2018 توقعات اور امیدیں
اختیارات کے بے رحمانہ اور من مانے استعمال نے پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو ناممکن بنا دیا ہے
گزشتہ برس قومی اہمیت سے متعلق اہم واقعات نے ہمارے اجتماعی حافظے پر گہرے نقش چھوڑے،البتہ 2018ء میں امید کے آثار نمایاں ہوئے ہیں اور مایوسی کے بادل چھٹنے کی توقع ہے۔ یہ عام انتخابات کا سال ہے، کئی چیلنجز ہمارے منتظر ہیں لیکن اس کے باوجود غیر محسوس انداز میں کچھ مواقع ضرور پیدا ہوئے ۔ 1) اس بات کے امکانات واضح ہوگئے ہیں کہ، کچھ ماہ تاخیر ہی سے سہی، اس برس تیسرے متواتر انتخابات منعقد ہوں گے۔ 2) نواز شریف کی نااہلی سے مقابلہ سخت ضرور ہوگیا ہے لیکن سیاسی منظر نامے پر اس کے مثبت نتائج مرتب ہوں گے۔ 3) عدلیہ غیر متزلزل انداز میں اپنے اختیارات استعمال اور فیصلے کررہی ہے، ریاست کے مضبوط ترین ستون کے طور پر اسی انداز کی توقع کی جاتی تھی اور اس ادارے نے یہ راہ اختیار کرلی ہے۔
معاشی اعتبار سے سی پیک گیم چینجر ہے لیکن خطے کی سیاست پر اس کے دور رس اثرات کا ظہور پاکستان، چین اور روس کے مابین بڑھتے ہوئے روابط کی صورت میں ہوا ہے۔ پاک چین فوجی مشقیں معمول کا حصہ ہیں، لیکن پاکستان اور روس کی مشترکہ فوجی مشقیں ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ روس سے یہ توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے گہرے مراسم یک دم ختم کردے گا لیکن روس کی جانب سے بھارت کی غیر مشروط حمایت اب ماضی کا قصہ ہوچکی۔ چین کے ساتھ ہمارا مضبوط تعلق چینی حکمت عملی کے تقاضوں کی بنیاد پر ہے۔ قومی سلامتی کے امور پر عسکری اور سول قیادت ایک صفحے پر ہے۔
بھارت، افغانستان سے تعلقات کے ساتھ ساتھ امریکا اور روس جیسی عالمی قوتوں اور خطے کے دیگر ممالک سے متعلق پالیسیوں میں بھی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کے بعد سول ملٹری قیادت کا نپا تلا ردعمل بتاتا ہے کہ ٹھنڈے دماغ سے سوچ بچار کی گئی۔ ہم اس دانشور اشرافیہ کے یرغمال نہیں رہ سکتے، جن میں بعض خود پسند سابق سفارت کار بھی شامل ہیں، جو ہماری خارجہ پالیسیوں کی ''ناکامیاں'' گنواکر ہمارے خدشات میں اضافہ کرتے ہیں (یہ فیلڈ مارشل سلم کی کتاب ''ان آفیشل ہسٹری'' کے تشریح کرتے نہیں تھکتے)۔ جبکہ دوسری جانب خارجہ پالیسی میں ہماری کامیابیاں سلم کے ایک اور قول کے مصداق ہے کہ ''بے باکی کی قیمت ہوتی ہے۔''
شہری نظام سے غیر متعلق ہوچکے ہیں اور اپنے مسائل کے لیے بھی اس جانب توجہ کرنے کو تیار نہیں، یہ رویہ ہماری جمہوریت کی شرمناک صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔ فیصلہ سازی کے عمل میں عام شہری کی شمولیت کے بغیر مستحکم جمہوری نظام کا قیام ممکن ہی نہیں۔ جب تک انتخابی اصلاحات کرکے سب کے لیے مقابلے کی یکساں فضا پیدا نہیں کی جاتی ہم کبھی غربت، جاگیرداری اور انتہا پسندی کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ مزید برآں بالواسطہ انتخابات کسی مذاق سے کم نہیں۔ سینیٹ ہماری شرمناک جمہوریت کی رسوائی کی ایک اور علامت ہے۔ کیا ایسے افراد جنھیں بالغ حق رائے دہی کے ذریعے اکثریت حاصل نہ ہو، وفاقی اکائیوں کی حقیقی نمائندگی کا حق ادا کرسکتے ہیں؟
پوری دنیا میں منظم جرائم اور دہشتگردی کے ساتھ کرپشن کا گٹھ جوڑ ایک مستقل مسئلہ بن چکا ہے۔ عطیات و صدقات کی آڑ میں ہونے والی دہشتگردی کے لیے فنڈنگ کی تفتیش کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے۔ معاشی سرگرمیوں اور صنعتی شعبے سے قانونی طور پر منافع کمانے والوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، ساتھ ہی دھوکا دہی، فریب کاری اور کرپشن سے مال بنانے والوں کو ہدف بنانے کی ضرورت ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں کاری گری دکھانے والے فریبی بروکرز بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے والوں سے معصوموں کے خون کا حساب لینا ہوگا۔ اس کے لیے ہونے والی کرپشن کو زرداری اسپانسرڈ ''صوبائی خود مختاری'' کے نعروں سے قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ احتساب کا تقاضا ہے کہ ہماری اشرافیہ کے غیر قانونی ذرایع سے بنائے گئے اثاثے ضبط کرلیے جائیں۔
اختیارات کے بے رحمانہ اور من مانے استعمال نے پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو ناممکن بنا دیا ہے۔ تمام طبقات کو بلا تفریق قانون کے آگے جواب دہ بنانا عدلیہ کی ذمے داری ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ نظام عدل پر دولت اور اثر ورسوخ کے ذریعے دباؤ ڈالنا اور من چاہے فیصلے حاصل کرنا ممکن ہے۔ دولت مندوں اور طاقتوروں کو احتساب کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ ایسے ملزمان چالاک وکیلوں کی تکنیکی بحثوں سے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب رہتے ہیں جبکہ غریب افراد جو ایسے وکلا کی بھاری فیسیں ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے اس نظام کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ عدالتوں میں غلط بیانی کے سلسلے کو روکنا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی ہے، اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اصلاح کا عمل شروع کرنا ہوگا۔
حقیقی احتساب صرف مخصوص لوگوں تک محدود نہیں ہو سکتا، اس اصول کا اطلاق سب پر کیا جانا چاہیے، عدلیہ اور افواج میں موجود کرپٹ عناصر بھی اسی دائرے میں آتے ہیں۔ یکم جنوری 2009ء کو کرپشن سے متعلق جو عرض کیا تھا وہ آج بھی حقیقت ہے: شدت پسندی کا سبب اس کے سوا کیا نظر آتا ہے کہ قانون کا اطلاق شفاف نہیں اور بدعنوان سب کے سامنے اپنے انجام سے بچ نکلتے ہیں؟ ہم نے ''سب سے پہلے پاکستان'' کا نعرہ لگانے والے مشرف کے بدنام زمانہ این آر او میں لپٹی کرپشن کو قبول کرلیا ہے، جس نے بعد میں بدعنوانی میں ڈوبے برسوں کو قانونی جواز فراہم کیاگیا؟
30دسمبر 2016ء کے ''سالِ نو کے لیے ایک آرزو نامہ'' کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا: ''سپریم کورٹ کے آنے والے چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا پر انتہائی مکاری سے جو مہم چلائی گئی، جسٹس ثاقب نثار کی دیانتداری اور انصاف پسندی کا معیار کسی طور ان جھوٹے اور غیر سنجیدہ الزامات سے میل نہیں کھاتا۔'' اسی کالم میں لکھے گئے یہ لفظ دہراتے ہوئے بھی فخر اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے کہ ''آنے والے چیف جسٹس ثاقب نثار ہی اب پاکستانیوں کی آخری امید ہیں، انھیں اپنی بلند کرداری کو اس منصب پر فائز ہونے کے بعد دلیلِ عمل سے آشکار کرنا ہوگا۔''اسی طرح بطور چیئرمین نیب متحمل مزاج اور فعال جسٹس جاوید اقبال موجود ہیں۔ ان کے صبر کا امتحان لینے والے کرپشن کے خلاف ان کے عزم کو متزلزل کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مجموعی طور پر عدلیہ کا طرز عمل اور پختہ عزم قابل فخر ہے۔
فوج نے دہشتگردی اور شدت پسندی کا مثالی انداز میں مقابلہ کیا ہے۔ اسی پختہ عزم کے ساتھ نہ صرف سیاسی اور مذہبی بہروپ میں موجود عسکریت کا خاتمہ ضروری ہے بلکہ ایسے عناصر کو استعمال کرنے والے خارجی عناصر کے خلاف بھی کارروائی ناگزیر ہوچکی۔
اعلیٰ عدلیہ کو ایسی کاوشوں کا نوٹس لینا چاہیے جو اہم اداروں کو نشانہ بنا کر ریاست کا وجود خطرے میں ڈالنے کے درپے ہیں۔ مردوزن میں سے کون ہے جس کی عظمت قوم سے بڑھ کر ہو، چاہے اس قوم پر حکمرانی کو وہ اپنا پیدائشی حق ہی کیوں نہ سمجھتا رہے اور اس کا پورا پورا موقع بھی اسے ملا ہو؟
(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)