نئے سال میں پرانے زخموں کی ٹیسیں
نئے سال کی خوشیوں کو پھیکا کرنے والا دوسرا ملک، عرب دنیا کا سب سے غریب ملک یمن ہے
آخردنیا نے بڑے دھوم دھڑکے سے نئے سال کے آنگن میں قدم دھر ہی دیا۔ خوشی کے شادیانے بجے، مٹھائیاں تقسیم ہوئیں اور کیک کٹے۔ تہینتی پیغامات کا سلسلہ تو اب تک رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ خوشیوں کے نادر اور قیمتی لمحات کا ایسے ہی دل کھول کر استقبال کرنا بھی چاہیے، خصوصاً ایسے دور میں جب کرب ناک لمحے رلانے کو ہمہ وقت تیار کھڑے ہوں۔
خوشی منانا سب کا بنیادی حق ہے، اس بات سے بے نیاز ہوکر کہ گزرا ہوا سال کتنے نشتر بیمار معاشروں کے نحیف وجود میں گھونپ گیا، وقت کا دامن حضرت انسان کے لیے کتنا اور تنگ کرگیا، کتنے اندھیرے راستے بشرکا مقدر ٹھہرے اور آدمیت پستی کے کن عمیق گڑھوں میں گِرکے اپنی موت آپ مری۔ خوشیاں منانا ہرگز گناہ نہیں۔ انسان روزِازل سے ہی خوشی اور غم کی کیفیات کا مختلف طریقوں سے اظہارکرتا چلا آیا ہے، لیکن تھوڑی دیر کو سہی، خوشیوں کا چولا اتارکے ایک طرف رکھتے ہیں اور نئے سال کے جشن کی پُر لطف ساعتوں سے باہر نکل کر دنیا کے ان مسائل سے بھی ذرا سر پھوڑتے ہیں جن کی وجہ سے نیا سال لاکھ چاہ کر بھی خوشیوں کا سفیر بن کر، دنیا کے دروازے پر دستک دینے سے قاصر رہے گا۔ سماج کا تاریک چہرہ دکھانے کا مقصد نئے سال کی خوشیوں کے رنگ میں بھنگ ڈالنا ہر گز نہیں اور نہ ہی روایت کے تحت گزرے سال کے الم شمار کرکے مستقبل سے خوفزدہ کرنا ہے، بلکہ اصل مقصد تو ان حقائق کا دیدہ دلیری سے سامنا کرنا ہے جو نئے سال میں بھی خوشیوں کے رنگ ماند کرنے کو بے تاب کھڑے ہیں۔
دنیا کے ہر کونے میں ایسے خطے موجود ہیں جہاں جنم لینے والے تنازعات اور جنگیں، ترقی کی طرف دنیا کے بڑھتے قدموں کو ہر گام لڑکھڑانے پر مجبور کرتی رہیں گی اور پھر نیا سال بھی گزشتہ سالوں کی طرح پرانے المیوں کی گود میں آنکھیں موند کر اپنے اختتام کا بے چینی سے انتظار کرے گا۔ وہ ممالک جن میں پایا جانے والا سیاسی و معاشی عدم استحکام دنیا کو نئے سال میں بھی چین سے جینے نہ دے گا ان میں سے ایک وینزویلا ہے۔ سب سے زیادہ تیل کے ذخائر کا حامل وینزویلا دنیا کی سب سے تیزی سے سکڑنے والی معیشت میں تبدیل ہوچکا ہے۔
2018ء میں یہاں منہگائی کی شرح ایک ہزار فی صد تک پہنچ جائے گی، جب کہ معیشت سکڑکر چھ فی صد تک آجائے گی، جس کے باعث غذائی پیداوار اور ادویات کی قلت مزید بڑھ جائے گی۔ افسوس تو یہ ہے کہ ان خطرناک عوامل پر توجہ دینے کے بجائے صدر نکولس مادورو حزب اختلاف کو پُرتشدد کارروائیوں کے ذریعے قابو میں کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور وہ اسی میں مطمئن ہیں۔ نئے سال میں یہاں ہونے والے انتخابات انتہائی غیرمنصفانہ ہونے کی پیش گوئیوں کے بعد وینزویلا کا مستقبل مزید تاریک نظر آرہا ہے، جس سے صرف وینزویلا ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر خطے بھی متاثر ہوں گے۔
نئے سال کی خوشیوں کو پھیکا کرنے والا دوسرا ملک، عرب دنیا کا سب سے غریب ملک یمن ہے۔ بدنصیب یمن نے نئے سال کی دہلیز پر ایسے حال میں قدم رکھا ہے کہ اس کے پاس قیام امن کا کوئی روڈ میپ ہی موجود نہیں۔ 2015ء سے اب تک دس ہزار شہریوں کی جانیں قربان کرنے والے یمن میں اب بھی تین سے چار ملین افراد بے گھر ہیں۔ بدحالی، خشک سالی اور قحط میں ڈوبے یمن کا 2018ء میں بھی مستقبل معدوم ہی ہے۔ جدید تاریخ میں یمن ہیضہ کی وبا کا شکار سب سے بڑا ملک قرار دیا جا چکا ہے۔ اندازاً ساڑھے سات لاکھ یمنی باشندے ہیضے کی وبا سے متاثر ہیں۔ اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نئی سانسیں بھرنے والے نئے سال میں یہ شرح مزید بڑھے گی۔
صرف یمن ہی نہیں، پورے مشرقِ وسطی کے لیے گزرا سال ذرا بھی خوش گوار ثابت نہ ہوسکا۔ چاروں طرف جنگوں کا دہانہ ہی کھلا رہا۔ قیاس تو یہی ہے کہ نیا سال ان جنگوں اور تنازعات کے اثرات پر قابو پانے کی کاوشوں کی ہی نذر ہو جائے گا۔ مذاکرات کے لیے راستے ہموارکرتے کرتے اس سال کی تابناکی بھی مدھم پڑجائے گی۔ شامی مہاجرین اس سال بھی گھروں کو لوٹ نہ سکیں گے۔ دوسری طرف امریکا کی جانب سے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد یروشلم 2018ء کی عالمی سیاست کا بنیادی مسئلہ بن کر سرفہرست رہے گا۔ اس کی بنیاد پر مختلف ریاستیں ایک دوسرے سے ٹکراتی رہیں گی، بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ فلسطین کے نام پر کھل کر سیاست ہوگی اور بے چارے فلسطینی ہمیشہ کی طرح ہاتھوں میں پتھر اٹھائے اپنی بقا کی جنگ خود ہی لڑتے نظر آئیں گے۔
قدرتی وسائل سے مالامال افریقی خطے کا مستقبل بھی نئے سال میں روشن دکھائی نہیں دے رہا۔ روشن ہو بھی کیسے سکتا ہے! جب یہاں برونڈی جیسا ملک موجود ہے، جو بدترین آمریت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدترین شدت پسندی کی لپیٹ میں ہے۔ دوسری طرف جمہوریہ کانگو ہے، جو دنیا کے انتہائی غریب ممالک میں سے ایک ہے اور2018ء میں دنیا کی شان گھٹانے کے سارے''لوازمات'' سے آراستہ و پیراستہ ہے۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے سیاسی خلفشار اور عدم استحکام کے باعث یہاں بے گھر ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
صرف کانگو اور برونڈی ہی افریقا کے دو ایسے ممالک نہیں ہیں جو نئے سال میں خطے کے عدم استحکام میں اضافے کا باعث بنے رہیں گے، بلکہ دنیا کے نقشے پر موجود نئی نویلی ریاست جنوبی سوڈان میں بھی انسانی المیے جنم لیتے رہیں گے اور دکھوں کی زندہ اور دردناک کہانیاں نئے سال کا دامن بھگوتی رہیں گی۔2011ء میں آزادی کا تمغہ سینے پر سجانے والے جنوبی سوڈان کے باشندوں کے پاس امیدوں کا ڈھیر اور ایک روشن صبح کی آس تھی، مگر اب وہاں منہگائی کی شرح ڈیڑھ سو فی صد تک جا پہنچی ہے۔ آزادی کے بعد سے لے کر آج تک انھیں سکون کا سانس بھرنا نصیب نہ ہوا۔ 2018 میں یہاں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا انعقاد تو ہوگا، لیکن ان انتخابات سے جنوبی سوڈانیوں کو زیادہ امیدیں وابستہ نہیں بلکہ خدشات ہی خدشات لاحق ہیں۔
انتخابات کے غیرشفاف ہونے یا نئے حکمرانوں کے عوام کی توقعات پر پورا نہ اتر سکنے کی صورت میں 2018 ء کا سال جنوبی سوڈان کے لیے بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے، جس کے لازمی نتیجے کے طور پر مہاجرت کی شرح اور تیزی سے بڑھ کر باقی دنیا کا سکھ زائل کرنے کا کام بخوبی انجام دے گی۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ مسلسل جاری رہنے والی خانہ جنگی اور قبائلی تنازعات نئے سال بھی سوڈان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ قبائیلیوں اور فوج کے درمیان ہونے والے خونی تصادم سے عوام کا ناطقہ اپنے ہی زمین پر بند ہوچکا ہے۔ خدشہ ہے کہ نئے سال میں بھی ان کا جینا دوبھر ہی رہے گا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے یہاں قائم کیے جانے والے کیمپوں میں پہلے ہی لاکھوں جنوبی سوڈانی مہاجرت کے پہاڑ جیسے دن اور عذاب راتیں بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ یہاں عورتوں کا ریپ معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ چھ ملین جنوبی سوڈانی شدید غذائی قلت کا، جب کہ دو ملین افراد خشک سالی کا شکار ہیں۔ یہاں سیاسی عدم استحکام کا حال یہی رہا تو 2018ء بھی ان کے غموں کا کوئی مداوا نہ کر سکے گا بلکہ مزید بحرانوں کا سال بن جائے گا۔
2016ء اگر اہم شخصیات کی وفات اور پے درپے ہونے والے قومی سانحات کے باعث ایک بدترین سال قرار پایا تھا، تو 2017ء جنگوں اور تنازعات سے بھرا ہوا سال ثابت ہوا، مہاجرت کے دکھ سینے میں دبائے دبے پاؤں یہ سال رخصت ہو توگیا لیکن جو سیاسی اور معاشرتی ابتری، بے چینی اور انتشار پیدا کرکے گیا ہے، اس کو سلجھاتے سلجھاتے نئے سال کی ساری توانائیاں اور جوش ماند پڑجائے گا۔