بالادستوں کی جنت
دو وزرائے اعظم کوغیر متعلقہ الزامات کے تحت گھر بھیج دیا جاتاہے
یوں تو اخبارات میں بے شمار ایسی تصاویر شائع ہوتی رہتی ہیں، جو عوام کی کسمپرسی اور لاچارگی کا کھلا اظہار ہوتی ہیں، لیکن حالیہ چند دنوں میں دو ایسی تصاویر شائع ہوئیں، جنھوں نے عوام کی بے بسی، اشرافیہ کی بے حسی اور نظام عدل کی فرسودگی پر مہر صداقت ثبت کردی۔ پہلی تصویر بلوچستان کے ایک رکن اسمبلی اور بااثر سیاسی شخصیت مجید اچکزئی کی ہے۔ جس میں عدالت سے رہائی کے بعد چاہنے والے ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کررہے ہیں۔ دوسری تصویر شاہ رخ جتوئی کی ہے، جس کی قتل کے مقدمے میں رہائی کے بعد اس کا ارب پتی باپ اسے پیار کررہا ہے اوروہ مسکراتے ہوئے Vکا نشان بنا رہا ہے۔
توجیہات خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں، مگر وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ طاقتور ، بااثراور دولت مند کے لیے قانون کی تشریحات کچھ اور ہوتی ہیں اور عام شہریوں کے لیے کچھ اور۔ غریب شہری قتل کے جھوٹے مقدمے میں بھی سولی چڑھ جاتا ہے۔جب کہ امیر اور با اثر لوگ قتل عمد کے بعد بھی سزا سے صاف بچ نکلتے ہیں، بلکہ وہ اپنی طاقت، اثرورسوخ اور دولت کے بل بوتے پرقانون کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح و توجیہہ کروالیتے ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیاسی مفادات کی وجہ سے کبھی مختلف نوعیت کے جرائم پر پردہ ڈال دیاجاتا ہے۔ کبھی متنازع مقدمات میں سزا دیدی جاتی ہے ۔ مثلاً لیاقت علی خان سے محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمات تک کا آج بھی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ بھٹو مرحوم کو ایک متنازع مقدمے میں پھانسی دیدی جاتی ہے۔ دو وزرائے اعظم کوغیر متعلقہ الزامات کے تحت گھر بھیج دیا جاتاہے ۔ یہ وہ مثالیں ہیں جو وطن عزیز کے عدالتی نظام پر کلنک کا ٹیکہ بن چکی ہیں۔
اب جہاں تک با اثر ، طاقتور اور دولت مند افراد کی جانب سے کیے گئے قتل اور ان کے خلاف فیصلوں کا جائزہ لیں، تو بہت ہی تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ جنوری 2011میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور میں تین افراد قتل ہوجاتے ہیں۔ مگر امریکی دباؤپر حکومت پاکستان قصاص ودیت کے اسلامی قانون کا سہارہ لے کر مقتولین کا منہ بند کردیتی ہے۔یوں ریمنڈ ڈیوس نہ صرف رہا ہوجاتا ہے، بلکہ پروٹوکول کے ساتھ اپنے ملک روانہ بھی کردیا جاتا ہے۔
اس سانحے کے بعد قتل کے دو نئے واقعات سامنے آئے۔ دسمبر2012میں ایک پولیس آفیسر کے جواں سال بیٹے شاہ زیب کو معمولی جھگڑے پر ارب پتی باپ کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے اپنے ساتھیوں سجاد ٹالپر اور مرتضیٰ لاشاری کی مدد سے قتل کردیا۔گزشتہ برس جون میں قلعہ عبداللہ سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی مجید اچکزئی نے کوئٹہ میں ٹریفک سارجنٹ کو کچل کر ہلاک کردیا تھا۔چونکہ قتل کے جرم میں ملوث دونوں ملزمان کا تعلق با اثر اور دولت مند طبقہ سے ہے،اس لیے روز اول ہی سے یہ تاثر قائم ہوگیا تھا کہ دونوں جلد یا بدیر رہا ہوجائیں گے۔
اب جہاں تک ریمنڈ ڈیوس کے مقدمے کا تعلق ہے، تو سفارتی پیچیدگیوں کے باعث اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ قتل جیسے جرم کا مقدمہ اسی ملک میں چلتا ہے، جس میں قتل کیا گیا ہو، مگر ہمارے یہاں باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ امریکی دباؤ پر غریب ورثا کو چند سکے دے کرنمٹا دیا گیا۔ جب کہ لندن میں ہونے والے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ صرف اس لیے اسلام آباد میں چلایا جا رہا ہے، کیونکہ ذرائع ابلاغ سمیت پوری ریاستی مشنری کے ذہنوں میں اربن سندھ کی نمایندہ جماعت کے خلاف بغض، عناد اور نفرت بھری ہوئی ہے ۔ اس دہرے معیار پر بے ضمیر حکمران اشرافیہ سے سوال کرنا بیکار ہے۔
جہاں تک شاہ رخ جتوئی اور مجید اچکزئی کا معاملہ ہے تو یہ دونوں قتل عمد کے زمرے میں آتے ہیں۔ اول الذکر مقدمے میں دہشت گردی کی عدالت نے شاہ رخ کو موت کی سزا اور اس کے ساتھیوں سجاد ٹالپر اور مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی، لیکن شاہ زیب کے ورثا پر روز اول ہی سے سیاسی اور انتظامی ذرائع سے دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ رخ کے ارب پتی والد نے شاہ زیب کے ورثا کو کروڑوں روپے بطور قصاص دے کر ان کا منہ بند کردیا ہے۔ اب اصل کہا نی کیا ہے؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جانے، مگر یہ ثابت ہوا کہ نظام عدل میں بھی امراء کے لیے مختلف تاویلیں اور دلائل کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ یہی کچھ معاملہ صرف چھ ماہ میں ٹریفک سارجنٹ کے قتل کے سلسلے میں ہوا۔ حیرت ہے کہ قتل جیسے مقدمے کا فیصلہ صرف چھ ماہ میں آگیا۔ حالانکہ ہمارے یہاں طلاق جیسے مقدمات جو تین سے چار پیشیوں میں طے ہوسکتے ہیں، کئی برس تک التوا کا شکار رہتے ہیں۔
جو بات قابل غور ہے، وہ یہ کہ مجید اچکزئی اور شاہ رخ جتوئی کی رہائی کے پس پشت جو بھی قانونی موشگافیاں رہی ہوں۔ عام آدمی کے ذہن میں نظام عدل کے لیے جو تھوڑی بہت توقیر تھی، وہ مزید کم ہوئی ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ انصاف و قانون کے تمام راستے امرا کے محلوں اور اوطاقوں کی طرف جاتے ہیں،اس کی جھونپڑی اور کٹیا کی طرف نہیں آتے۔عام آدمی انتظامیہ (بطور خاص پولیس) سے پہلے ہی نالاں چلا آرہا ہے۔ اب وہ نظام عدل سے بھی بد دل ہوتا جا رہا ہے۔یہ ایک ایسا رجحان ہے، جو ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں انصاف کی فراہمی روز اول ہی سے سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ قانون کی بالادستی کے دعوے بہت کیے جاتے ہیں، مگر جو دعوے کرتے ہیں، وہی قوانین کو پامال کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جس کو جہاں موقع ملتا ہے، قانون کو ہاتھوں میں لینے سے گریز نہیں کرتا۔
معاملہ یہ نہیں کہ ان مقدمات میں کیا قانونی موشگافیاں اور نزاکتیں درپیش تھیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران ہمارے سامنے ایسے کئی مقدمات آئے ہیں، جن میں قتل کے الزام میں کئی ملزمان نچلی عدالتوں سے موت کی سزا پاگئے، مگر بعد میں عقدہ کھلا کہ وہ بے گناہ تھے،کیونکہ اعلیٰ عدلیہ نے Review پٹیشن کے دوران انھیں بے گناہ قرار دیدیا۔ اسی طرح قصور کے مظہر فاروق نامی نوجوان کو1992میں نثار احمد نامی شخص کے قتل کے الزام میں 1996 میں گرفتار کرلیا گیا۔ نومبر 2016میں 20برس بعد سپریم کورٹ کے حکم پر اسے رہائی نصیب ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مظہر فاروق کی جوانی اور پھانسی پا جانے والیوں کی زندگیاں کون لوٹائے گا ؟اس سلسلے میں شباب کیرانوی مرحوم کی فلم '' انصاف اور قانون'' ذکر بے جانہ ہوگا، جس میں فلم کے ہیرو محمد علی مرحوم کلائمکس سین میں عدالت سے 14برس جذباتی انداز میں مانگتے نظر آتے ہیں، مگر ہمارے یہاں یہ فلم ہر روز چل رہی ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پارلیمان میں موجود ہمارے نمایندے اس پہلو پر غور کرنے سے پہلو تہی کیوں کررہے ہیں کہ ملک میں رائج قوانین، انتظامی ڈھانچہ اور نظام عدل فرسودگی کی آخری حدود کو چھو رہا ہے؟ اول تو یہ نظام اور قوانین نوآبادیاتی دور کے ہیں۔ دوسرے ڈیڑھ سو برس پرانے ہیں۔ چلیے اگر کرمنل پروسیجر کوڈ اور پاکستان پینل کوڈ میں تبدیلیاں ممکن نہیں، تو کم ازکم تھانہ کلچر اور نظام عدل کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے عام شہری کے لیے انصاف کے حصول کو تو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ تاکہ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع تو نہ ملے کہ یہ ملک صرف بالادستوں کی جنت ہے، جس میں غریب انسان شہری نہیں صرف محکوم ہے۔اس سلسلے میں ہمیں حضرت علیؓ کے اس قول کو یاد رکھنا چاہیے کہ''کفر کی حکمرانی چل سکتی ہے، لیکن نظام عدل کے بغیر ممکن نہیں۔''