جمہوریت کا پانچ سالہ انتقام

بینظیر نے آمریت کے خلاف جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیا تھا لیکن ان کے جانشین اس کا مفہوم الٹ سمجھے اور انھوں نے۔۔۔


Ayaz Khan March 19, 2013
[email protected]

جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہوئے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار سیاستدان اس قابل ہوئے کہ انھوں نے اپنی مدت اقتدار مکمل کی اور فخر سے یہ بات کہنے میں کامیاب ٹھہرے کہ ''ہم جیسا کوئی نہیں''۔ اب یہ دعویٰ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کوئی شب خون نہیں مار سکے گا۔ اس جمہوری کارنامے پر مبارکبادوں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ مبارکباد دینے والوں کی اکثریت اس بات پر شکر ادا کرتی ہے کہ جمہوری حکمرانوں سے جان چھوٹ گئی۔ کچھ لوگ تو حکومت کو یہ ''کریڈٹ'' بھی دیتے ہیں کہ اس نے بینظیر بھٹو شہید کے قول پر عمل کرتے ہوئے پانچ سال تک قوم سے بہترین انتقام لیا۔

واقعی جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ بینظیر نے آمریت کے خلاف جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیا تھا لیکن ان کے جانشین اس کا مفہوم الٹ سمجھے اور انھوں نے عوام سے انتقام کو بہترین جمہوریت بنا دیا۔ راجہ پرویز اشرف نے جو چند دن اور وزیر اعظم رہیں گے قوم سے اپنے الوداعی خطاب میں کچھ انکشافات ضرور کیے مگر مجموعی طور پر اپنی مخلوط حکومت کے کارنامے گنواتے رہے۔ ان کے خیال میں حکومت کے آخری دنوں میں پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔

یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر امریکا کا بہت زیادہ دباؤ ہے اور کوئی جگرے والی حکومت ہی اس پر عمل درآمد کی جرات کرے گی۔ صدر زرداری نے کہا تھا کہ بھارت' چین اور روس ایسے ممالک ہیں جنھیں ایران کے ساتھ کاروبار کا رشتہ قائم رکھنے کی اجازت ہے۔ اس لیے وہ بھی کوئی حل نکال لیں گے۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ امریکی کانگریس 2009ء کے بعد کسی ملک کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ ایران کے ساتھ تجارت کرے۔

اس وقت جو ممالک ایران کے ساتھ تجارتی بندھن میں بندھے ہوئے ہیں ان پر یہ پابندی ہے کہ وہ ہر 180 دن یعنی 6 ماہ میں تجارت میں کمی کریں' بصورت دیگر ان پر پابندیاں لگ جائیں گی۔ یورپی یونین کچھ عرصہ پہلے تک ایران سے تیل درآمد کرتی تھی اب یہ سلسلہ بالکل موقوف ہو چکا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران اس معاہدے کا ذکر شاید کوئی فائدہ دے جائے ورنہ عملی طور پر جو حکومت بھی اس پر عملدرآمد کرنے کا سوچے گی اسے پاکستان پرا مریکی پابندیوں کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔ راجہ صاحب نے کہا ''مانتا ہوں دودھ اور شہد کی ندیاں نہ بہا سکے' توانائی کے شعبے میں بھی متوقع کامیابی نہیں ملی''۔ جناب عالی! آپ کی حکومت عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول ہی آسان بنا دیتی تو دودھ اور شہد کی ندیاں بہانے کی ضرورت نہیں تھی۔ لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے ختم کرنے کے لیے رینٹل پاور منصوبوں کے بجائے کسی اور متبادل پر ہی غور کر لیتی تو صورتحال میں بہتری آ چکی ہوتی۔

حکومت کا واحد کارنامہ پانچ سالہ مدت پوری کرنا ہے۔ لیکن یہ کارنامہ تب تک انجام نہیں دیا جا سکتا تھا جب تک اپوزیشن اس کا ساتھ نہ دیتی۔ فوج سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پانچ سال میں لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ کرپشن کے بھی چرچے رہے۔ ایک وزیر اعظم کو عدلیہ نے گھر بھجوا دیا دوسرے پر رینٹل پاور کیس کی تلوار لٹک رہی ہے۔ سوات پر شدت پسندوں کا قبضہ چھڑوانے کے سوا دہشت گردی کے محاذ پر بھی زیادہ کامیابیاں نہیں ہیں۔ یہ کارنامہ سر انجام دینے والے کون ہیں' ان کا نام لوں تو پھر جمہوریت والوں کے پلے کچھ بھی نہیں بچتا۔ بلوچستان اور کراچی کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں کوئی دن نہیں گزرتا جب کوئی دھماکہ نہیں ہوتا۔ راجہ صاحب نے مہنگائی کی شرح میں کمی کا دعویٰ بھی کیا ہے یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی دکاندار کسی چیز کی قیمت ڈبل کر کے پھر اس میں دس فیصد کمی کر دے۔

حکومت کی کارکردگی کیسی رہی؟ آیندہ الیکشن میں ووٹر اپنے ووٹ سے اس کا فیصلہ کر دیں گے۔ الیکشن سے پہلے نگراں سیٹ اپ کا مسئلہ درپیش ہے۔ خیبر پختونخوا والے اپنا نگراں وزیر اعلیٰ نامزد کرکے بازی لے جا چکے ہیں۔ وہ عید کا چاند بھی پہلے دیکھتے ہیں' اس پر لوگ ان پر تنقید بھی کرتے ہیں لیکن نگراںوزیر اعلیٰ کے معاملے میں انھوں نے باقی تین صوبوں کو جو چاند دکھایا ہے اس کی رویت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے۔ سندھ میں زیادہ مشکل نظر نہیں آتی۔ بلوچستان کا معاملہ پیچیدہ ہے۔ بظاہر پنجاب اور مرکز میں کسی متفقہ امیدوار کا سامنے آنا مشکل نظر آتا ہے لیکن پس پردہ سرگرمیاں جاری ہیں' ممکن ہے' کوئی بریک تھرو ہو جائے اور معاملہ پارلیمانی کمیٹی تک نہ جائے' نگراں وزیراعظم کا ایشو طے ہو گیا تو پھر پنجاب میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ورنہ یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں پہنچے گا اور وہاں بھی جھگڑا ہوا تو پھر حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا۔

الیکشن میں جانے کے لیے ساری پارٹیاں جوڑ توڑ کر رہی ہیں۔ پنچھی ایک شاخ سے دوسری اور بعض تو تیسری شاخ پر بھی جا رہے ہیں۔ رونق لگی ہوئی ہے۔ حالیہ سروے ن لیگ کو مقبول ترین جماعت قرار دے چکے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی ترقیاتی کام ہوا ہے تو وہ پنجاب میں ہی ہوا ہے۔ سندھ سے ہمارے دوست جرنلسٹ میٹرو بس کی سیر کر کے لاہور کی بدلی ہوئی صورت دیکھ کر جا چکے ہیں۔ کسی اور صوبے نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہوتا تو پنجاب کے جرنلسٹ بھی سیر کا کوئی موقع پا لیتے۔

عمران خان کی ساری توجہ ایک بار پھر مینار پاکستان پر ہے جہاں وہ 23مارچ کو بڑا جلسہ کرنے جا رہے ہیں۔ وہ سونامی سے بھی کوئی بڑی چیز برپا کرنا چاہتے ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف خاصی مضبوط لگ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی ساری امیدیں بھی شاید تحریک انصاف سے وابستہ ہیں۔ پارٹی کی لیڈرشپ کا خیال ہے کہ جہاں جہاں عمران ن لیگ کے ووٹ توڑیں گے' وہاں پیپلز پارٹی کا فایدہ ہو گا۔ الیکشن کا بگل ابھی نہیں بجا۔ ایک بار میدان سج گیا تو پھر پتہ چلے گا کس گھوڑے میں کتنا دم ہے۔ میرا ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کو مشورہ ہے کہ وہ عمران خان کو آسان حریف نہ سمجھیں۔

ان کے کارکنوں نے گھر گھر ووٹ مانگنے کی مہم چلا دی تو پھر بہت بڑا اپ سیٹ بھی ہو سکتا ہے۔ وجہ بڑی سادہ ہے لوگ آزمائے ہوؤں سے پانچ سال پریشان رہے ہیں۔ عمران کو جو سب سے بڑا ایڈوانٹیج ہے وہ یہ ہے کہ انھیں ابھی آزمایا نہیں گیا۔ ایک بات طے ہے کہ الیکشن کا رزلٹ جو بھی ہوا اگلے جمہوری سیٹ اپ میں عمران خان ایک اہم پلیئر ہوں گے۔ الیکشن وقت پر ہونے کی توقعات تو ہیں لیکن یہاں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ طاہر القادری واپس آ چکے ہیں اور پرویز مشرف بھی آنے والے ہیں۔ طاہر القادری نے الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا ہے دیکھتے ہیں مشرف واپس آنے پر کیا فرماتے ہیں۔ کچھ اور پلیئر میں میدان میں ہیں۔ الیکشن کرانا ہی بہتر ہو گا۔

جاتے جاتے شیخ وقاص اکرم کو (ن) لیگ میں شمولیت پر مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ ان کی شمولیت سے (ن) لیگ پر لگا یہ داغ کافی حد تک صاف ہو گیا ہے کہ وہ الیکشن میں کالعدم تنظیموں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہے۔ اس مبارکباد کے ساتھ شیخ صاحب کو کچھ یاد بھی دلانا چاہتا ہوں۔

ہمارے سینئر اسٹاف رپورٹر ضیا تنولی صاحب نے کچھ عرصہ پہلے ان کی (ن) لیگ میں ممکنہ شمولیت کے بارے میں خبر دی تھی۔ جس دن یہ خبر شایع ہوئی میں فیصل آباد میں تھا۔ شیخ وقاص نے خبر چھپنے پر فون کیا اور سخت احتجاج کے بعد اس کی وضاحت بھجوائی۔ شیخ صاحب اس وقت وزیر تھے اور شاید وزارت اتنی جلدی کھونا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے خود کو کلیئر کرنا چاہتے تھے۔ ان کی طرف سے بھجوائی گئی وضاحت من و عن شایع کر دی گئی تھی۔ اب جب کہ ایکسپریس کی وہ خبر درست ثابت ہو گئی ہے تو میری شیخ صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اور کچھ نہ کریں صرف اس وضاحت کی ''وضاحت'' ہی فرما دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں