وہ جنھیں سڑکوں پرگھسیٹا گیا
میاں شبہازشریف سمیت کوئی بھی شخص اُن اٹھارہ کروڑ عوام کے بارے میں نہیں سوچ رہا، جنھیں حالات روز سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں۔
جس پل کراچی میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور دھماکوں کی گونج میں نئے سال کا جشن منایا جا رہا تھا ، پاکستانی سیاست کا مرکزی کردار یہاں سے میلوں دُور سعودی عرب میں بیٹھا تھا ۔ نہیں، یہ میاں نواز شریف کا نہیں ، میاں شہباز شریف کا تذکرہ ہے ۔ اِس بار جہاز ان کے لیے آیا تھا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے وقت میں دوگھنٹے کا فرق ہے ۔ جب یہ سطریں لکھی گئیں، میاں شہباز شریف نئے سال سے دو گھنٹے دُور تھے ۔ پیر کو اُن کی اور اُن کے بڑے بھائی، میاں نواز شریف کی اہم سعودی شخصیات سے ملاقاتیں متوقع تھیں۔(اور ایسا پہلے بھی ہوچکا تھا۔)
شہباز شریف اس وقت کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ بتانا مشکل ہے ۔ البتہ مجھے یقین ہے کہ وہ آصف علی زرداری کے بارے میں تونہیں سوچ رہے ہوں گے، جنھیں انھوں نے سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ کیا تھا یا اس لوڈشیڈنگ کی بابت ، جسے ختم کرنے کاوہ تواتر سے دعویٰ کرتے آئے ہیں، یہاں تک کہ حبیب جالب کی بابت بھی نہیں ۔ابھی جذباتی تقاریرکا وقت نہیں، ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہے، حالات بدل چکے ہیں ۔ وفاق اور پنجاب میں حکومت ہونے کے باوجود (حالیہ مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی ملکی آبادی کا 52 فی صد ہے) طاقت کا ڈیڈلاک پیدا ہوچکا ہے۔ سرکار بے حیثیت ہے ، باحیثیت ہی باحیثیت ہے۔
چند حلقوں کو طاہر القادری کی اے پی سے کے اعلامیے سے مایوسی ہوئی ۔ شیخ رشید بھی فوری ایکشن کے خواہش مند تھے ۔ سپریم کورٹ سے سوموٹو ایکشن لینے کے مطالبے کو بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کا اشارہ قرار دیا جارہا ہے،ادھر ہلاک شدگان کی دیت کا معاملہ بھی زیر بحث ہے۔ توکیا اے پی سی کو، جسے فاروق ستار چھوڑ کر چلتے بنے تھے، ناکام ٹھہرایا جائے؟ فیصلہ کرنے میں اتنی جلدی مت کیجیے ۔ شہباز شریف اور رانا ثنا ء اللہ کے استعفیٰ کی ڈیڈ لائن آگے بڑھائی گئی ہے، مطالبے سے دستبرداری ظاہر نہیں کی گئی ۔ اصل مقصد پیش نظرہے اور پیش قدمی جاری ہے۔
اور مقصدکیا ہے؟ مقتدرہ حلقوں کے قریب تصورکیے جانے والے تجزیہ کاروں،کالم نویسوں پر اعتبارکیا جائے، تو فی الحال فیصلہ سازوں کی توجہ عام انتخابات پر نہیں، سینیٹ کے انتخابات پر مرکوز ہے۔ عام انتخابات کچھ عرصے کے لیے ملتوی ہونے کی بازگشت تو پرانی ہے ۔کراچی سے میلوں دُور بیٹھے شہباز شریف نے ضرور اِن پہلوؤں پر غورکیا ہوگا۔ ان کی نظر پارٹی کے اندرونی اختلافات پر بھی ہوگی۔ وہ ستارے، جو اُن کے سینے پر سجائے گئے ہیں ، اپنے ساتھ بھاری ذمے داریاں لائے ہیں۔ بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ ایک طرف عمران خان کی بڑھتی مقبولیت اور طلسم ہے، جس نے ہر رکاوٹ کو خس و خاشاک کر دیا ہے، دوسری ن لیگ میں جاری جانشینی کی جنگ ہے۔
جے آئی ٹی کے زمانے میں تو یوں لگتا تھا کہ مریم نواز نے یہ مرحلہ سر کر لیا ہے۔ ان کی قابلیت اور صلاحیت سے کوئی انکار نہیں، مگر یاد ر کھیں، شکست بے اولاد ہوتی ہے اور تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔ نظریاتی جدوجہد کا سپنا جے ٹی روڈ ہی پر ڈھیر ہوگیا تھا۔ میاں صاحب کے اہم ترین مہرے اسحاق ڈار کی بڑھتی مشکلات بادشاہ کے گرد گھیرا تنگ کرتی جارہی ہیں ۔ تین بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے والے شخص کے لیے نیب کی پیشیاں بھگتنا سہل نہیں ۔ میاں صاحب کو مریم ڈاکٹرائن نے بھی نقصان پہنچایا۔
مریم نوازکی ٹیم نے میاں صاحب کو نظریہ بنانے کے بجائے اداروں کے سامنے لاکھڑا کیا اور جب جب ووٹرز کو اداروں اور سیاست دانوں میں سے کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرنا ہو، تو اکثریت اداروں ہی کے حق میں فیصلہ سناتی ہے ۔ اس بات کا شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو بہ خوبی ادراک ۔ پاناما کیس کے دوران انھوں نے ان ہی خطوط پر اپنی سیاست کی، جو مملکت خداداد میں منزل مقصود تک پہنچنے کا موزوں ترین طریقہ ہے ۔ آخر مریم نوازکی جانشینی کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ میاں شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے نام زد کردیا گیا ۔کہہ لیجیے، چوہدری نثار کی جیت ہوئی۔
یہ نام زدگی جن دونوں کا قصہ ہے( اور یہ تازہ واقعہ ہے) تب ایک صحافی نے اِس بابت ایک چٹ پٹا سوال شہباز شریف کی سمت اچھا لیا تھا ۔ جواب میں اُنھوں نے کہا تھا ''اللہ آپ کی زبان مبارک کرے۔''
بے شک وہ خوش تھے، مگر مجھے یقین ہے ، ہمارے ممدوح کچھ محتاط بھی ہوں گے ۔ یاد رکھیے، اُن کے ساتھ پہلے بھی ایک وعدہ کیا گیا تھا، پہلے بھی ان کے لیے تالیاں بجی تھیں، انھوں نے ایک شاہانہ عاجزی کے ساتھ کھڑے ہوکر سینے پر ہاتھ رکھا تھا ۔یہ اُس وقت کی بات ہے، جب شاہد خاقان عباسی کو 45 روز کے لیے وزیر اعظم بنایا جا رہا تھا اور شہباز شریف کو این اے 120 سے جیت کر ان کی جگہ لینی تھی، مگر پھر وہ وعدہ، ان کے نام پر بجنے والی تالیاں، وہ شاہانہ عاجزی، سب تلپٹ ہوا۔ کلثوم نواز امیدوار ٹھہریں اور پھر انھیں بیماریوں نے آن گھیرا اور میاں صاحب کا زیادہ وقت بیرون ملک گزرنے لگا۔
اب پھر انھیں نام زد کیا گیا ہے صاحب۔ پھر ان کے حق میں تالیاں بجی ہیں۔ وہ ضرور محتاط ہوں گے اور انھیں ہونا بھی چاہیے۔ این آر او کی بازگشت کے باوجود، سعودی عرب روانگی کے باوجود، برطانوی جریدے دی ٹائمز میں شایع ہونے والی اُس اسٹوری کے باوجود، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میاں صاحب سیاست سے دستبرداری کی ہامی بھرچکے ہیں، وہ ضرور محتاط ہوں گے۔
سیاست میں لمحوں میں منظر بدل جاتا ہے، ممکن ہے، جب تک یہ سطریں آپ تک پہنچیں، تصویر میں نئے رنگ بھر چکے ہوں، مگر اب تصویر کتنی ہی بدل جائے، اس کا مرکزی کردار عمران خان ہے۔ چاہے ایک کمزور پارلیمنٹ وجود میں آئے، چاہے کپتان خود وزیر اعظم نہ بن سکے، چاہے پانچ برس سے قبل اُس کی حکومت ختم ہوجائے، اس کے باوجود اب وہ مرکزی کھلاڑی ہے، یہ اس کی باری ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ میاں شبہاز شریف اِس بابت سوچ رہے ہیں یا نہیں، مگر ہم موجودہ حالات میں ان کی نامزدگی کو خوب ناپ تول کر، سوچ بچارکے بعد کیا جانے والا ایک محتاط فیصلہ کہہ سکتے ہیں ( اور جوا بھی کہہ سکتے ہیں) کہ اس سے جہاں اداروں سے تناؤ کی شدت میں کمی آئے گی، ن لیگ کے زخموں کے بھرنے کا امکان جنم لے گا، وہیںعمران خان اور اُن کے حواریوں سے نبرد آزما ہونے کی ذمے داری شہباز شریف کے کاندھوں پر آن پڑے گی۔
اس ذمے داری کا دباؤ اور آنے والے برس خود اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ (وقت ہی اصل حاکم ہے) تب تک شاید بساط پر نئے کھلاڑیوں کی ضرورت پڑجائے۔ تب شاید میاں صاحب کی تیسری نسل پوری چمک دمک کے ساتھ سیاست میںوارد ہو اور شہباز شریف کو جگہ خالی کرنی پڑجائے۔
تو آج سب سے اہم سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کیا سوچ رہے ہیں ؟
میں کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا ،کوئی پیش گوئی بھی نہیں کرتا، مگر یہ پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ طاقت کے اس کھیل میں میاں شبہازشریف سمیت کوئی بھی شخص اُن اٹھارہ کروڑ عوام کے بارے میں نہیں سوچ رہا، جنھیں حالات روز سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں ۔
اُن کے بارے میں سوچنا وقت کا زیاں ہے۔