نقشِ وحشت ثبت کرگیا گیا سال جاتے جاتے
امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی کے ملک میں بیٹیاں بے آبرو ہوتی رہیں، لاشے گرتے رہے
پیار و محبت کی طرح ’مفادات‘ کی جنگ میں سب جائز ہے۔ فوٹو؛ فائل
یہ ایک داستان نہیں، اک نوحہ ہے، انسانیت کی موت پر بین کرتی انسانیت کا۔ ۔ یہ ایک داستان نہیں ، اک المیہ ہے، امن کے داعی بودھوں کے رقص ابلیس پر۔ یہ ایک داستان نہیں، ایک حقیقت ہے اپنی ہی سرزمین پر شناخت سے محروم رہنے والوں کی۔۔ یہ ایک حقیقت ہے، سمندر کی بپھری موجوں پر بھوک و پیاس سے مرتے لوگوں کی۔ یہ ایک حقیقت ہے، بے آبر و ہوتی بنت حوا کی۔ یہ ایک طمانچہ ہے عیش و عشرت میں زندگی گزارتے مسلمانوں کے رخساروں پر۔ یہ کہانی ہے، روئے عالم کی مظلوم ترین اقلیت 'روہنگیا' کی۔
بے سرو سامانی، نہ سر پر چھت نہ پیرو ں تلے زمین، بنیادی انسانی حقوق تو دور کی بات انہیں تو خود کو ملک کا شہری کہلانے کا حق بھی حاصل نہیں۔ روہنگیا کو زندہ درگور کرنے والے کوئی انتہاپسند دہشت گرد نہیں، بلکہ یہ معصوم تو اس مذہب کے پیروکاروں کی وہشت و بربریت کے متاثر ہیں جنہیں دنیا میں امن کا پیامبر اور عدم تشدد کے فلسفے کے داعی سمجھا جاتا ہے۔ امن کے داعی بودھوں کی 'امن پسند' کارروائیوں کے نتیجے میں ملک کی دوسری بڑی اقلیت مسلمانوں کی بڑی تعداد میانمار سے ہجرت کرکے بنگلادیش کے ساحلی علاقوں پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئی ہے۔ میانمار کی قریباً 5 کروڑ 60 لاکھ کی آبادی میں 89 فی صد بودھ، 4 فی صد مسلمان، 4 فی صد عیسائی، 1 فی صد ہندو اور 2 فیصد دوسری قومیں آباد ہیں۔ سات صوبوں پر مشتمل اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت رخائن میں آباد ہے جنہیں 'روہنگیا' کہا جاتا ہے۔
برمی صوبے اراکان میں رہنے والی روئے زمین کی اس مظلوم زمین کے باشندے صدیوں سے اپنی شناخت کے منتظر ہیں۔ برما میں ہونے والے قتل و غارت میں سب سے متاثرہ ریاست رخائن ہے۔ یہ ریاست دریائے نیف کی طرف سے خلیج بنگال کے مشرقی ساحل اور بنگلہ دیشی شہر چٹا گانگ کی سرحد سے ملتی ہے۔ 13ہزار540 اسکوائر میل رقبے پر محیط رخائن کی آبادی بیس تقریباً بیس لاکھ ہے۔ یہ ریاست کئی صدیوں سے سیاسی اور مذہبی فسادات کا مرکز رہی ہے۔ جنوب ایشیائی خطے سے تعلق رکھنے والے روہنگیا آٹھویں صدی تک ایک خود مختار ریاست اراکان (جدید برما میں رخائن نام ہے) میں رہتے تھے۔ نویں صدی میں عرب تاجروں کی بدولت روہنگیا دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اس وقت اراکان اور مشرقی بنگال کے درمیان تعلقات بہت مستحکم تھے۔ 1559ء میں برما میں مذہبی عقائد کی آڑ میں جانور ذبح کرنے پر پابندی لگادی گئی۔
حتیٰ کہ عیدالاضحی کے موقع پر بھی کسی مسلمان قربانی کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ 1784ء میں برما کے شہنشاہ بودھا پایا نے اراکان کو فتح کیا اور وہاں کے رہائشیوں کو بنگال بھاگنا پڑا۔ 1790ء میں برطانیہ نے اپنے تجارتی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے برما میں موجود اپنے سفیر ہیرام کوکس کو برما کے بادشاہ کے پاس بھیجا۔ اس ملاقات میں اراکان مہاجرین اور مقامی روہنگیا کے درمیان صدی پرانے تصادم کا تصفیہ کیا گیا۔ اراکان مہاجرین کی آبادکاری بنگال کے اس علاقے میں کی گئی جو آج بنگلادیش کا حصہ ہے۔ کوکس نے کوکسز بازار کے نام سے ایک قصبہ بھی بنایا۔
جہاں آج روہنگیا رہائش پذیر ہیں۔ 1824میں پہلی برطانیہ اور برما جنگ کا اختتام ایک معاہدے پر ہوا، جس کے تحت برما نے چٹاگانگ اور کیپ نیگریس کی درمیانی ساحلی پٹی کا کنٹرول برٹش انڈیا کے حوالے کردیا۔1852 میں برطانیہ کے ساتھ ہونے والی جنگ کا اختتام زیریں برما بشمول رنگون کے برطانوی الحاق پر ہوا۔ 1886میں ہونے والی تیسری جنگ میں برطانیہ نے برما پر قبضہ کرلیا اور یہ ملک برٹش انڈیا کا ایک صوبہ بن گیا۔ 1911میں ہونے والی مردم شماری میں روہنگیا کو ایک نسلی گروہ ظاہر کیا گیا۔ 1921کی مردم شماری میں روہنگیا کو آرکانیز کے درجے میں رکھ کر ان کے حقوق پامال کیے گئے۔
1937میں برطانیہ نے برما کو ہندوستان سے الگ کرکے برطانوی نو آبادیاتی بنا دیا۔1942میں جاپان نے بی آئی اے (جیپنیز ٹرینڈ برما انڈیپیندینس آرمی) کی مدد سے برما پر قبضہ کرلیا۔ برطانیہ کے جاتے ہی برما کے قوم پرستوں نے روہنگیا مسلمانوں پر حملے شروع کردیے۔ تین سال بعد ہی برطانیہ نے برمی قوم پرستوں جن کی سربراہی آنگ سان (آنگ سان سوچی کے والد) کررہے تھے اور روہنگیا عسکریت پسندوں کی مدد سے جاپان سے آزاد کروایا۔ لیکن 1947میں آنگ سان کے سیاسی حریف یو سا اور برطانوی دورحکومت میں وزیرخارجہ رہنے والے یو نو نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں قتل کروادیا۔ یو سا کے اقتدار میں آتے ہی روہنگیا مسلمانوں پر وحشت و بربریت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ 1975میں ایک سیاسی جماعت نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ نے ایک عسکری گروہ ترتیب دیا جس کا مقصد گوریلا کارروائیاں کرکے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم ڈھانا تھا۔
اس گروپ کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے تقریباً 15ہزار روہنگیا نے بھاگ کر بنگلادیش میں پناہ لی۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں کا پہلا قتلِ عام 1962ء میں ہوا جب فوجی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلمانوں کو باغی قرار دے کر اُن کے خلاف آپریشن شروع کردیا، جو وقفے وقفے سے 1982ء تک جاری رہا اور اس میں کم و بیش 1 لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور اندازاً 20 لاکھ کے قریب مسلمان بنگلا دیش، بھارت اور پاکستان کی طرف ہجرت کرگئے۔
1977میں برمی فوج کی جانب سے غیرملکیوں کی جانچ کے لیے آپریشن ڈریگن کنگ کی آڑ میں روہنیگین پر ظلم کا نیا سلسلہ شروع ہوا ، فوج کی جانب سے خواتین کے ساتھ زیادتی، لوٹ مار اور مساجد کی بے حرمتی کی گئی، جس کے سبب ایک سال کے عرصے میں چار لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں نے بنگلادیش میں پناہ لی۔ 1978میں بنگلادیش کی درخواست پر اقوام متحدہ نے مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے برما کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کی رُو سے روہنگیا کو اراکان ریاست میں ازسر نو آباد کیا گیا۔ برما کی فوجی حکومت نے 1982ء کے سیٹزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے 8 لاکھ افراد اور برما میں موجود دوسرے دس لاکھ چینی وبنگالی، مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کردیا اور ان مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے باہر جانے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا، جس کی وجہ سے وہاں رکنے والوں پر عرصہ حیات مزید تنگ ہوگیا۔ 1989، 1991،1992اور 2002 میں ایک بار پھر ڈریگن کنگ جیسے آپریشنز کی مدد سے روہنگیا مسلمانوں پر بربریت کی انتہا کی گئی۔
صرف 1991میں ہی ڈھائی لاکھ سے زائد روہنگین نے برمی فوج کی جانب سے جبری مشقت، خواتین اور مقدس مقامات کی بے حرمتی سے تنگ آکر بنگلادیش کا رخ کیا۔ 1992میں اقوام متحدہ کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد سوا دو لاکھ روہنگیا کو واپس اراکان لایا گیا۔ 2009میں تھائی لینڈ نے اپنی ساحلی پٹی پر رہنے والے روہنگیا کو جلاوطن کردیا اور میانمار نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ بعدازاں سمندر میں لاوارث رہنے والے ان ہزاروں روہنگیا کو انڈونیشیا نے اپنے ساحل پر لنگرانداز ہونے کی اجازت دی۔ روہنگیا مسلمانوں پر 16 مارچ 1997ء کو اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی، جب دن دیہاڑے بے لگام بودھ بھکشوئوں نے رخائن ریاست کے شہر 'مندالے' کے مسلم اکثریتی علاقوں میں داخل ہوکر گھروں، مسجدوں اور مذہبی کتابوں کو نذرِآتش کردیا گیا، مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا جس کے بعد مسلمانوں نے دوسرے شہروں میں پناہ لی۔
15 مئی 2001ء کو بودھوئوں نے ایک مسجد پر حملہ کرکے عبادت میں مصروف نمازیوں کو قتل کر دیا، ان فسادات کے نتیجے میں 11 مساجد شہید، 400 سے زائد گھر نذرِآتش اور کم و بیش 200 مسلمان موت سے ہم کنار ہوئے۔ 2010ء میں ہونے والے الیکشن کے بعد برما میں طویل آمریت کا سورج غروب ہوا اور ملک میں ایک جمہوری حکومت تشکیل دی گئی۔ روہنگیا مسلمانوں نے اس جمہوری حکومت سے بنیادی انسانی حقوق اور شہریت کا مطالبہ ایک بار پھر اٹھایا، لیکن ان کی کوئی داد رسی نہیں کی گئی۔
روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کی نئی لہر اس وقت اٹھی جب 28مئی 2012 کو مبینہ طور پر تین مسلمان مردوں کی جانب سے رامری قصبے میں ایک اراکانی لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ اس واقعے کے بعد ریاست اراکان میں مسلمانوں کے خلاف وحشت و بربریت کے ایک نئے کھیل کا آغاز ہوا۔ بدھ اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی ان نسلی فسادات میں 88 افراد قتل اور نوے ہزار لوگ بے گھر ہوئے۔ برمی حکومت روہنگین کو اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہیں بنگلادیش سے آنے والے گُھس بیٹھیے قرار دیتی ہے۔
برمی صدر تھین سین نے جولائی 2012کو اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین سے واضح الفاظ میں کہا،'ہم اپنے ملک میں رہنے والی نسلی قومیتوں کی ذمے داری لیں گے، لیکن یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے کہ ہم سرحد پار سے آنے والے غیرقانونی طور پر آنے والے روہنگیا کو اپنی شناخت دیں جو کہ ہم میں سے نہیں ہے، یہ لوگ ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں لہٰذا انہیں کسی تیسرے ملک میں بھیجا جائے۔' صدر تھین کے اس بیان کے تین ماہ بعد ہی اراکان ریاست میں نسلی فسادات دوبارہ پھوٹ پڑے۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس کے مطابق ان فسادات میں روہنگیا اور کمان مسلم آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ حملہ آوروں کو مقامی سیاسی جماعتوں، بدھ مت کے راہنمائوں اور ریاستی فوج کی مدد حاصل تھی۔ ان ہنگاموں میں روہنگیا مسلمانوں، بچوں، بوڑھوں، خواتین کو اذیت ناک موت سے دوچار کرکے اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا، ان کے گھر، کھیت کھلیان صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے۔اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق تشدد کی اس لہر میں کم از کم 80 ہزار مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل ہیومن رائٹس واچ اور اقوامِ متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے حکومت سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا بارہا مطالبہ کیا ہے مگر ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا۔ہیومن رائٹس واچ نے روہنگیا مخالف تشدد کو ' انسانیت کے خلاف جُرم' قرار دیا۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کے مطابق روئے زمین کی مظلوم ترین اقلیت کو ستمبر 2017 میں بنگلہ دیش نے اپنا نے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں سینکڑوں مرد، خواتین اور بچے دریائے نیف میں بھوک و پیاس کی حالت میں موت سے ہم کنار ہوئے۔ تاہم پانی میں ڈوبتی کشتیوں اور مرنے والے معصوم بچوں کی لاشوں کی تصاویر دنیا بھر میں شایع ہونے کے بعد بنگلہ دیش نے اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے روہنگیا کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سوا لاکھ سے زائد روہنگیا پیدل سفر کر کے بنگلہ دیش پہنچے، تیس ہزار سے زائد رخائن کے پہاڑوں میں بھوکے پیاسے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا جب اپنے اوپر ڈھائے گئے مظالم کی خبریں سناتے ہیں تو انہیں سن کر انسانیت کو بھی شرم آجائے۔ کیسے باپ، بھائی کے سامنے بہن، بیٹی کے جسم کو نوچا کھسوٹا گیا، جانوروں کی طرح ان کے جسموں کی چیر پھاڑ کی گئی، کیسے بیوی، بیٹے کے سامنے باپ کو زندہ جلایا گیا۔ امن کے نام پر نوبیل انعام لینے والی آنگ سان سوچی کی ناک کے نیچے انسانیت کا ننگا ناچ جاری ہے لیکن وہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر خاموش ہے۔ اس کے کان کسی بے آبرو ہوتی بیٹی کی چیخیں سننے سے گریزاں ہیں، اس کی آنکھیں شعلوں میں گھرے نوجوان کی اذیت دیکھنے سے قاصر ہیں، کیوں کہ پیار و محبت کی طرح 'مفادات' کی جنگ میں سب جائز ہے۔