امریکی انتہاپسندی

امداد کا طعنہ دے کر کسی بھی ملک کی پالیسی تبدیل کرنے کی کوشش کرنا انتہاپسندی ہے


Abid Mehmood Azam 1 January 01, 2018

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بدترین رسوائی کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ٹرمپ کے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہوئی۔ قرارداد کے حق میں 128 ووٹ ڈالے گئے، جب کہ امریکا اور اسرائیل سمیت صرف 9 ممالک نے اس کی مخالفت کی۔

امریکی فیصلے کے خلاف پہلے یہ قرارداد سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تھی، جہاں 15 میں سے 14 ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا، لیکن امریکا نے یہ قرارداد ویٹوکردی تھی، اس کے بعد سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ معاملے کو جنرل اسمبلی میں لے جایا جاتا، یہاں امریکا کو بدترین شکست ہوئی۔ مقبوضہ بیت المقدس کے حوالے سے امریکا پہلے بھی تنہائی کا شکار ہے، کیونکہ جن ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں، ان میں سے کسی ملک نے بھی امریکا کی پیروی نہیں کی، صرف گوئٹے مالا کے صدر نے اسرائیل میں اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

تمام ممالک سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام قابل تقلید نہیں ہے اور عالمی امن کے لیے اس کے اثرات منفی مرتب ہوں گے۔ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کے خلاف سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں پاس ہونے والی قراردادوں نے بھی ثابت کیا ہے کہ امریکا کا فیصلہ عالمی امن کے لیے خطرہ، اقوام متحدہ کی قراردادوں کا مذاق اڑانے اور مشرق وسطیٰ میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دو ریاستی حل اور امن کی آخری امید کو بھی ختم کرنے کے مترادف ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ بیت المقدس سے متعلق اپنے انتہاپسندانہ فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے لیے مختلف حربوں پر عمل پیرا ہیں۔ اقوام متحدہ کے بجٹ میں 28 کروڑ 50لاکھ ڈالرز کی کٹوتی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگلے مرحلے میں امریکا کی مخالفت میں ووٹ دینے والے ممالک کی امداد بھی بند کی جاسکتی ہے، کیونکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ سے ایک روز پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے پوری عالمی برادری کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے خلاف قرارداد کی حمایت نہ کی جائے، جو ممالک امریکا کے خلاف ووٹ دیں گے، ان کی امداد بند کردیں گے۔

اقوام متحدہ میں امریکی مستقل مندوب نکی ہیلی نے بھی مختلف سفیروں کو خطوط لکھے تھے، جن میں اس دھمکی کا اعادہ کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی مندوب نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ امریکا اقوام متحدہ کو امداد دینے والا سب سے بڑا ملک ہے، اگر ہمارا سرمایہ ضایع ہورہا ہے تو ہم اسے دوسری صورت میں بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ امریکی امداد کا ذکر یوں کرتے ہیں جیسے خیرات تقسیم کر رہے ہوں، حالانکہ سپر پاور ہوتے ہوئے عالمی سیاست میں امریکا کا جو مقام ہے، اس کو پیش نظر رکھ کر اسے بعض اقدامات کرنا پڑتے ہیں جن میں امداد بھی شامل ہے، لیکن امریکی امداد کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ امریکا تمام ممالک کو اپنا غلام ہی سمجھنے لگے اور امریکی حکومت عالمی برادری کے جذبات اور رائے کو قطعاً نظر انداز کرکے جو چاہے کرتی رہے۔ ہر ملک اپنی پالیسی پر عمل کرنے میں آزاد ہے۔

امداد کا طعنہ دے کر کسی بھی ملک کی پالیسی تبدیل کرنے کی کوشش کرنا انتہاپسندی ہے، جس پر امریکی صدر عمل کر رہے ہیں، حالانکہ ڈونلڈ ٹرمپ اکثر اپنے بیانات میں اسلامی انتہاپسندی کی بات کرتے ہیں اور کئی بار اپنے بیانات میں اسلامی انتہاپسندی کے خاتمے کے عزم کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ ٹرمپ کے بیانات سے تو یوں لگتا ہے کہ دنیا میں صرف مسلمان ہی انتہاپسند ہیں، لیکن حقائق اس سے مختلف ہیں، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔

فلسطین، کشمیر، برما، افغانستان و عراق کے حالات کا مشاہدہ کرکے اچھی طرح اندازہ ہوسکتا ہے کہ دنیا بھر میں انتہاپسندی کی عملی تصویر کون ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ مسلمانوں میں بھی بہت سے لوگ انتہاپسند ہیں، لیکن کسی مسلمان ملک میں ریاستی سطح پر انتہاپسندی نہیں پائی جاتی، جس طرح مسلم مخالف ممالک میں ریاستی سطح پر انتہاپسندی پائی جاتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتہاپسندی کی عملی تصویر بنے ہوئے امریکا کی ریاستی انتہاپسندی کا ثبوت دے رہے ہیں۔

یوں تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی انتہاپسندانہ بیانات دینا شروع کردیے تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد تمام مخالفتوں کے باوجود اپنے انتہاپسندانہ بیانات پر عمل بھی کرنا شروع کیا، مگر اسرائیل نوازی میں وہ انتہاپسندی کی بھی انتہا کرچکے ہیں۔ اس سے بڑی انتہاپسندی کیا ہوگی کہ ایک ظالم ریاست اسرائیل کے ناجائز مطالبے کی خاطر پوری دنیا سے ٹکر لینے پر تلے ہوئے ہیں، اگر دنیا کی جانب سے واضح اور کھلی مخالفت کے باوجود امریکی صدر بیت المقدس کے حوالے سے ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس یکطرفہ فیصلے کو اقوام عالم پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی اسرائیل نواز پالیسیوں کے لیے اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کو دھمکاتے ہیں تو پوری دنیا میں عالمی جنگ کا طبل بجانے کے مترادف ہوگا، کیونکہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، جس کی حفاظت کے لیے مسلمان کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔

ان حقائق سے انکار کی گنجائش نہیں کہ مسلمانوں کا قبلہ اول مقبوضہ بیت المقدس ہمیشہ سے فلسطین کا حصہ ہے، اسرائیل نے بزورِ قوت اس پر نہ صرف قبضہ کررکھا ہے، بلکہ 1948 سے اسرائیل فلسطین میں درندگی و سفاکیت کے تمام ریکارڈ بھی توڑ رہا ہے۔ اسرائیل امریکا کی ہلہ شیری سے نہتے فلسطینی عوام پر بے انتہا مظالم ڈھا رہا ہے۔ امریکا نے اس جانب سے نہ صرف آنکھیں بند کر رکھی ہیں، بلکہ امریکی امداد کے دباؤ میں دوسرے ملکوں کی خارجہ پالیسی کو متاثرکرنے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔

امریکا نے ہمیشہ سے طاقت کے زور پر مسلم ممالک کو زیر کرنا چاہا ہے۔ امریکا کی اسی انتہاپسندانہ پالیسی کے نتیجے میں دنیا میں بدامنی و تباہی پھیل رہی ہے، مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو انتہاپسندی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ تو اسرائیل نوازی میں اتنا آگے جاچکے ہیں کہ اس کی خاطر ساری دنیا کے قوانین اور فیصلوں کو روند نے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کے فیصلے کو اگرچہ ساری دنیا مسترد کرچکی ہے، لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج بتاتا ہے کہ وہ اس معاملے میں بھی انتہا پر جانے کی کوشش کریں گے، کیونکہ اگر ہم ان کی ماضی کی کارروائیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک ضدی اور ہٹ دھرم انسان ہیں، انھوں نے الیکشن مہم میں جو اعلانات کیے، تمام مخالفتوں کے باوجود ان پر عمل بھی کیا ہے۔ بیت المقدس کے معاملے میں بھی وہ انتہا پر جا سکتے ہیں، کیونکہ ان کے رویے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کی نظر میں بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی معاہدوں کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں