دُھند کے اُس پار
اب یہ کمال دسمبر کے آخری دنوں کی مخصوص فضا کا ہے یا وقت کے اُس پراسرار تصور اور تسلسل کا۔
پچھلے کچھ برسوں کی طرح اس بار بھی دسمبر کے آخری چند دنوں میں دھند کا دور دورہ ہے اور بعض اوقات تو یہ اس قدر شدید ہو جاتی ہے کہ حدنگاہ کم ہوتے ہوتے صفر کو چھونے لگتی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کوئی 27 برس قبل میں نے دسمبر کی آخری رات اور جنوری کی پہلی صبح کے درمیان بے تحاشا پھیلی ہوئی دھند کے منظر کو ایک نظم میں بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ اچانک خیال بجلی کی طرح کوندا اور نظم اس شعر پر آ کر یکدم ختم ہو گئی کہ
آنکھ کہتی ہے باہر بہت دُھند ہے
دِل یہ کہتا ہے اندر بھی کم تو نہیں
کچھ ایسا ہی معاملہ ایک اور نظم ''آخری چند دن دسمبر کے'' کے ساتھ ہوا کہ ناظر ایک منظر کو بیان کرتے ہوئے اچانک خود منظر کا حصہ بن گیا۔ اب یہ کمال دسمبر کے آخری دنوں کی مخصوص فضا کا ہے یا وقت کے اُس پراسرار تصور اور تسلسل کا کہ جس میں ''ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات'' کے ساتھ ساتھ ایک رجسٹر کے بند ہونے اور ایک نئی فردِ حساب کھلنے کا عمل خودبخود شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا فیصلہ شاید کبھی نہ ہو سکے گا کہ ابھی تو یہ مقدمہ چل رہا ہے:
تمام ہاتھوں میں آئنے ہیں تو کون کس سے چھپا ہوا ہے!
اگر صدا کا وجود کانوں سے منسلک ہے تو کون خوشبو میں بولتا ہے!
تمام چیزیں اگر یہی ہیں تو کون چیزوں سے ماورا ہے!
یہ کون بادل سے جا کے پوچھے کہ اتنے موسم کہاں رہا ہے!
کوئی بھی لمحہ اٹل نہ ہو گا
اگر زمیں پر تمہارے میرے قدم نہ پڑتے تو کون ہوتا
یہ ایسا جادو ہے جو حسابوں سے حل نہ ہو گا؟
تو اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ دسمبر کی طرح اس بار بھی دھند نے تمام منظروں کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے مگر یہ بھی طے ہے کہ یکم جنوری سے ایک نیا سال بھی شروع ہونا ہے یعنی وقت کی یہ شناخت اور تقسیم بے شک حقیقی اور اصلی ہونے کے بجائے ہماری خودساختہ اور فرض ہی سہی مگر امر واقعہ یہی ہے کہ اسی کی وساطت سے ہم اپنے شب وروز کو ماپتے اور اپنے سفر کی وسعت، طوالت اور حاصل سفر کا ایک اندازہ سا قائم کرتے ہیں اور یوں ہر بدلتا ہوا سال ایک سنگ میل کی سی شکل اختیار کر جاتا ہے۔
یہ رخصت ہوتا ہوا برس جس کا کوڈ نیم 2017ء تھا، اس زمین پر آباد اربوں افراد اور سیکڑوں گروہوں پر ایک ساتھ گزرا ہے مگر سب کے ساتھ اس کا معاملہ مشترکہ ہونے کے ساتھ ساتھ جدا جدا اور مختلف بھی رہا ہے کہ اس دوران میں کی گئی کارکردگی کا تعلق گزرے ہوئے کل کے ساتھ بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ آنے والے کل کے ساتھ یعنی ''آج'' اصل میں اس پل کی طرح ہے جو ان دونوں کتابوں کو جوڑنے کا کام اس طرح سے کرتا ہے کہ یہ اپنی تکمیل کے ساتھ ہی وقت کے دریا میں اس طرح سے تحلیل ہو جاتا ہے کہ آخر میں صرف ''رفتہ'' اور ''آئندہ'' ہی رہ جاتے ہیں۔
اب یوں ہے کہ ''رفتہ'' کو بدلنا تو کسی کے بھی اختیار میں نہیں سو ہم سب کو ہی ''جہاں ہے جیسا ہے'' کی شرائط پر اس کو ساتھ لے کر ''آئندہ'' میں داخل ہونا اور اسے ''رفتہ'' کا حصہ بناتے چلے جانا ہے۔ بس یاد رکھنے والی بات یہی ہے کہ جب تک ہم ہیں ہم کو اپنی تاریخ کا بوجھ اپنی حد تک کم کر کے اسے آئندہ کے سپرد کرنا ہے اور بس۔ آگے جو ہو گا اس کا فیصلہ آنے والے کریں گے اور اس کا علم صرف اس ذاتِ واحد کو ہے جس نے ہمیں اور وقت کو ایک ساتھ پیدا کیا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ ہر ایک سے صرف اس کے لیے متعین اور مخصوص وقت کا حساب لیا جائے گا۔
اس سارے معاملے میں پیچیدگی صرف اتنی ہے کہ کسی انسانی گروہ کی کارکردگی چونکہ اس کے افراد کی کارکردگی کا مجموعہ ہونے کے سبب اس کے رفتہ اور آئندہ دونوں پر اثرانداز ہوتی ہے اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ہر فرد کو وقت کے اس کٹہرے میں ''اجتماع'' کے ساتھ مل کر بھی اپنے عمل کا حساب کسی نہ کسی شکل میں دینا پڑتا ہے اور یہی وہ منطقہ ہے جہاں ہمیں اپنے حصے کی دھند کے اس پار بھی دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہم بھی اپنے پچھلوں کی طرح آئندگاں کے لیے وہ ''اضافی بوجھ'' بڑھائیں گے جس کے ہم اکثر گلہ مند رہتے ہیں سو میرے نزدیک کیلنڈر کی تبدیلی کا یہ موقع علامتی طور پر ایک ایسے لمحۂ فکر کی تمثیل بھی بن جاتا ہے جس میں ہم رفتہ اور آئندہ کو ساتھ دیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ یکم جنوری 1976ء کو لکھی گئی ایک نظم کچھ اس طرح سے ہے:
نئے سال کی پہلی نظم
چلو کچھ آج حسابِ زیانِ جاں کریں
الم شمار کریں درد آشکار کریں
گلے جو دل کی تہوں میں ہیں آبلوں کی طرح
اُنہیں بھی آج شناسائے نوکِ خار کریں
جو بے وفا ہو اُسے بے وفا کہیں کھل کر
حدیث چشم و لب سوختہ کہیں کھل کر
کہاں تلک یہ تکلم زمانہ سازی کے
پس کلام ہے جو کچھ ذرا کہیں کھل کر
خنک خنک سی ہنسی، ہنس کے مل رہے ہو کیوں
لہو ہے سرد تو آنکھیں بھی منجمد کر لو
جو دل میں دفن ہے چہروں پہ اشتہار کریں
الم شمار کریں... درد آشکار کریں
تمہارا میرا تعلق بس ایک لفظ کا ہے
لغت کے انت میں سمٹا ہوا فقط ایک لفظ
اس ایک لفظ میں سچائی ہے زمانوں کی
چلو کہ آج یہی لفظ اختیار کریں
تمام عمر پڑی ہے منافقت کے لیے
اس ایک لفظ کا دامن نہ داغدار کریں
الم شمار کریں... درد آشکار کریں
چلو کچھ آج حسابِ زیانِ جاں کریں
چلیے اب یہ فرض کر کے اس نظم کے مفہوم اور استنباط پر ایک بار پھر غور کرتے ہیں کہ اس میں جس کو مخاطب کر کے حسابِ زیانِ جاں اور الم شمار اور درد آشکار کرنے کی بات کی جا رہی ہے وہ کوئی اور نہیں، ہم خود ہی ہیں؟
یقین کیجیے اگر ہم نے یہ بات سمجھ لی تو آج کی دھند کے اُس پار وہ سورج بھی طلوع ہو جائے گا جہاں ایک نئی صبح بہت بے چینی سے اور نجانے کب سے ہمارا انتظار کر رہی ہے۔