خبردار خبردار امریکا آ رہا ہے
امریکا کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنا مطلب نکالنے کے بعد آنکھیں پھیر لیتا ہے
امریکا غرور و تکبر کی جن انتہاؤں کو چھو رہا ہے اس کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایسی بلندی پر پہنچنے کے بعد پستی کا سفر شروع ہو جاتا ہے اور بلندی سے پستی کا سفر تیزی کے علاوہ کچھ ایسا خوشگوار بھی نہیں ہوتا۔ امریکا جس بلندی تک پہنچ چکا ہے اس کے پاس اب دو ہی راستے ہیں یا تو وہ یہ کوشش کرے کہ اس بلندی پر جما اور ٹکا رہے دوسری صورت نیچے اترنے کی ہے جو کہ امریکا کبھی نہیں چاہے گا لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے اور جس بلندی تک امریکا پہنچ چکا ہے ۔
اس سے اوپر اب مزید کوئی گنجائش نہیں ہے، ایسی بلندی پر قیام ممکن بھی نہیں ہوتا لیکن امریکا ان بلندیوں سے قہر بن کر ہی زمین کی پستیوں پر ٹوٹتا ہے اور اس کے قہر کا عمومی شکار اس دنیا کے کمزور باسی اور خاص طور پر مسلمان ہیں جن کے خلاف امریکا نے نائن الیون کے بعد سے صلیبی جنگوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ دنیا کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس حادثہ کے پیچھے کون تھا لیکن صلیبی جنگ کا آغاز امریکا نے اپنے پرانے حلیف ایک کمزور اور جنگ زدہ ملک افغانستان سے کیا، اس نے اپنی پوری قوت کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا اور اس کے پہاڑوں تک کو ریزہ ریزہ کر دیا لیکن پوری دنیا یہ بات جانتی تھی کہ اگر کسی ملک کا نائن الیون کے حادثے میں کوئی کردار نہیں تو وہ یہی افغانستان ہے لیکن امریکا نے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے افغانستان کو تختہ مشق بنایا اور اگر اس وقت کے پاکستانی حکمران امریکا کا ساتھ نہ دیتے تو شاید یہی تباہی پاکستان میں بھی ہوجاتی۔
اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے امریکا نے بالآخر افغانستان کو بھی بدامنی کی فضاء میں جلتا چھوڑ دیا اور نئی مہم جوئی کے لیے سر زمین عرب کی طرف کوچ کیا اور اپنا باقی ماندہ غصہ اب عرب مسلمان ملکوں پر نکال رہا ہے تا کہ عالم اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا سکے جس کا آغاز تو عراق جنگ میں ہو گیا تھا اور اب امریکا مسلمانوں کے مقدس ترین مقام سعودی عرب میں شاہی خاندان کو آپس میں لڑا کر مسلمانوں کو مذہبی جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے تا کہ مسلمانوں کے مرکز میں ابتری پیدا کر کے ان کو مزید تقسیم کیا جائے لیکن امریکا شائد ایک بات بھول گیا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ملکوں میں اس نے جو تباہی مچائی ہے یہ ان کے جسموں کو تو ختم کر سکی ہے مگر ان کے دلوں کو شکست نہیں دے سکی۔ ہماری نوجوان نسل امریکا سے کسی بھی طرح خوفزدہ نہیں ہے حالانکہ امریکا اس فانی دنیا کی اس وقت سب سے بڑی طاقت ہے اور اس کی بے رحمی اور سفاکی ایک دنیا دیکھ رہی ہے۔
امریکا جس نئے انداز اور نئی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اس کی متوقع تباہ کن پیش قدمی کے آگے بند باندھنے کے لیے جذبات سے زیادہ دانشمندانہ حکمت عملی کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی جارحانہ پیش قدمی کو دانشمندی سے ہی روکا جا سکتا ہے ورنہ دنیا کے بیشتر ممالک میں امریکا کی بربریت ہمارے سامنے ہے۔ امریکا مسلمانوں کا وہ دشمن ہے جو کہ ان کے وجود کو برداشت کرنے سے انکاری ہے اور آج کی مسلم دنیا ہلاکو خان کے حملے والی دنیا سے مختلف ہے اور گزشتہ صدی کی یورپ کی غلام مسلم دنیا سے بھی مختلف ہے ۔ آج کی جلد باز اور بے رحم سپر پاور کیا رنگ دکھانے والی ہے اس کے بارے میں ایک سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ امریکا کا اگلا نشانہ پاکستان ہو گا اور اس بات کے واضح اشارے امریکی صدر نے دینے شروع کر دیے ہیں۔
امریکا دنیا میں اور خاص طور پر اس خطہ میں جس طرح کے امن کا متلاشی ہے اس میں ایٹمی پاکستان کی گنجائش بالکل بھی نہیں ہے۔ دنیا مسلمانوں اور خاص طور پر پہلے مرحلے میں پاکستان کو رسوا کرنے پر تلی ہوئی ہے اور یہ طاقتوردنیا ہے اتنی زیادہ طاقتور اور بے رحم کہ محض اپنے شوق کی خاطر کسی بھی ملک کو تباہ اور ویران کر سکتی ہے اور اس کی زندہ مثال افغانستان ہے جس کے پاس کوئی قدرتی دولت بھی نہیں، ہاں صرف ایک دولت ان کے پا س ہے کہ وہ مسلمان ہیں اورایسے مسلمان جنھوں نے سوویت یونین جیسی عفریت کو اپنے ملک سے واپس دھکیل کر ریزہ ریزہ کر دیا۔ امریکا مسلمانوں کی اسی قوت سے خوفزدہ ہے پہلے تو افغانستان کو بمباری سے قبرستان میں تبدیل کیا اور پھر اسی شورش کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل کر دیا اور اب امریکا یہ کہتا ہے کہ اس کو پاکستان نے دھوکہ دیا اور جھوٹ بولا اور امریکی امداد کو اپنی بے وقوفی قراردیا ۔
امریکا کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنا مطلب نکالنے کے بعد آنکھیں پھیر لیتا ہے اسی طرح کا رویہ پاکستان کے بارے میں بھی روا رکھا جا رہا ہے۔ امریکا اور سوویت یونین کی جنگ ہو یا امریکا کا نائن الیون کے بعد نہتے افغانیوں پر حملہ دونوں جنگوں میں پاکستان کو زبردستی اپنا حلیف بنا کر ہمارے سر زمین استعمال کی گئی اور آج سے تین دہائیاں پہلے امریکا نے دہشت گردی کی جو نرسری لگائی تھی وہ اب پل بڑھ کر جوان ہو چکی ہے جس کا خمیازہ پاکستان بھگت رہا ہے۔
افغانستان تو پہلے سے ہی جنگ زدہ ملک تھا لیکن اب یہی جنگ امریکا بوجہ پاکستان منتقل کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے بہانے تراشے جا رہے ہیں، الزامات لگا کر اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی حالانکہ پاکستان پہلے سے ہی دہشت گردی کا شکار ہے اور اس دہشت گردی کا منبع امریکا اور اس کے پروردہ وہ گروہ ہیں جن کو وہ بھارت کی شہہ پر مدد فراہم کرتا ہے اور یہی گروہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں ۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں کامیاب کارروائیوں میں ان گروہوںکا قلع قمع کیا ہے۔ بلا مبالغہ لاکھوں کی تعداد میں شہری اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکار دہشت گردوں کی کارروائیوں کا شکاربن چکے ہیں۔ پاکستان کی اندرونی سیکیورٹی کا معاملہ ہو یا اقتصادی امور اس پرائی جنگ نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اب اس پرائی جنگ سے جان چھڑانا ہی دانشمندانہ فیصلہ ہو گا اور یہ فیصلہ جتنی جلدی ہم کرلیں اتنا ہی اچھا ہو گا۔