تاریخ کا ایک اہم باب
سندھو دیش کا نعرہ سب سے پہلے1930کے عشرے میں بلند ہوا
اکثر احباب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سندھ میں ترقی پسندی اور قوم پرستی گڈ مڈ نظر آتی ہے۔ یہ ان کا قصور نہیں، بلکہ سندھ کی تاریخ سے عدم واقفیت کا اظہار ہے۔ دراصل عوام کی اکثریت سندھ سمیت اس خطے کی تاریخ کے بارے میں واجبی سے بھی کم علم رکھتی ہے، جس پر پاکستان بنا ہے۔ سندھ میں ترقی پسندی اور قوم پرستی اس لیے گڈ مڈ نظر آتی ہے، کیونکہ سندھی عوام کو اپنے سیاسی، سماجی اور ثقافتی تشخص کی بحالی کے لیے90 برسوں پر محیط تحریک چلانا پڑی ہے، جو سندھ کی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ لہٰذا آج اس اظہاریے میں ملک کے دیگر حصوں کے عوام کی معلومات میں اضافے کے لیے سندھ میں برطانوی دور میں ہونے والی سیاسی جدوجہد کا اجمالی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سندھ برصغیر کا وہ خطہ ہے، جو انگریز کی آمد سے قبل ایک آزاد مملکت کی حیثیت رکھتا تھا ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ دہلی کی حکومتوں کے زیر اثر بھی رہا ہے، لیکن زیادہ ترخود مختار حکومتوں کے تابع ایک آزاد ملک ہی رہا۔ انگریزوں نے1843میں ٹالپروں کو شکست دینے کے بعد سندھ پر قبضہ کرکے اسے برطانوی حکومت کے ایک صوبے کا درجہ دیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے وسیع وعریض علاقے پر حکمران تھی۔اس وقت اس کی تین کلیدی پریسیڈنسیاں تھیں، یعنی کلکتہ، مدراس (حالیہ چنائے) اور بمبئی(حالیہ ممبئی)۔ لہٰذا انتظامی امور کو سہل بنانے کی خاطر کمپنی نے سندھ کو فتح کرنے کے چار برس بعد 1847 میں اسے بمبئی پریسیڈنسی کا حصہ بنادیا اورایک کمشنرکا تقررکردیا۔
سندھ کے متوشش شہریوں کی جانب سے بمبئی پریسیڈنسی میں انضمام کے خلاف چند برسوں کے اندر ہی عوامی تحریک شروع ہوگئی ۔ یہ تحریک پرامن ہونے کے باوجود انتہائی مؤثرتھی ۔ جس نے 1917میں شدت اختیار کرلی۔ شروع میںکانگریس سندھ کی بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کی مخالف تھی ، لیکن جب مسلم لیگ سمیت دیگر جماعتوں نے اس کے حق میں چلائی جانے والی مہم میں فعال شرکت کا فیصلہ کیا، تو کانگریس بھی علیحدہ صوبے کی بحالی کے مطالبے کی حمایت پر مجبور ہوگئی۔ یوں عوامی مزاحمت اور دو بڑی قومی سیاسی جماعت کے دباؤ کے نتیجے میں برطانوی حکومت سندھ کی 1847سے پہلے والی حیثیت بحال کرنے پر آمادہ ہوگئی۔ چنانچہ1919کے انڈیا ایکٹ میں اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس کی رپورٹ کے نتیجے میں انڈیا ایکٹ1935کی شق 46کے تحت سندھ کو بطور صوبہ تسلیم کرتے ہوئے، یکم اگست 1936کو اس کی سابقہ صوبائی حیثیت (جو انگریز نے اسے 1843 میں دی تھی) بحال کردی گئی۔
سندھ کے وڈیروں اور جاگیروں کو جب یہ اندازہ ہوا کہ عنقریب سندھ کو صوبائی حیثیت ملنے والی ہے تو انھوں نے اقتدار کے حصول کی جدوجہد تیز تر کردی۔ یہی وجہ ہے کہ جب سندھ بحیثیت ایک صوبہ بحال ہوا تو وڈیروں اور جاگیرداروں کے نمایندے سر غلام حسین ہدایت اللہ اس کے پہلے وزیراعظم مقرر ہوئے، جب کہ دوسری طرف سندھ کے عوام کی نمایندگی کرنے والے رہنما اس نئی صورتحال سے خاصے دل گرفتہ تھے۔
خاص طور پر سائیں جی ایم سید، شیخ عبدالمجید سندھی، جمشید نسروانجی، جیٹھ مل پرس رام اور عبدالقادر نئی صورتحال کا گہری نظر سے مطالعہ کررہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جس انداز میں وڈیرے اور جاگیردار اقتدار و اختیار کی کشمکش میں مبتلا ہیں، اس کے نتیجے میں سندھ کے عام شہری کو صوبے کی بحالی سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا ۔ بلکہ ان کی زندگیوں پر انتہائی برے اثرات مرتب ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ لہٰذا ان اکابرین نے 1931میں سندھ ہاری کمیٹی قائم کی۔ جس کے قیام کا مقصد ہاریوں کو وڈیروں اور جاگیرداروں کے ظلم و ستم اور استحصال سے محفوظ رکھنے کے علاوہ ان کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔
اس دوران جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا قائم ہوچکی تھی، لیکن 1930کی آمد تک کمیونسٹ پارٹی کی سندھ میں کوئی منظم تنظیم موجود نہیں تھی۔البتہ کمیونسٹ خیالات سندھ تک پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سندھ ہاری کمیٹی کا منشور خاصی حد تک کمیونسٹ مینی فیسٹو سے متاثر نظر آتا ہے۔جس کی کئی شقیں اس مینی فیسٹو کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں ۔ سندھ ہاری کمیٹی 1945 تک ایک پریشر گروپ کے طور پر کام کر رہی تھی۔1945میں جب حیدر بخش جتوئی اس میں شامل ہوئے تو انھوں نے مولوی نذیر حسین، عبدالغفور جان سرہندی ، غلام محمد لغاری اور میاں عبدالقادر کے ساتھ مل کر اسے ایک فعال سیاسی جماعت کی شکل دی ۔ قیام پاکستان کے وقت سندھ ہاری کمیٹی کے صوبے کے ہر شہر اور تحصیل کے علاوہ چند گوٹھوں تک میں یونٹ قائم ہوچکے تھے۔
یہاں اس پہلو پر غورکرنے کی ضرورت ہے کہ 1917 میں جب روس میں بالشیوک انقلاب کامیاب ہورہا تھا ، سندھ میں بمبئی پریسیڈنسی سے علیحدگی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی ۔ ساتھ ہی سندھ کے فیوڈل اور جاگیردار اقتدار پر قبضے کے لیے فعال ہو رہے تھے۔ یوں ہمیں ایک طرف با اثر فیوڈل اور وڈیرے برطانوی حکومت کے ساتھ مضبوط روابط کے ذریعے صوبے کے اقتدار و اختیار پر قبضے کے لیے فعال ہوتے نظر آتے ہیں، جب کہ دوسری طرف وہ عوامی تحاریک بھی تیزی کے ساتھ ابھر رہی تھیں ، جو سندھ کو ایک مکمل آزاد ریاست کے طورپر دیکھنے کی خواہشمند تھیں ۔کیونکہ ان سیاسی قوتوں کے خیال میں سندھی عوام کے مسائل کا اس وقت تک صحیح طور پر حل ممکن نہیں ، جب تک کہ سندھ ایک مکمل طور پر آزاد اور بااختیار ریاست نہیں بن جاتا ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سندھو دیش کا نعرہ سب سے پہلے1930کے عشرے میں بلند ہوا۔
شیخ عبدالمجید سندھی بھی آزاد سندھ کے حامی تھے۔ انھوں نے 1932میں سندھ آزاد پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی ، جب کہ سر شاہنواز بھٹو نے 1934 میں سندھ پیپلز پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کی۔جس میں جی ایم سید، حاتم علی علوی، میراں محمد شاہ (نوید قمر کے دادا) ، حاجی عبداللہ ہارون، اللہ بخش سومرو جیسی قد آور شخصیات شامل تھیں۔
لیکن 1937کے انتخابات سے ایک سال قبل یعنی1936 میں سندھی زمینداروں اور بااثر شخصیات کے دباؤ پر انھی احباب نے پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کی طرز پر سندھ یونائیٹڈ پارٹی قائم کرکے سندھ پیپلز پارٹی کو اس میں ضم کردیا ۔ سر غلام حسین ہدایت اللہ نے اس جماعت میں شمولیت کا وعدہ کرلیا تھا، مگر جب میراں محمد شاہ مرکزی رہنما کے طور پر سامنے آئے، تو انھوں نے ان کے ساتھ ذاتی نوعیت کے اختلافات کے باعث شمولیت سے معذرت کرلی۔اس کے بعد انھوں نے سندھ مسلم پولیٹیکل پارٹی کے نام سے جماعت تشکیل دے کر انتخابات میں حصہ لیا، مگر ان کی جماعت کو صرف چار نشستیں مل سکیں۔ اس طرح سندھ کی پہلی اسمبلی میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی مسلمانوں کی نمایندہ جماعت کے طور پر ابھرکرسامنے آئی ۔
1938میں جی ایم سید اپنے ساتھیوں پیرعلی محمد راشدی، میران محمد شاہ اور دیگر کے ساتھ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ یوں انھوں نے سندھ کی صوبائی سیاست کو ملک گیر سیاست کا حصہ بنانے کی کوشش کی ۔ انھوں نے سندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرائی مگر جلد ہی ان کے مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت سے اختلافات ہوگئے۔ جس کا سبب 1946میں آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے1940کی قرارداد میں ترامیم تھی ۔ خاص طور پرلفظ states کی جگہ stateکیاجانا ان کے لیے ناقابل قبول تھا،کیونکہ سائیں جی ایم سید سمیت کئی رہنما مسلم لیگ میں اس لیے شامل ہوئے تھے کہ نیا ملک ایک فیڈریشن کے طور پر ان ریاستوں کی اندرونی خودمختاری کا احترام کرے گا، جو بطور ایک وفاقی یونٹ اس میں شامل ہورہی ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد بنگال اور چھوٹے صوبوں کے حقوق کو جس انداز میں پامال کیا گیا،اس نے سندھ میں اس تحریک کو دوبارہ زندہ کردیا ، جوبمبئی پریذیڈنسی کے خلاف سندھ کے عوام نے 93 برس تک چلائی تھی، مگرآج سندھی عوام کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان کے جغرافیے کے اندر رہتے ہوئے ان کا سیاسی، سماجی اور ثقافتی تشخص بحال ہو اور اپنے صوبے کے اندرونی انتظام چلانے میں انھیں بااختیاریت حاصل ہو۔ اس لیے سندھ میں ترقی پسندی کی تحریک کو کسی بھی طورپر قوم پرستی کے سیاسی شعور سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ۔