نئے برس کا یہ پہلا سورج
یہ نیا اور پرانا سال یا پہلا اور دوسرا سورج ہمارے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ہیں
KARACHI:
گزشتہ کالم شائع تو 31 دسمبر کو ہوا تھا مگر اس میں شامل ''نئے سال کی پہلی نظم'' کا موضوع اور حوالہ اس کے 24 گھنٹے بعد شروع ہونے والا دن تھا۔ اخبار اور کالم کی وسیع تر ریڈر شپ اور وہاں سے فیس بک کے گنتی سے باہر احباب تک پہنچنے کی وجہ سے ایک دن میں مجھے اس پر داد کے اتنے پیغامات ملے جو اس کی پہلی اشاعت سے لے کر اب تک کے تقریباً 40 برسوں کی مجموعی فیڈ بیک سے بھی زیادہ تھے۔ سو عین ممکن ہے کہ نئے سال کے حوالے سے لکھی جانے والی اس تازہ ترین نظم کی تحریک میں اس کا بھی کچھ حصہ ہو جو ابھی کچی سلائی یعنی Fine Tunning کے مراحل میں ہے لیکن اس کے باوجود صرف اس خیال سے فوراً شیئر کررہا ہوں کہ نئے سال کے ابتدائی دنوں کی اس مخصوص فضا میں اس کا مطالعہ کچھ ایسی اضافی کیفیات کا بھی حامل ہوگا جو شاید کسی اور وقت میں مطلوبہ شدت کے ساتھ مہیا نہ ہوسکیں۔
یہ بظاہر خود شناسی، خود فریبی اور خود احتسابی کا ایک ملا جلا سا منظرنامہ ہے مگر اس کی اندرونی فضا میں بین السطور کچھ ایسے مرحلے خود بخود درآئے ہیں جن کا اس نظم کے آغاز میں دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا جب کہ اس بات کا احتمال بھی باقی ہے کہ ممکنہ ایڈیٹنگ اور کانٹ چھانٹ کے دوران اس کی آخری شکل کچھ اور ہوجائے۔ نئے سال سے وابستہ امکانات کے بے یقینی اور پراسراریت کے حوالے سے میں اکثر ایک بھارتی معاصر آغا امیر قزلباش مرحوم کا یہ شعر عرض کیا کرتا ہوں کہ
یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھیں گے کیا حال ہے!
کہ اس موضوع پر بیک وقت ایک سنجیدہ اور اتنا مزاحیہ تبصرہ شائد ہی کہیں اور ہوا ہو۔ وقت کا دریا اپنی اصل میں بے کنار بھی ہے اور بے جہت بھی۔ یہ شب و روز اور مہ وسال کے کنارے تو ہم نے اپنی سہولت اور آسانی کے لیے وضع کررکھے ہیں اور اسی طرح اس کی روانی اور سمت کا تعین بھی ہماری یعنی اس کے محیط میں بنا مرضی پھینکے جانے والوں کی اپنی اختراع ہے کہ یہ نیا اور پرانا سال یا پہلا اور دوسرا سورج ہمارے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ہیں کہ ان علامتوں اور نشانیوں کے بغیر کہیں پہ کچھ بھی ممکن نہ ہوتا کہ خود ہماری پہچان بھی تو انھی کے دم سے ہے۔ کیا پتہ وقت کے اس کورے کاغذ پر ہم بھی اس کے لیے ایک علامت اور نشانی کے سوا کچھ نہ ہوں۔ اس سے پہلے کہ بات مزید الجھ جائے اور ''فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں'' والی صورت حال پیدا ہوجائے۔ آئیے اس نئے سال کو گزشتہ اور آیندہ کی ''نشانیوں'' کے درمیان رکھ کر واپس وقت کے اس دریا کی طرف چلتے ہیں جس کا پانی ''آج'' کے پُل تلے سے گزرتا چلا جارہا ہے۔
نئے برس کا یہ پہلا سورج سنو تو کیا بات کہہ رہا ہے!
''گزر گیا ہے جو سال اس کے بدلتے رنگوں کو یوں سمیٹو
کہ ان کی خوشبو تو ساتھ آئے
مگر نہ رستے کو روک پائے
وہ بے دلی کا سفیر موسم جو ڈھیر ملبے کا بن چکا ہے
نئے سفر میں اب اس کی یادیں نہ ساتھ لاؤ
کہ جو مسافت گزر چکی ہے وہ مرچکی ہے کہ اب ''نہیں ہے''
وہ دن نہیں ہے وہ شب نہیں ہے
جو اس کے ہونے سے منسلک تھا وہ ''سب'' نہیں ہے
جہت شناسی کی بے یقینی کہ خود فریبی کی دلربائی!
گئے دنوں کی سراب چشمی کہ آتی رُت کی گریز پائی!
اب اس کی ہر بات بھول جاؤ
یہ بوجھ فاضل ہے، مت اٹھاؤ
ہر ابتدا کا اصول اوّل اسی حقیقت کا آئینہ ہے''
سو سب سے پہلے جو کام کرنے کا ہے، یہی ہے
کہ اس ''نشاط الم'' کے نشے سے
بے یقینی کے آکٹوپس سے جاں چھڑائیں
جو ہم کو اندر سے کھا رہا ہے
اور اس حقیقت کو پورے دل سے قبول کرلیں
جو روبرو ہے جو جابجا ہے
یہی وہ گستاخ آئینہ ہے
جو سچ کا خوگر ہے، برملا ہے
جو دیکھتا ہے وہی دکھا کر ہمیں یہ ہم سے ملا رہا ہے
تو آؤ اس کے کہے کو مانیں اور اپنی منزل کی راہ پائیں
ہر ایک منظر کو جگمگائیں، ہر ایک شیشے کو صاف کردیں
خود اپنے اوپر نگاہ ڈالیں تو دوسروں کو معاف کردیں
بجھے دلوں سے نکال پھینکیں وہ خود پرستی کا سارا کچرا
جو رستہ رستہ بکھر رہا ہے
وہ سارے غصے، ہر ایک رنجش، تمام شکوے
کہ جن کا گرد و غبار سارے میں بھر رہا ہے
انھیں تلافی کا غسل دے کر سمے کی مٹی میں دفن کردیں
کھرچ کے رکھ دیں وہ ساری باتیں جو حافظے سے چمٹ گئی ہیں
کہ جن سے لپٹا ہوا اندھیرا
ہر ایک منظر پہ چھا رہا ہے
ہر آتے موسم کی خوش گمانی کو کھا رہا ہے
وہ ہر رعایت جو ہم کو اپنے لیے ہو جائز
وہ عام کردیں کہ سب کو حاصل ہو اور ردا ہو
سزا جزا کی ہر اک کسوٹی، ہر ایک پیمانہ، ایک سا ہو
طرح طرح کے حساب جو ہم ہر آتے جاتے سے مانگتے ہیں
جو ہم سے پوچھے اگر کوئی تو
جواب ان کے بھی دینا سیکھیں
جو بوجھ اوروں پہ ڈالتے ہیں
خود اپنے اوپر بھی لینا سیکھیں
ہر اک کنارے پہ روشنی ہے، عجیب دریا سا بہہ رہا ہے
نئے برس کا یہ پہلا سورج سنو تو کیا بات کہہ رہا ہے!