چندا کی شبنم چکوری کی شبانہ
شبنم کو لاہور کی فلم انڈسٹری میں کامیاب ہیروئن ہونا تھا اور شبانہ کوواپس ڈھاکا جاکر بنگالی فلموں کی سپراسٹار بننا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ڈھاکا میں بنگالی فلموں کے ساتھ اردو زبان کی فلموں کو بھی فروغ دیا گیا تھا اور کراچی و لاہور کے فنکار بھی ڈھاکا کی اردو فلموں میں اپنے فن کا جادو جگانے جاتے تھے۔ گلوکار مجیب عالم، گلوکار مسعود رانا اور گلوکار اسلم رضا نے ڈھاکا میں کئی اردو فلموں میں گانے ریکارڈ کروائے تھے۔ گلوکار مجیب عالم نے تو ڈیبو ہی ڈھاکا کی فلم 'کیسے کہوں' سے کیا تھا۔
اب میں آتا ہوں ڈھاکا کی پہلی اردو فلم چندا کی ہیروئن شبنم اور چکوری کی ہیروئن شبانہ، فلم گوری کی ہیروئن سلطانہ زماں کی طرف۔ ان آرٹسٹوں کی اردو فلموں نے ڈھاکا میں بڑی دھوم مچائی تھی۔ یہ فنکارائیں پاکستان کے نگار پبلک فلم ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کرنے اور بعض آرٹسٹ ایوارڈز وصول کرنے کراچی آئی تھیں اور ڈھاکا کے فلمی ستاروں کی کہکشاں کراچی کے فلمی افق پر بھی ایسی چمکی تھی کہ کراچی کی فلمی تقریبات میں چار چاند لگادیے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب میں بھی کراچی میں فری لانس فلمی صحافی ہوا کرتا تھا اور میں نے لاہور کی فلم انڈسٹری میں جانے اور بحیثیت رائٹر و نغمہ نگار شہرت پانے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ میں کچھ عرصے بعد نگار ویکلی سے وابستہ ہوگیا تھا اور میں نے فلم چندا کی شبنم، فلم گوری کی سلطانہ زماں اور فلم چکوری کی ہیروئن شبانہ سے یادگار انٹرویوز اور ملاقاتیں کی تھیں۔ جب ان ہیروئنوں کی کراچی اور لاہور کی فلم انڈسٹری میں کوئی شناخت نہیں تھی اور ان پر ڈھاکا فلم انڈسٹری کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔
چندا کی ہیروئن شبنم، جس کا اصلی نام جھرنا تھا، وہ بنگالی اسٹیج ڈراموں سے بنگالی فلموں اور پھر ڈھاکا کی اردو فلموں کا حصہ بنی تھی۔ جھرنا نے 1958 میں پہلی بار بنگالی فلم 'راجدھانیربوکے' میں کام کرکے اپنی صلاحیتوں کا احساس دلایا تھا۔ انتہائی دبلی پتلی شبنم جب کراچی پہلی بار آئی تو اپنے سانولے رنگ اور بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ حسنِ بنگالی کا نمونہ تھی، جسے اردو بولنا بھی نہیں آتی تھی اور وہ چند ٹوٹے پھوٹے اردو کے الفاظ بڑے دلچسپ انداز میں بولتی تھی۔
یہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھی اور اس کا موسیقار شوہر روبن گھوش کرسچن تھا، دونوں کی محبت کی شادی تھی۔ جب میری پہلی ملاقات شبنم سے کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی تھی تو اس سے باتیں کرکے بڑا لطف آیا تھا۔ اسی طرح فلم گوری کی ہیروئن سلطانہ زمان اپنے کیمرہ مین شوہر ایم زمان کے ساتھ کراچی آئی تھی، بڑی خوش شکل اور خوش گفتار بھی تھی، وہ اردو اور انگریزی میں گفتگو کرتی تھی تو بڑی بھلی لگتی تھی۔
فلم ''چکوری'' میں فلم بینوں نے ندیم اور شبانہ کی جوڑی کو بہت پسند کیا تھا۔ نوعمر شبانہ اور نوجوان ندیم فلم پر چھائے ہوئے تھے۔ فلم کے ایک ایک منظر میں شبانہ ندیم نے بڑی متاثر کن اداکاری کی تھی۔ چکوری ڈھاکا میں 22 مارچ 1971 میں ریلیز ہوئی تھی اور شبانہ ندیم کی اس فلمی جوڑی نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ ایسی بے مثال کامیابی اس فلم سے پہلے کسی اور جوڑی کو نصیب نہیں ہوئی تھی لیکن جب چکوری کراچی میں ریلیز ہوئی تھی تو اس کا بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے جو آگے آئے گا۔
ندیم جس کا اصلی نام نذیر بیگ تھا، یہ اسلامیہ کالج کراچی کا طالب علم تھا۔ ندیم کو اداکاری سے کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی اور یہ کالج کے سالانہ فنکشن کے موقع پر ڈرامہ سوسائٹی کی طرف سے پیش کیے جانے والے ڈراموں سے بھی دور ہی بھاگتا تھا، اسے تو بس گلوکاری کا شوق تھا اور یہ گلوکار مکیش کا دیوانہ تھا۔ اس دوران اپنی گلوکاری کے شوق کو پروان چڑھانے کے لیے اس کی ملاقات موسیقار نثار بزمی سے ہوگئی۔
موسیقار نثار بزمی کو اس کی آواز اچھی لگی اور پھر یہ اکثر و بیشتر نثار بزمی کے گھر حاضری دینے لگا۔ ان دنوں نثار بزمی کو کراچی میں ایک فلم ''سہرا'' کے لیے موسیقی دینے کی آفر ہوئی جو انھوں نے قبول کرلی اور پھر ایسٹرن فلم اسٹوڈیو جو پہلا گیت ریکارڈ کیا گیا وہ نذیر بیگ کی آواز میں کیا گیا تھا۔ مگر نذیر بیگ کی یہ خواہش ایک ادھورا خواب ثابت ہوئی اور فلم سہرا صرف دو گیتوں کی ریکارڈنگ کے بعد بند کردی گئی۔
اب یہاں سے ایک دوسرے سفر کا آغاز ہوتا ہے، نذیر بیگ کراچی سے ایک میوزک گروپ کے ساتھ ڈھاکا چلاجاتا ہے، وہاں اس کی ملاقات موسیقار کریم شہاب الدین سے ہوئی، موسیقار کریم کو نذیر بیگ کی آواز اچھی لگتی ہے، اسے ڈھاکا کی دو فلموں میں گیت گانے کے مواقع ملتے ہیں، ایک فلم کیسے کہوں اور دوسری فلم تھی بیگانہ، ان دو فلموں میں بطور گلوکار آنے کے بعد قسمت پھر ایسی یاوری کرتی ہے کہ نذیر بیگ خود بھی حیران پریشان ہوجاتا ہے، ہدایت کار و فلمساز احتشام کی پہلی اردو فلم چکوری کے لیے یہ ہیرو منتخب کرلیا جاتا ہے، چکوری میں اسے گیت گانے کا بھی موقع ملتا ہے اور یہ پھر ندیم کے نئے نام سے چکوری کا ہیرو بن کر منظر عام پر آتا ہے۔
ندیم کے کچھ کلوز دلیپ کمار انداز کے فلم کی ریلیز سے پہلے مشہور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کیمرہ مین آر اے ممتاز نے ندیم کو فلم چکوری میں انڈین ہیرو دلیپ کمار کے روپ میں بدل دیا تھا۔ چکوری ڈھاکا میں ہٹ ہونے کے بعد جب کراچی میں ریلیز ہوئی ہے تو پہلے دن بڑا ہی مایوس کن انداز اختیار کرتی ہے۔ جمعہ کو فلم ریلیز ہوئی تھی، ہفتہ کراچی کے مقامی اخبارات میں ایک خبر نمایاں طور پر شایع ہوتی ہے، خبر کا متن یہ ہوتا ہے کہ اسلامیہ کالج کا سابق طالب علم نذیر بیگ فلم چکوری میں ہیرو بن کر آیا ہے۔ اور صبح کی یہ خبر اخبارات کے ذریعے جنگل کی آگ کی طرح سارے کراچی میں پھیل جاتی ہے۔
اسلامیہ کالج پاکستان کا سب سے بڑا کالج تھا، اس کے آرٹس، سائنس اور لاء کالج کے تین بڑے سیکشن تھے اور اس کے طالب علموں کی ہزاروں میں تعداد تھی پھر یوں ہوا کہ ہفتہ کے دن نوجوانوں کی ٹولیاں پیراڈائز سینما کی طرف وقفے وقفے سے آتی رہیں اور نوجوانوں کی قطاریں اتنی لمبی ہوتی چلی گئیں کہ وہ سینما کے احاطے سے سڑک تک چلی گئی تھیں۔ پہلا شو ہفتہ کا بمپر شو ہوگیا، پھر آخری شو تک ہاؤس فل کے کئی بورڈ سینما کی کھڑکیوں پر آویزاں کردیے گئے تھے اور چکوری ہر نئے دن کے ساتھ نئی شان کے ساتھ ہٹ ہوتی چلی جارہی تھی۔
چکوری نے کراچی میں ڈائمنڈ جوبلی منائی تھی۔ اگر شبنم کی طرح چکوری کی ہیروئن شبانہ کو بھی کوئی الیاس رشدی جیسی مشہور فلمی شخصیت تھوڑا بہت سہارا دے دیتی تو شبانہ ندیم کی جوڑی ایک نیا رخ اختیار کرجاتی، مگر یہ سب قسمت کی باتیں ہیں۔ شبنم کو لاہور کی فلم انڈسٹری میں ایک کامیاب ہیروئن ہونا تھا اور شبانہ کو واپس ڈھاکا جاکر بنگالی فلموں کی سپر اسٹار بننا تھا۔
شبانہ نے 9 سال کی عمر میں چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے کام کیا تھا، پھر جب وہ جوانی کی دہلیز پر آئی تو بنگال کے تمام بڑے بڑے ہیروز کے ساتھ بطور ہیروئن کاسٹ ہوئی، جن میں اس دور کے تمام لیجنڈ ہیروز عظیم رزاق، خلیل، شوکت، اکبر، حسن امام اور اداکار رحمان شامل تھے۔ شبانہ نے انڈیا کی ایک فلم شترو میں بھی سپر اسٹار راجیش کھنہ کے ساتھ کام کیا تھا اور اس وقت اس کا نام شبانہ صادق تھا۔
شبانہ نے بے شمار بنگالیوں فلم میں کام کیا اور درجنوں فلموں میں ایوارڈز حاصل کرنے کے ساتھ بنگلا دیش انٹرنیشنل کانفرنس کے دوران کچھ عرصہ پہلے اسے ہیروئن اداکارہ کے نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ کاش شبانہ کچھ عرصہ کراچی یا لاہور میں رہنے کی ہمت کرجاتی تو یہ بھی پاکستان فلم انڈسٹری میں شبنم کے بعد ایک اور کامیاب ترین ہیروئن ہونے کا اعزاز حاصل کرسکتی تھی۔