وہ شاعر جو مٹی کے کھلونے بیچتا تھا
دکھی پریم نگری بولے ڈرو نہیں میں خود ایک شاعر ہوں
یہ ایک ہندوستان کے شہر جے پور کا نوجوان شاعر تھا، اسے اپنے محلے کی ایک لڑکی سے پیار ہوگیا تھا، اس کا نام اقبال حسین تھا۔ اس کے گھر کے حالات انتہائی پسماندہ تھے اور اس کا پیار اس کی پسماندگی کی نذر ہوگیا تھا۔ حالات نے اسے ایک بس کنڈیکٹر بنادیا تھا مگر یہ دن رات اپنے حالات بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ اس نے ایک دن اپنے پیار کو پانے کی حسرت میں اس لڑکی کو ڈرتے ڈرتے ایک پریم پتر لکھ کر بھیجا اور آغاز کچھ اس طرح کی شاعری سے کیا تھا۔
یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کبھی ناراض نہ ہونا کہ تم میری زندگی ہو کہ تم میری بندگی ہو
مگر اقبال حسین کو اس کے خط کا جب جواب نہیں ملا تو یہ بہت زیادہ دل برداشتہ ہوا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب بمبئی جائے گا اور کچھ کرکے اور کچھ بن کے دکھائے گا۔ تب ہی جے پور واپس آئے گا۔ آنے کو وہ بمبئی جیسے بڑے شہر میں آ تو گیا مگر بمبئی کے تو رنگ ہی نرالے تھے۔ غربت ہر طرف پاؤں پھیلائے بیٹھی تھی، ہزاروں لوگ رات کو فٹ پاتھوں پر سوتے تھے اور فٹ پاتھوں پر ہی ان کی زندگی گزرتی تھی، کبھی کھانے کو کچھ مل جاتا تھا اور کبھی کچھ فاقے ملتے تھے۔
اقبال حسین بھی بمبئی کے بے شمار بے یار و مددگار لوگوں کی طرح بمبئی کی فٹ پاتھوں پر سوتا تھا، یہاں اس کے فٹ پاتھ کے ایک ساتھی نے مشورہ دیا کہ وہ گزر اوقات کرنے کے لیے کھلونے بیچنا شروع کردے اور وہ کھلونے بیچنے کے اس کام میں اس کی مدد کرے گا۔ پھر اقبال حسین بمبئی کے ایک میٹرو سینما کے سامنے فٹ پاتھ پر ایک کپڑا بچھاکر مٹی کے کھلونے بیچنے لگا، اس دوران اس کے پاس فارغ وقت بہت تھا، اس فارغ وقت میں وہ شاعری بھی کرتا رہا اور اپنے گیت اپنے دل کی کیفیت کے اشعار ایک کاپی میں لکھتا رہتا۔
ایک دن اسی فٹ پاتھ پر بمبئی کے راج کپور پروڈکشن کے اسکرپٹ ڈپارٹمنٹ میں ملازم رائٹر شاعر اور نامور فلمی صحافی دکھی پریم نگری کا اس سینما کی طرف سے گزر ہوا تو انھوں نے اقبال حسین کو فٹ پاتھ پر کھلونوں کے ساتھ بیٹھے کچھ لکھتے ہوئے دیکھا۔ وہ ازراہ ہمدردی اس کے قریب آکر کھڑے ہوگئے، وہ لکھنے میں منہمک رہا تو دکھی پریم نگری بولے لگتا ہے کچھ شعر و شاعری لکھ رہے ہو۔ اقبال حسین نے چونک کر اپنے قریب ایک دراز قد وجیہ آدمی کو دیکھا تو گھبراگیا اور لکھنا بند کردیا۔ دکھی پریم نگری بولے ڈرو نہیں میں خود ایک شاعر ہوں۔
کیا تم مجھے اپنے لکھے ہوئے چند اشعار سناؤ گے؟ اقبال حسین کی گھبراہٹ اب ختم ہوگئی تھی، پھر اس نے دکھی پریم نگری کے اصرار پر اپنے لکھے ہوئے چند گیت سنائے۔ دکھی پریم نگری بڑی خاموشی سے وہ گیت سنتے رہے، پھر اقبال حسین نے ایک غزل بھی سنائی۔ دکھی پریم بولے کیا اچھے گیت لکھے ہیں اور غزل کا تو جواب ہی نہیں۔ پھر بے ساختہ کہا تم مٹی کے کھلونے بیچتے ہو مگر آدمی ہیرے جیسے ہو۔ دکھی پریم نگری نے ایک کاغذ پر اپنا نام اور راج کپور پروڈکشن کے ساتھ فلم سٹوڈیو کا پتا لکھ کر دیتے ہوئے کہا، تم جتنی جلدی ہوسکے میرا نام لے کر سٹوڈیو آؤ، تم یہ پرچہ دکھاؤگے تو سٹوڈیو کے گیٹ پر کوئی نہیں روکے گا۔ اقبال حسین نے وہ لکھا ہوا پرچہ اپنی جیب میں رکھ لیا۔
اب یہاں سے قدرت کا کھیل شروع ہوتا ہے اور ایک دن وہ آتا ہے کہ اقبال حسین راج کپور پروڈکشن کے آفس میں بیٹھا ایک کاپی میں لکھے ہوئے بڑے ترنم سے اپنے گیت سنا رہا تھا۔ اس ملاقات میں دکھی پریم نگری اور موسیقار شنکر جے کشن کی جوڑی بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ اقبال حسین کے گیت سن کر راج کپور کے ساتھ ساتھ موسیقار شنکر جے کشن بھی عش عش کر اٹھے۔ راج کپور نے ان دنوں اپنی فلم ''برسات'' کی ابتدا کی تھی۔ اقبال حسین کو فلم برسات کی ایک سچویشن دی گئی اور کہا کہ اس سچویشن پر ایک گیت لکھ کر دکھاؤ۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اقبال حسین نے فوراً حامی بھرلی اور پھر دوسرے کمرے میں موسیقار اور شاعر بیٹھ گئے اور دو تین گھنٹوں کے بعد فلم برسات کے لیے جو ایک خوبصورت گیت تیار ہوا اس کے بول تھے:
جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے
آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے
سورج دیکھے چندا دیکھے سب دیکھیں ہم ترسیں
جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے
نینوں سے اک تارا ٹوٹے مٹی میں مل جائے
آنکھوں کی برسات بلموا دل میں آگ لگائے
جیا بے قرار ہے چھائی بہار ہے
جب یہ گیت راج کپور کو سنایا گیا تو راج کپور نے کہا۔ یار تم تو بڑے کمال کے شاعر ہو اور پھر فلم برسات کے گیتوں سے اقبال حسین کے بطن سے نغمہ نگار حسرت جے پوری نے جنم لیا اور اس طرح ایک غریب الوطن شاعر، مٹی کے کھلونے بیچتے بیچتے بمبئی فلم انڈسٹری کا ایک نامور نغمہ نگار بن کر ابھرا۔ فلم برسات میں مذکورہ گیت اداکارہ نمی پر فلمایا گیا تھا اور نمی کی بے ساختہ اداکاری، لتا منگیشکر کی جادو بھری آواز اور شنکر جے کشن کی مدھر موسیقی کے ساتھ حسرت جے پوری کے گیتوں نے برسات کو ایک لازوال فلم کا درجہ دیا تھا۔
فلم برسات کے دو گیتوں کے علاوہ جو شاعر شیلندر اور رمیش شاستری نے لکھے تھے، باقی تمام گیت حسرت جے پوری کی کاوشوں کا نچوڑ تھے اور ایک گیت جو فلم برسات میں گلوکار رفیع کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا اور راج کپور پر فلمایا گیا تھا وہ گیت شاعر اقبال حسین یعنی حسرت جے پوری کی ذاتی زندگی کی صحیح عکاسی کرتا تھا اور فلم کی سچویشن پر بھی پورا اترتا تھا، اس گیت کے بول تھے:
میں زندگی میں ہر دم روتا ہی رہا ہوں
روتا ہی رہا ہوں، تڑپتا ہی رہا ہوں
امید کے دیے بجھے دل میں ہے اندھیرا
جیون کا تو ساتھی نہ بنا کوئی بھی میرا
پھر کس کے لیے آج میں جیتا ہی رہا ہوں
میں زندگی میں ہر دم روتا ہی رہا ہوں
فلم برسات موسیقار شنکر جے کشن کی بھی پہلی فلم تھی اور فلم کے ہدایت کار بھی راج کپور تھے۔ نرگس اور نمی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی کامیابی نے سارے برصغیر میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑدیے تھے۔ فلم برسات کی بے مثال کامیابی نے راج کپور کے دن بھی پھیر دیے تھے اور فلم برسات نے مالی طور پر راج کپور کو اس قابل کردیا تھا کہ راج کپور نے آر کے سٹوڈیو کے نام سے اپنا ذاتی سٹوڈیو قائم کرلیا تھا۔ فلم برسات کی کامیابی نے حسرت جے پوری کو بھی اپنی پہلی ہی فلم کے بعد کامیاب نغمہ نگاروں کی صف میں لاکھڑا کیا تھا۔ اب میں آتا ہوں فلمساز و ہدایت کار راج کپور کی فلم آوارہ کی طرف۔ برسات کے بعد فلم آوارہ بھی ایک ایسی فلم تھی جس کے گیتوں کی مقبولیت نے فلم آوارہ کو زبردست کامیابی بخشی تھی اور اس فلم کا ہر گیت ہندوستان کے ہر گلی کوچے میں گایا جاتا تھا اور آوارہ کے ہر گیت نے حسرت جے پوری کو بڑی شہرت عطا کی تھی۔ فلم کے چند مشہور گیتوں کے مکھڑے ذیل میں درج ہیں۔
جب سے بلم گھر آئے جیا را مچل مچل جائے
اک بے وفا سے پیار کیا اس سے نظر کو چار کیا
آجاؤ تڑپتے ہیں ارماں اب رات گزرنے والی ہے
فلم آوارہ نے بھی بزنس کا ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔ راج کپور کی ایک اور سپر ہٹ فلم ''آہ'' تھی جس کے گیتوں نے بھی ہندوستان اور پاکستان میں بڑی دھوم مچائی تھی۔ اب راج کپور پروڈکشن کے دو ہی چہیتے گیت نگار تھے حسرت جے پوری اور شیلندر۔ جس طرح شنکر جے کشن کا ساتھ راج کپور کے ساتھ ہمیشہ رہا، اسی طرح یہ موسیقار بھی راج کپور کے لیے خوش نصیبی کا ستارہ سمجھے جاتے تھے۔ فلم آہ کا ایک گیت ایسا تھا کہ فلم بینوں کے ہونٹوں پر بھی آہ آجاتی تھی اور وہ گیت تھا
''راجا کی آئے گی بارات۔''