وقت
اسٹیفن ہاکنگ کے پاس ’’وقت‘‘ جس مظہرکوکہتے ہیں وہ دراصل ’’زمان ومکاں‘‘ ہے
یوں تو ''وقت'' پر لکھنے کے لیے خود وقت کی کوئی قید نہیں، مگر سال کے آخری سورج ڈھلنے کے وقت ، پوری دنیا وقت کی نذر ہو جاتی ہے۔ گزرے سال پر مسرت کا سماں ہوتا ہے یا آنے والے سال پر مگر اس میں مسرتوں کی بنیادی کوئی وجہ نہیں۔ پھر بھی خوشی کے لمحے جس طرح بھی ملیں جیسے بھی ملیں اچھے ہیں۔ ورنہ غالبؔ کے پاس ان لمحوں کی تشریح کچھ اس طرح سے تھی۔
کب سے ہوں کیا بتاؤں جہان خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
اس کے لیے یہ وقت صرف جدائی کا عکس تھا اور عکس میں سب جہان خراب تھا، ایک لمبی جدائی تھی۔ صوفیوں کے پاس بھی کچھ اس طرح تھا۔ ہونا خیال تھا اور نہ ہونا خیال کا مکمل ہونا تھا۔ زمان ومکاں شعورکی مستی تھی اور لامکاں وہ منزل تھی جہاں زمان ومکاں پردہ بدلتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کے پاس ''وقت'' جس مظہرکوکہتے ہیں وہ دراصل ''زمان ومکاں'' ہے۔
کیونکہ وقت کی معنیٰ زمان اور مکاں اس جگہ کا نام ہے جہاں سے وہ گذرتا ہے جوں جوں وہ وہاں سے گزرتا ہے جگہ اپنے رنگ و روغن بدلتی ہے، اسی میں خود تبدیلی ہوتی ہے وہ ایک وقت میں جیسا ہوتا ہے دوسرے وقت میں ویسا نہیں ہوتا ۔ مطلب یہ کہ نیوٹن والی بات '' کوئی شے ساکن نہیں ہوتی، تحرک ہے۔ سب رواں ہے'' اور بلاخر 365 دنوں کا سال اپنی آغوش میں خود محو خیال ہوتے انتقال ہوجاتا ہے۔ انتقال کیا ہے؟ مکاں کا تبدیل ہونا، کیوں ہوتا ہے؟ زماں آجاتا ہے اس کے آڑے۔ وہ جو انتقال ہوتا ہے وہ تبدیل ہوجاتا ہے اور مسلسل تبدیل ہوتا ہے اور وہ جو انتقال سے پہلے ہوتا ہے وہ بھی کچھ اس طرح سے گزرتا ہے۔ یادوں کے سلسلے ہیں، خوشبؤں کی رچنائیں ہیں اور جب بہت اچھی یادیں گزر جاتی ہیں، محبوب چلے جاتے ہیں یا جب وصل آجاتا ہے تو پھر وقت کو غالبؔ کچھ اس طرح سے دیکھتا ہے۔
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز ماہ وسال کہاں
تب جاکے عمر کے آخری زینوں میں پھر یہ خیال بھی آن پڑتا ہے مرزا کو اور پھر کہتے ہیں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت جگر میں حال کہاں
دیکھئے تو سہی، کتنے آشنا ہیں وقت میں پڑے نشیب و فراز سے۔ ہجر سے، ماہ وسال سے ۔
وقت جیسے بانسری کی کتھا ہے مولانا جلال الدین کی بانسری اس کی مثنوی شروع ہی ''بشنوئے اینی'' سے ہوتی ہے یعنیٰ بانسری کی کتھا سے۔ اس کی بانسری بنس سے جدا ہونے پے اپنے اندر درد کی کیفیت پاتی ہے اور و ہ درد اس کی آواز میں جادو آلاپ دیتا ہے اور جو بھی بانسری کو سنتا ہے اس کی آنکھوں سے اشک بار بار اترتے ہیں شرط یہ ہے کہ سننے والی دل جدائی سے پارہ پارہ ہو۔ اور پھر زمان و مکاں کو سمجھنا فقط عشق دل کا نام ہے۔
شعور آتا حالات و سکنات سے ہے مگر پھر اس کی پرواز بہت اونچی ہوجاتی ہے۔ شعور پھر خیال کی بلندی کی طرف نکل پڑتا ہے اور پھر خیال کسی فرد واحد کی ملکیت نہیں رہتا۔ وہ مجموعہ خیال میں ضم ہوجاتا ہے، کل بنی نوع انسان کا اثاثہ ہوجاتا ہے۔ جس کو مارکس لغت میںمحنت مشمولا یعنیٰ Embodied labor کہا جاتا ہے۔ یہ جو کراچی آپ دیکھ رہے ہیں لگ بھگ ڈیرہ سو سال کی تاریخ پر مشتمل یہ شہر خود اپنی جوہر میں ان ماہ و سال میں پڑے خیالوں کا مجموعہ ہے۔ یہ جو جنبش لوح و قلم ہے وہ کیا ہے؟ ایک خیال کو کاغذ پر رقم کرنا ہے۔ خود کراچی بھی ایک خیال ہے خیالوں سے لڑیاں ملا کے مجموعہ خیال بنا کے ڈیڑھ صدی سے رقم ہوا جس طرح خیال کاغذ پر رقم ہوا اسی طرح کراچی بلند عمارتوں ، فنوں لطیفہ، تاریخ، سماجیات،سوچ و ہنر میں تبدیل ہوا۔ یہ زمان بھی ہے یہ مکاں بھی ہے۔ اور اس طرح یہ سب ارد گرد اپنے اجداد کے معنوں کا عکس ہے۔ مسافتیں ہیں، منزلیں ہیں راستے ہیں۔
اور اسطرح آج ہم ایک ایسے دروازے کے پاس کھڑے ہیں جہاں 2017ء کو گذر جانا ہے کہ 2018ء کے لیے جگہ بنیں۔
فرد کچھ بھی نہیں پتنگا ہے جسے جلنا ہوتا ہے تاکہ چلمن جلتی رہے۔ خیمے گھڑتے رہیں، طبل بجتے رہیں۔ یہ رند ہیں، میخانہ ہے۔ کتنے سارے سخن ہیں جو تمہارے ہیں ہمارے ہیں اور پھر کس طرح یہ سب غبار خاطر ہے۔
ہمارے شاہ بھٹائی، سیلانی تھے۔ انھوں نے سفر میں مشاہدے پائے، طرح طرح کے لوگ دیکھے، طرح طرح کے منظر ۔ سمندر، دریا، مچھیرے،کشتیوں میں سامان چڑھتے اور اترتے دیکھا۔ یہ جو Marine لوگ ہوتے ہیں ان کو سندھی میں یا پرانی شاہ بھٹائی کی زبان میں ''ونجارو'' کہا جاتا ہے۔ اسے یہ کردار بہت حیران کن حد تک عجیب لگا۔ ایک ایسا فرد جس کی چپل میں صرف چلنا لکھا ہے اور وہ جب گھر کو ابھی آیا نہیں اور پھر ابھی اس کی سفر کے لیے روانی ہے۔ اس کی بیوی اس کے جانے سے اداس۔ وہ آتا ایک دن کے لیے ہے اور سمندر میں رہتا کئی ماہ و سال ہے اور پھر یہ لکھتے ہیں جس کو شاہ اپنی زبان میں اسطرح سے رقم کرتا ہے
''ونجاری کی ماں
ونجارا نہ جننا''
شاہ پھر آخر میں اپنے خیال کو (میرے نزدیک) کچھ اسطرح سے مکمل کرتا ہے۔
''میں نے امرت پی کے یہ جانا ہے
زندگی کچھ بھی نہیں بس دن صرف دوکی کہانی ہے
میرے رب بس تو ہی تو ہے جو امر ہے''
2017ء کا اب کے بار جانا ہے ہمارے لیے ایک ایسا لمحہ ہے جہاں سے پھر ہم شروع کرتے ہیں ایک نئے سال کو ، نئی ترتیب نئے عزم کو۔ جتنا جتنا آپ کا شعور وسیع ہوگا ، اتنا اتنا آپ کی بینائی میں روشنی ہوگی آپ دور اندیش ہوں گے، سوچ وسیع ہوگی خیال وسیع ہوگا۔ درگزروسخی ہوں گے۔
اس لیے یہ جو لمحے جو وقت کے طویل دیو قامت وقت کی عنایت ہے جو بے رحم ہے اور بہت ہی بے رحم ہے اس کی بے رحمی کو سمجھیں گے تو عنایت ہوگی۔ زندگی مسلسل عمل ہے ۔ شاہ بھٹائی کی سب سے بڑی دشمن ''نیند'' تھی۔
''ارے او سونے والو جاگو
''سلطانی معراج نیندکرنے والوں کو نہیں ملتی'''
پھر کہتے ہیں
''گرمی ہو، سردی ہو، بیٹھنے کی بات نہ کرو
کہیں یہ بد بختی تمھارے نہ آن پڑے
کہ محبوب کے پاؤں کے نشان بھی نہ پا سکو''