شیش ناگ
وہ دن دور نہیں کہ جب یہ ہاتھ بڑھ کر گھروں تک پہنچ جائیں گے اور بھارت میں 1947 کی تاریخ دہرائی جائے گی۔
ABBOTABAD:
یہ ایک فطری بات ہے کہ مضمون نگار، صحافی جہاں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اپنے وطن سے محبت اور وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں ، بعض معاملات میں وہ جانتے ہیں کہ ان کی حکومت درست رویے اور اقدار کا مظاہرہ نہیں کررہی اس کے باوجود وہ اپنے ملک کی پالیسیوں کی حمایت کرتے اور درست قرار دیتے ہیں۔
یہ در اصل ملک سے وفاداری اور محبت کا اظہار ہوتا ہے اور جہاں کہیں یہ ممکن ہوتا ہے کہ حقیقت کا اظہار کریں وہاں وہ ایسا بھی کرتے ہیں اور یہ ایک عام طریقہ ہے، آپ روس، اسرائیل، امریکا، جرمنی، چین کسی بھی ملک کو دیکھ لیں یہی طریقہ کار ہے بعض ممالک میں سنسر اور جبر کے تحت بھی ایسا ہوتا ہے، جیسے کہ وہ ملک جہاں بادشاہت یا جمہوریت اور بادشاہت کا مرکب حکومت ہے۔
برصغیر کے ممالک اور اڑوس پڑوس کے ممالک کا بھی یہی حال ہے کہ روٹی اور قلم دونوں سرکار کے ہیں اور بہت مشکل ہے کہ آپ عوامی حقیقی رائے کا اظہار کرسکیں، بھارت کا اس سلسلے میں بہت برا حال ہے اور موجودہ قصاب حکومت اور اس کے کارندے کسی کو سچ کہنے کی اجازت نہیں دیتے چاہے وہ اوم پوری جیسا مہان آرٹسٹ ہو یا بھارت کا ایک فوجی سپاہی!
دونوں کو سچ کے جواب میں موت ملی اور موت ہی ملے گی۔ فلم انڈسٹری کے لوگ اور دوسرے لوگ خوفزدہ ہیں سچ بولنے سے اور امیتابھ جیسے آرٹسٹ بھی جھوٹ بول کر جان بچائے بیٹھے ہیں۔ زرد حکومت اگر وہ سچ بولیں تو انھیں سرخ کردے گی، دہلی میں روز لڑکیوں کی آبرو ریزی ہورہی ہے اور غنڈے دندناتے پھررہے ہیں جو سرکاری جماعت کے ممبر ہیں۔
وہ دن دور نہیں کہ جب یہ ہاتھ بڑھ کر گھروں تک پہنچ جائیں گے اور بھارت میں 1947 کی تاریخ دہرائی جائے گی یہ لوگ کمر بستہ ہیں کہ مسلمانوں کو یا مسلمان نہیں رہنے دیںگے یا زندہ نہیں رہنے دیںگے بد ترین دن مسلمانوں کے منتظر ہیں، نہ ہوتے عبدالکلام آزاد اور دوسرے مسلمان کانگریسی ارکان ورنہ پوچھتے ان سے کہ ان کے لیے تم نے چھوڑا پاکستان؟
وہاں کے اخبارات مسلمانوں پر ظلم پر خاموش رہتے ہیں، کشمیریوں پر ظلم پر زبانیں بند ہیں، انھیں دیش دروہی اور غدار کہتے ہیں جب کہ وہ بھارت کے باشندے نہیں ہیں کشمیری ہیں اور وہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے ہونا ہے کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ستر برس کی جدوجہد نے ثابت کردیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ ہرگز نہیں رہنا چاہتے۔
مگر پاکستان میں ایسے بے ضمیر لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے جن کے قلم زر کے عوض بکے ہوئے ہیں اور وہ پاکستان کے خلاف لکھنے سے گریزاں نہیں بلکہ پیسہ دے کر جو چاہو لکھوالو ان کے دل و دماغ مہر زدہ ہیں اور یہ نہ دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں۔
بے ضمیری کی انتہا یہ ہے کہ ان کے بزرگوں نے پاکستان کی حمایت کی تھی اور یہ اپنے وطن، فوج اور عدالت کے خلاف بلکہ دشمنوں کے آلہ کار ہیں اور ان کی زبان بولتے ہیں۔ نام لکھنے کی ضرورت نہیں، گاندھی کی سمادھی پر پراتھنا کرنے والے پاکستانی مسلمان خواتین اور مرد جنھوں نے پاکستان کا سر جھکادیا ہے۔
کھاتے پاکستان کا ہیں اور گاتے بھارت کا ہیں اور اپنے وطن کے خلاف ہرزہ سرائی سے باز نہیں آتے۔ بہت سے ایسے بھارتی لکھنے والے ہیں جن کا قدیمی تعلق پاکستان سے ہے، بزرگ یہاں دفن ہیں یا یہاں جلائے گئے مگر مجال ہے کہ وہ پاکستان کے حق میں بات کریں وہ بھارت میں رہتے ہیں اور بھارت کی زبان بولتے ہیں ان میں ایک کلدیپ نیئر ہیں جو ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حل میں پاکستان کو رکاوٹ قرار دیتے ہیں اور اب ہمارے اپنوں کی سوشل میڈیا پر پانی کی وجہ سے اس پر مزید سختی سے قائم ہیں۔
وہ یہ بات جانتے مانتے ہیں کشمیری کسی قیمت پر بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے مگر ان کا قلم ہمیشہ کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف ہی لکھتا ہے ان کے خیال میں بھارت کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم ہی نہیں کرتا اور اسے اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے جب کہ انھیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کا علم ہے کہ وہ اُسے ایک متنازعہ علاقہ قرار دیتی ہیں۔
کشمیریوں کے ساتھ بھارت کے رویے کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ وہاں انھیں مشکوک سمجھاجاتا ہے مگر اس پر اعتراض نہیں کرتے صرف بیان کرتے ہیں حالانکہ اس رویے کو قابل مذمت لکھنا چاہیے تھا۔ اس پر افسوس کرتے ہیں کہ ہندو مسلم تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے کشمیر میں اور خود انھیں ان لوگوں نے مدعو نہیں کیا حالانکہ کشمیری لیڈر پہلے ایسا کرتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ جہاں آپ پیلٹ گن سے کشمیریوں کو اندھا کررہے ہیں، براہ راست فائر کرکے شہید کررہے ہیں اور آپ کا قلم خاموش ہے کوئی احتجاج نہیں تو آپ کس کے دوست ہیں کشمیریوں کے یا بھارتی افواج کے؟
انھوں نے یہ تو ضرور لکھا ہے کہ اٹل بہاری واجپائی اور پرویز مشرف کشمیر کے حل تک پہنچ گئے تھے مگر بعد میں سشما سوراج نے معاہدے کو بدل دیا اور اس میں سے کشمیر کا پیرا حذف کردیا زہر کی پڑیا ہے یہ عورت! پھر لاہور میں اٹل بہاری کو ایک جھوٹا ٹیلی گرام دکھایا گیا جو کشمیر سے آیا تھا کہ جموں کے قریب بہت سے ہندو ہلاک کردیے گئے۔
اگر یہ سچ تھا تو جموں میں تو بھارتی فوج ہے وہاں یہ لوگ کیسے ہلاک ہوئے یہ بھی بمبئی حملے جیسا فراڈ تھا۔ سندھ طاس معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کلدیپ نیئر لکھتے ہیں کہ پاکستان میں ایک مصیبت یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو کشمیر سے جوڑ دیتے ہیں خواہ اس کا کشمیر سے دور کا بھی تعلق نہ ہو۔ کشمیر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے حل میں سالہا سال لگ جائیںگے۔
سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کرنا اس اندازے کے دونوں فریق مطمئن ہوجائیں اس سے امن کی فضا قائم کرنے میں مدد ملے گی ہمیں چاہیے کہ اس معاہدے پر الگ سے غور کریں باقی چیزوں کو چھوڑدیں۔ کلدیپ جی کشمیر بھارت کے لیے تو ایک الگ سا تفریحی مقام ہے مگر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی بھی اپنی شہ رگ کو چھوڑ کر زندہ کیسے رہ سکتا ہے۔
کلدیپ جی! بھارت کی یہ خواہش کہ وہ پاکستان کو ختم کردے پوری نہیں ہوگی کشمیر پاکستان ہے اور جو بھارت کے پاس ہے وہ آزاد ہونا ہے۔ دونوں حصے ایک ہونے ہیں اور آپ کو بھارت کی ناکامیوں کی داستان لکھنی ہے ابھی سے تیاری کرلیجیے کیونکہ امریکا سے دوستی بربادی کی علامت ہے اور یہ پاکستان ہی ہے جو امریکا کے ساتھ ستر سال گزارا کر گیا۔ آپ سات سال بھی نہیں چل سکیںگے مہا راج شیش ناگ ہے یہ، اور چھوٹے ناگ بھارت کو ہڑپ کرجائے گا معاشی اور سماجی طور پر لکھ لیجیے یہ بات بھی اور اپنا مضمون بھی۔