آؤ سچائی کا پیچھا کریں
وہ درندے ہیں جو انسانوں کے خواب اور خواہشیں نو چ نو چ کر کھارہے ہیں
یہ 407 قبل مسیح کا واقعہ ہے پہلے دن سے افلاطون روشن طبع نوجوانوں کی اس ٹولی میں شامل ہوگیا جو شہر کی گلیوں میں '' چم چچڑ '' (شہر کے لوگ سقرا ط کو سچائی کا پیچھا کرنے کی عادت کی وجہ سے اسی نام سے پکارتے تھے ) کے پیچھے لگی رہتی تھی اور مسرت آمیز تعجب کے ساتھ دیکھتی کہ وہ ایتھنز کے سب سے زیادہ سیانوں کو بھی کس طرح اپنی لاعلمی کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیتا تھا سقراط کہتا تھا '' میں تو بس ایک ہی بات جانتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا '' اس کے ساتھ ہی وہ یہ بات ثابت کر نے پر تل گیا کہ اس کی طرح دوسرے لوگ بھی بے خبر ہیں وہ کچھ نہیں جانتے ۔
اس کا کام یہ تھا کہ خود سیکھے اور دوسروں کو سیکھنے کے قابل بنائے ۔ چنانچہ اس نے کہا یہ کہ '' میری ماں دایہ تھی اور میں اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کررہا ہوں میرا تعلق ذہنی زچگی کے امور سے ہے میں دوسرے کا ہاتھ بٹا تا ہوں تاکہ وہ اپنے خیالات کو جنم دے سکیں ۔ وہ ایتھنز کی گلی کوچوں میں مٹر گشت کرتا رہتا ہر جگہ وہ اپنا ابتدائی سا سوال پوچھتا ۔ زہد و تقویٰ کیا ہے ؟ جمہوریت کیا ہے ؟ نیکی کس کو کہتے ہیں ؟ حوصلہ مندی سے کیا مراد ہے ؟ دیانت داری کیا شے ہے ؟ انصاف کیا ہے اور سچائی کس کو کہتے ہیں ؟ اچھا تو کام کیا کرتے ہو اور تم نے اس میں کون سے علم اور مہارت کا اضافہ کیا ہے ؟ کیا تم سیاست دان ہو اچھا ہو تو یہ تو بتا ؤ کہ تم نے حکومت کے متعلق سیکھا کیا ہے ؟ وکیل ہو ؟ انسانی سر گرمیوں کے انسانی محرکات کے بارے میں تم نے کیا مطالعہ کیاہے ؟استاد ہو ؟ خوب مگر ذرا یہ تو بتاؤ کہ دوسروں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے سے پہلے تم نے خود اپنی جہالت پرقابو پانے کے لیے کون سے اقدامات کیے ہیں ؟ بتاؤ ۔ بتاؤ ناں ۔
ایک بار اس نے کہا تھا کہ '' میں سراغ رساں کتے کی طرح سچائی کا پیچھا کرتا ہوں '' ۔ وہ کہتا تھا اپنے آپ کو پہچانو۔ ہوتا مگر یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنے آپ کو پہچانتے ہیں تو ان کو مایوسی ہوتی ہے جب وہ آئینے میں جھانکتے ہیں تو ان کو اپنے سندر چہروں کے بجائے درندے دکھائی دیتے ہیں ایسے درندے جو انسانوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں وحشت ناک حیرانگی اس وقت ہوتی ہے جب یہ لوگ اپنے آپ کو پہچانتے نہیں ہیں کیا انھیں اپنے منہ پر لگے ہزاروں معصوم اور بے گنا ہ لوگوں کا خون نظر نہیں آتا ہے جو ان کی وجہ سے بے وقت قبروں میں جا سوئے ہیں کیا انھیں اپنے اندر سے بھونکنے کی آوازیں سنائی نہیں دیتی ہیں کیا انھیں بستیاں کی بستیاں روتی دکھائی نہیں دیتی ہیں کیا ۔
وہ اس بات پر غور نہیں کرتے ہیں کہ قبرستان اتنی جلدی جلدی کیوں آباد ہورہے ہیں اور بستیاں کیوں اتنی تیزی سے اجڑ رہی ہیں کیا انھیں اجڑی مانگیں دکھائی نہیں دیتی ہیں کیا انھیں فقراء کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوتے ہوئے معلوم نہیں ہورہا ہے اصل میں یہ وہ درندے ہیں جو انسانوں کے خواب اور خواہشیں نو چ نو چ کر کھارہے ہیں یہ ہی سب اصل میں محروم سماج کے باپ ہوتے ہیں ۔ لیوئن کو 5 جولائی 1919 کی شب گزیدہ سحرتاریک راہوں کی نذر کردیا گیا ، میونخ کے سٹیڈیل ہائم جیل میں فائر نگ اسکواڈ نے اسے زندگی کی قید سے آزاد کردیا اس کے وکیل کاؤنٹ پیٹانورا کے الفاظ آج بھی روز حشر کی علامت کے طور پر گونجتے ہیں اس نے کہا تھا '' اس آدمی کو موت کی سزا مت دو اگر تم نے ایسا کیا تو یہ کبھی نہیں مرے گا۔ یہ دوبارہ سے جیناشروع کردے گا ۔
اس شخص کی موت تمام کمیونٹی کے ضمیر پر بوجھ بن جائے گی اور اس کے خیالات ہیبت ناک انتقام کے بیج بو دیں گے '' ۔ یا د رکھو میرے خداؤں تمہارے ظلم و ستم ، ناانصافیوں ، زیادتیوں کی وجہ سے قبروں میں جاکر سونے والے معصوم اور بے گناہ انسان کبھی نہیں مریں گے آج نہیں توکل وہ سب دوبارہ سے جینا شروع کردیں گے یہ بھی یاد رکھنا وہ سب اپنے قاتلوں کو بھولے نہیں ہیں اور نہ بھولیں گے جس طرح ارجنٹائن کے ٹوما سیلا نے اپنی موت ان الفاظ کے ساتھ مکمل کی تھی ۔ '' مجھے یقین ہے کہ سچ اور انصاف بالآخر سرخ رو ہونگے ۔
اس کے لیے نسلیں درکار ہونگی اگر مجھے اس جنگ میں مرنا ہے تو پھر ایسا ہی ہوگا لیکن ایک روز ہم سرخرو ہونگے اس دوران مجھے خبر ہے میرا دشمن کون ہے اور دشمن کو بھی خبر ہے کہ میں کون ہوں '' وہ جو اب تک زندہ ہیں وہ اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ تو کرہی سکتے ہیں کہ ٹو لیاں بنا کر وہ ہی سوال جو سقراط ایتھنز کے سیانے لوگوں سے کرتا تھا جو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ سب کے جانتے ہیں انھیں وہ ہی سوال ہمارے ان سیانے لوگوں سے جو یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کچھ نہیں جانتے اور سمجھے یہ بیٹھے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں ضرور کرنا چاہیے کہ زہد و تقویٰ کیا ہے ؟ جمہوریت کیا ہے ؟ نیکی کسے کہتے ہیں ؟ حوصلہ مندی سے کیا مراد ہے ؟دیانت داری کیا شے ہے ؟ انصاف کیا ہے اور سچائی کس کو کہتے ہیں ؟
اچھا تو کام کیا کرتے ہو اور تم نے اس میں کون سا علم اور مہارت کا اضافہ کیا ہے ؟ کیاتم سیاست دان ہواچھا ہو تو یہ بتا ؤ کہ تم نے حکومت کے متعلق سیکھا کیا ہے ؟ وکیل ہو؟ انسانی سر گرمیوں کے انسانی محرکات کے بارے میں تم نے کیا مطالعہ کیاہے ؟ استاد ہو؟خوب مگر ذرا یہ بتاؤ کہ دوسروں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے سے پہلے تم نے خود اپنی جہالت پر قابو پانے کے لیے کون سے اقدامات کیے ہیں ؟ بتاؤ ۔ بتاؤ ں ناں ۔ تمہارے ان سوالوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہ یہ جان پائیں کہ وہ کچھ نہیں جانتے اور پھر ہوسکتا ہے کہ یہ جاننے کے بعد کہ وہ کچھ نہیں جانتے پھر وہ جاننے کی کوشش شروع کردیں اور پھر جاننے کے بعدوہ چین سے رہنا شروع کردیں تاکہ ہمیں بھی چین نصیب ہوسکے ۔