایا اور وہ گاڑی میں گرگئیں۔ ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑگئیں، جب کہ دوسرا موقف یہ تھا کہ جب وہ سن روف ہٹا کر کھڑی ہوئیں اور عوام کے نعروں کا ہاتھ ہلاکر جواب دے رہی تھیں اسی دوران اجرتی قاتل نے پہلے گولی چلائی جو سیدھی محترمہ کے سر میں لگی اور پھر خودکش دھماکا کیا۔ محترمہ گولی لگنے سے گاڑی میں گرگئیں اور ہسپتال جاتے وقت راستے میں ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ گولی چلانے والا اور بعد میں خود کو دھماکے سے اڑانے والا بیت اللہ محسود کا آدمی تھا اور بیت اﷲ محسود کو امریکا نے ڈرون حملے میں مارد یا ۔پہلی رپورٹ کو ہماری پارٹی نے مسترد کردیا کہ محترمہ کی شہادت گاڑی کا لیور لگنے سے واقع ہوئی تھی۔

وہ اپنے عظیم باپ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی تربیت یافتہ تھیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ملک وقوم کے لیے خود کو قربان کردیا، ظلم کے سامنے سر نہیں جھکایا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں