اصغر خان وداع ہوئے جرات اور دیانت کی ایک کہانی ختم

وطن کے دلیرانہ دفاع سے سیاست تک پھیلے ان کے نقوش ہمیشہ نمایاں رہیں گے۔


عبید اللہ عابد January 06, 2018
ایک سابق فوجی ہونے کے باوجود اصغرخان کبھی فوج کے سیاست میں وسیع کردار کے قائل نہ رہے۔ فوٹو؛ فائل

JHANSI: پاکستانی فضائیہ کے پہلے مسلمان سربراہ ائیرمارشل اصغرخان کی فکر سے لاکھ اختلافات کئے جاسکتے ہیں لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وہ ایک بااصول شخص تھے۔

ملکی دفاع کے لئے بہترین خدمات سرانجام دینے کے بدلے میں انھیں 'ہلال پاکستان' اور' ہلال قائداعظم' کے ایوارڈز سے نوازا گیا تاہم جب انھیں جنرل ایوب خان کی پالیسیوں سے سخت اختلاف ہوا تو انھوں نے یہ ایوارڈ واپس کردئیے۔ سیاسی جدوجہد پاکستان جمہوری پارٹی ( پی ڈی پی ) کے جھنڈے تلے شروع کی، اس جماعت میں بزرگ سیاست دان نورالامین اور نواب زادہ نصراللہ خان جیسے لوگ موجود تھے۔بعدازاں وہ پی ڈی پی قیادت کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی طرف چل نکلے۔

انھوں نے سنہ1969ء میں 'تحریک استقلال' کے نام سے جماعت قائم کی لیکن ان کا یہ سیاسی تجربہ دیگر عسکری پس منظر رکھنے والے رہنماؤں کی طرح انتخابات کی حد تک زیادہ کامیاب نہیں رہا البتہ پاکستانی قوم انھیں کرپشن اور بددیانتی کے داغ دھبوں سے پاک، ایک صاف ستھرے سیاستدان کے طور پر جاننے لگی۔

پاکستانی سیاست دانوں کی بڑی تعداد جن میں میاں نوازشریف، خورشید محمود قصوری، اعتزازاحسن، شیخ رشید، جاویدہاشمی، اکبربگتی، مشاہدحسین، نادرپرویز، گوہرایوب خان، ظفرعلی شاہ، احمد رضاقصوری، شیرافگن نیازی، منظوروٹو، سیدہ عابدہ حسین اور سیدفخرامام بھی شامل ہیں، اصغرخان کی تحریک استقلال کا حصہ رہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اصغرخان کی سیاسی زندگی 70ء کی دہائی ہی میں بھرپورانداز میں دیکھنے کو ملی۔

وہ ذوالفقارعلی بھٹو کے شدید ناقد رہے کہ انھوں نے اپنے دور حکومت میں بدترین سیاسی جبر کا مظاہرہ کیا۔ انھیں اس جرات اظہار کی سزا بھی ملی، بھٹو کی قائم کردہ ایف ایس ایف کی طرف سے اصغرخان اور ان کی پارٹی کی متعدد رہنماؤں اور کارکنان کو بدترین صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔

1977ء کے عام انتخابات میں اصغرخان نے کراچی اور ایبٹ آباد کے دو قومی حلقوں سے الیکشن لڑا اور دوں جگہ سے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، حالانکہ انھیں بھی ہرانے کے لئے بھٹو انتظامیہ نے مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کی۔

اس دھاندلی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد( جس کا اصغرخان کی پارٹی بھی حصہ تھی) نے بڑے پیمانے پر تحریک چلائی، اس تحریک کے دوران اصغرخان کو گرفتارکرکے پہلے کوٹ لکھپت جیل ، بعدازاں ساہیوال جیل میں قید رکھاگیا۔ ان کی قید ضیاالحق کے مارشل لا سے چند دن پہلے ختم ہوئی۔

جناب اصغرخان کے رفیق رحمت خان وردگ کے بقول:'' بھٹو نے ٹرین مارچ کیا تو لاہور کے ریلوے سٹیشن پر اس وقت سٹوڈنٹس لیڈر جاوید ہاشمی بھی استقبال کرنے والوں میں شامل تھے، پولیس کے لاٹھی چارج سے ان کا سر پھٹ گیا تھا۔ 1970ء کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان میں پذیرائی حاصل ہوئی لیکن اکثریت عوامی لیگ کو ملی۔

اس بنیاد پر ائر مارشل اصغر خان نے اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ جنرل یحیٰی خان خود بدستور صدر بنے رہنے کے خواہش مند تھے لیکن جب شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ میں مغربی پاکستان سے ایئر مارشل اصغر خان کو صدر بنا دوں گا تو یحیٰی خان ناراض ہو کر واپس آ گئے اور سیدھے لاڑکانہ جا کر ذوالفقار علی بھٹو سے ملے۔ اس دور میں اخبارات میں نعرے کے طور پر بھٹو کی یہ بات ''اِدھر ہم اْدھر تم'' بھی آئی اور ملک کو دولخت کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ تب ایئر مارشل اصغر خان نے اپنی پارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا اور اقتدار شیخ مجیب الرحمن کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا اور متنبہ کیا کہ اگر عوامی لیگ کی اکثریت تسلیم نہ کی گئی اور فوج کی چڑھائی کی گئی تو ملک ٹوٹ جائے گا''۔

''ایئر مارشل اصغر خان نے پنجاب کو خبردار کرنے کے لئے دورہ کا پروگرام بنایا کیونکہ پنجاب بھٹو کے ''ایک ہزار سال تک لڑیں گے'' اور ''روٹی کپڑا اور مکان'' کے نعروں کے پیچھے لگ چکا تھا۔ وہ جب ملتان پہنچے اور ائرپورٹ سے باہر آئے تو یحیٰی خان کی پولیس نے ان کے ہاتھ باندھ دئیے اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے بنگالیوں کا ایجنٹ نعرے لگائے ، ان کے منہ پر باقاعدہ تھوک دیا۔ یحٰیی خان اور بھٹو کی ملی بھگت نے جو رنگ دکھایا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو دور میں حقیقی جمہوریت کے لئے جدوجہد کی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے''۔

بااصول اصغرخان نے ایک مرتبہ کوہالہ میں خطاب کے دوران کہا کہ ''بھٹو کو اس پل پر لٹکائیں گے'' اس کے بعد پوری سیاسی زندگی میں ایسی بات نہیں کی''۔ وردگ کہتے ہیں:''اصغر خان کی سیاست میں منافقت تلاش نہیں کی جا سکتی وہ سیاسی اقتدار اور تہذیب کا بے حد خیال رکھتے تھے مگر ان کی پارٹی کا مقامی یا ضلعی سطح کا عہدیدار بھی کسی مخالف پارٹی کے صوبائی یا ملکی سطح کے لیڈروں کے خلاف بیان داغ دیتا وہ سختی سے نوٹس لیتے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جس سطح کا لیڈر ہے اس کا جواب اسی سطح کا لیڈر دے ۔''

اصغرخان کا نام پاکستان کی عدالتی تاریخ میں بھی ہمیشہ گونجتا رہے گا۔ انھوں نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی کہ اپنی درخواست میں اصغر خان نے الزام عائد کیا تھا کہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے پانچ سینئیر فوجی اہلکاروں کے ساتھ مل کر سیاستدانوں میں14کروڑ روپے تقسیم کیے تاکہ وہ سنہ1990 کے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو شکست دیں۔

انھوں نے میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف سمیت متعدد سیاست دانوں پر پاکستان کے خفیہ ادارے ' آئی ایس آئی' سے پیسے لینے کا الزام لگایا۔انھوں نے اپنے مقدمہ کی بنیاد بے نظیر بھٹو دورکے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر کے ایک بیان کو بنایا جس کے مطابق سنہ 1990 کے انتخابات میں پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلی جنس یعنی آئی ایس آئی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کو کروڑوں روپے ادا کیے تھے۔ سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے مطابق سابق صدر غلام اسحاق خان کے دور میں ایوان صدر میں اس ضمن میں ایک خصوصی سیل قائم کیا گیا تھا جو اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں کو رقوم کی تقسیم سے متعلق معاملات کی نگرانی کرتا تھا۔

یہ رقم حاصل کرنے والوں میں ملک کے موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلٰی میاں شہباز شریف کے علاوہ جماعت اسلامی اور اس اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔ 'اصغرخان کیس' کے عنوان سے معروف ہونے والے اس مقدمے پر چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اکتوبر سنہ 2012 میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سابق فوجی سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹنٹ جنرل اسد درانی کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اصغر خان کیس میں دیے جانے والے فیصلے میں کہا تھا کہ اْس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی نے رقم کی تقسیم کے معاملے میں اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے اور اْن کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔

صوبہ سندھ میں ملٹری انٹیلیجنس کے سابق سربراہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ حامد سعید کے بیان کو بھی تفصیلی فیصلے کا حصہ بنایا گیاتھا جس کے مطابق سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے سلسلے میں چھ اکاؤنٹ کھلوائے گئے جن میں 16ستمبر1990ء سے 22اکتوبر 1990ء کے دوران چودہ کروڑ روپے جمع کروائے گئے۔جن میں سے اس وقت کے ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس کی ہدایت پر سندھ کے متعدد سیاستدانوں اور دیگر افراد میں رقوم تقسیم کی گئیں۔ حامد سعید کے بیان کے مطابق جمع کروائے گئے چودہ کروڑ میں سے چار کروڑ روپے جی ایچ کیو کے اکاؤنٹ میں جبکہ ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے ملٹری انٹیلی جنس کوئٹہ کے آفس کے اکاؤنٹ میں بھی جمع کروائے گئے جبکہ بقیہ رقم سود سمیت جی ایچ کیو بھجوا دی گئی۔

فیصلے میں دی گئی دیگر تفصیلات کے مطابق سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے بعد باقی ماندہ رقم میں سے تین کروڑ روپے اْس وقت کے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کی سروس کے آخری ایام میں اْن کی تنظیم 'فرینڈز' کو دیے گئے اور سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز نے مرزا اسلم بیگ کی تنظیم کو تین کروڑ روپے منتقل کرنے پر سخت ناراضی کا اظہار بھی کیا تھا۔

تفصیلات کے مطابق چار کروڑ روپے کی رقم میں سے دو کروڑ روپے پنجاب اور دو کروڑ روپے صوبہ خیبر پختونخوا میں ایم آئی کے یونٹ کو بھجوا دیے گئے جبکہ صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے سیاستدانوں میں جو رقوم تقسیم کی گئیں اْن کے بارے میں اْس وقت کے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ، ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی اور ان صوبوں کی ملٹری انٹیلی جنس کے ارکان باخبر تھے۔

تفصیلی فیصلے میں یونس حبیب کے مہران بینک سیکنڈل میں تفتیش کے دوران دیے گئے بیان کا بھی ذکر کیاگیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اْنہوں نے مرزا اسلم بیگ کو چودہ کروڑ روپے دینے کے علاوہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جام صادق کو سات کروڑ روپے، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو دو کروڑ روپے، جاوید ہاشمی کے علاوہ دیگر ارکان قومی اسمبلی کو پانچ کروڑ روپے دیے۔اس کے علاوہ یونس حبیب کے بقول سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سنہ نوے کی دہائی میں 25لاکھ روپے اور سنہ 1993ء میں 35لاکھ روپے دیے گئے۔

اس کے علاوہ اْنہوں نے سنہ1993ء میں بھی مختلف سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کیں۔سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے سنہ 1994ء میں جو بیانِ حلفی دیا تھا اْس میں میاں نواز شریف کو 35لاکھ روپے، جماعت اسلامی کو 50لاکھ روپے، ہمایوں مری کو 15 لاکھ روپے اس کے علاوہ بلوچستان کے دیگر سیاست دانوں کو بھی لاکھوں روپے دیے گئے۔ تاہم اسد درانی کے بقول ''اْن کے پاس دیگر دستاویزات نہیں ہیں جو اْن کے اس دعوے کو سچ ثابت کرنے میں معاون ثابت ہوسکیں''۔ اسد درانی کا کہنا ہے کہ اْنھوں نے سیاست دانوں میں رقوم اْس وقت کے بری فوج کے سربراہ اسلم بیگ کے کہنے پر دی تھی جبکہ مرزا اسلم بیگ اس کی تردید کرتے ہیں۔

بعدازاں نوازشریف کے حال ہی میں سابق ہونے والے دور میں اس مقدمہ کو مزید آگے بڑھایاگیا کیونکہ اصغر خان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی اہم مقدمہ ہے جس کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہونا ضروری ہے، نتیجتاً اس وقت وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے حکم پر اس مقدمے کی سماعت کے لیے ایف آئی اے کی ٹیم تشکیل دی گئی۔ پاکستانی تاریخ کا اہم ترین مقدمہ دائر کرنے والے اصغرخان فیصلہ کا انتظار کرتے کرتے لحد میں اترگئے لیکن ایف آئی اے تحقیقات ہی مکمل نہ کرسکی۔

ایک سابق فوجی ہونے کے باوجود اصغرخان کبھی فوج کے سیاست میں وسیع کردار کے قائل نہ رہے۔ انھوں نے فوجی ہوکر بھی کبھی''ایمپائر'' کی انگلی اٹھنے کی بات نہیں کی بلکہ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد انہوں نے نہ صرف جنرل ضیاء الحق کی جانب سے وزیراعظم بننے کی پانچ پیشکشوں کو ٹھکرایا اور قبل ازیں مذاکرات کے دوران ایک مرحلے پر ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو بھی بلایا تو اصغر خان نے اس وقت تک بات چیت کرنے سے انکار کر دیا جب تک جنرل ضیاء الحق کو واپس نہیں بھیج دیا گیا۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ وہ کس قدرجمہوریت پسند تھے۔ یہی رویہ انھوں نے اپنی پارٹی کے اندر بھی رکھا۔

بعض حلقے بالخصوص پیپلزپارٹی کے لوگ ایئر مارشل اصغر خان کو ایک غیرجمہوری شخصیت قراردیتے ہیں، اس کی بنیاد اس خط کو قراردیتے ہیں جو اصغرخان نے پاکستان کی مسلح افواج کے نام لکھاتھا، جس میں انھوں نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ بھٹو کی غیرقانونی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں، وہ ایک قانونی اور غیرقانونی سیاسی قیادت میں فرق سمجھیں اور پاکستان کو بچائیں۔

بعض تجزیہ نگار اور مورخین اس خط کو ضیاالحق کے مارشل لاء کا سبب قراردیتے ہیں۔ تاہم جناب اصغرخان اپنی گفتگوؤں میں اس الزام کو مسترد کرتے رہے، ان کا کہناتھا کہ انھوں نے خط میں کہیں بھی فوج کو اقتدارسنبھالنے کی دعوت نہیں دی تھی۔ان کے مطابق انھوں نے یہ خط اس واقعے کے ردعمل میں لکھاتھا جس میں ایک فوجی نے وکٹری کا نشان بنانے والے ایک عام شہری کو گولی کا نشانہ بنایاتھا۔

اصغرخان کا موقف درست محسوس ہوتاہے کیونکہ اگروہ فوج کے اقتدار کے حامی ہوتے تو ضیاالحق کی طرف سے باربار کابینہ میں شمولیت کی دعوت' ملک کے وسیع تر مفاد میں' قبول کرلیتے۔ایسا کرنے والوں کی بڑی تعداد پاکستانی تاریخ کا حصہ بنتی رہی، اصغرخان غیرجمہوری مزاج رکھتے تو وہ بھی ایسا کرتے۔ انھیں اسی جمہوریت پسندی کی سزا جنرل ضیاء الحق کے دور میں پانچ سالہ نظربندی کی صورت میں ملی جو 16اکتوبر1979ء سے 2 اکتوبر1084ء تک جاری رہی۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے' ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے اصغرخان کو 'ضمیر کا قیدی' قراردیاتھا۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ایسے قدآور اور پختہ سوچ وفکر رکھنے والے سیاست دان تھے جن کی اس ملک و قوم کو شدید ضرورت تھی، یقیناً جمہوری اور اصولی سیاست کو پسند کرنے والے طبقات اصغرخان کی کمی پوری شدت سے محسوس کریں گے۔

سفرزندگی پر ایک نظر
پاک فضائیہ کے پہلے کمانڈر انچیف برگیڈیئر سردار رحمت اللہ خان کے ہاں جموں کشمیر میں سنہ 17 جنوری 1921 میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے خاندان کا تعلق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی تیراہ کے آفریدیوں سے تھا۔ 1936ء میں رائل انڈین ملٹری کالج ڈیرہ دون میں تعلیم حاصل کی۔ 1940ء میں گریجویشن کی اور اسی سال کے آخر میں نویں رائل دکن ہارس میں کمشین آفسر مقرر ہوئے۔

1941ء میں انڈین ائیر فورس میں چلے گئے۔ اسی سال انبالہ اور سکندر آباد سے ہوا بازی کی تربیت حاصل کی۔ اگلے سال نمبر 3 سکوارڈن انڈین ائر فورس پشاور میں تعینات ہوئے۔ 1944ء میں برما میں بطور فلائیٹ کمانڈر خدمات انجام دیں اور جنگ برما میں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو جاپانی فوجی ٹھکانوں پر ہوائی حملہ کرنے پر مامور کیا گیا۔ 1945ء میں سکوارڈن لیڈر بنائے گئے۔ 1946ء میں برطانیہ گئے اور وہاں جیٹ طیارے اڑانے کی تربیت حاصل کی۔ اوائل 1947ء میں فلائنگ ٹرینگاسکول انبالہ میں چیف فلائنگ انسٹرکٹر مقرر ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد پاکستان ائیر فورس کالج رسالپور نوشہرہ کو منظم کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ قائداعظم رسالپور تشریف لائے تو انہوں نے ان کا خیرمقدم کیا۔ 1949ء میں گروپ کیپٹن بنائے گئے اور اس حیثیت سے آپریشنل پاکستان ائیر فورس کی کمان سنبھالی۔ اسی سال ان کو رائل ائیر فورس سٹاف کالج برطانیہ سے اعلٰی کارکردگی کا ایوارڈ ملا۔ 1957ء میں صرف 36 سال کی عمر میں ائیر وائس مارش بنائے گئے۔ 1958ء میں ائر مارشل ہوگئے اور 1965 میں ریٹائر ہو گئے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد محکمہ ہوابازی کے ناظم اعلٰی اور پی آئی اے کے صدر نشین مقرر ہوئے۔انھوں نے اس ادارے کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ ان کی سربراہی میں پی آئی اے کے دور کو 'سنہری دور' قراردیاجاتاہے۔ حکومت ان کی بہترین خدمات کے صلہ میں ان کی مدت ملازمت میں توسیع کرناچاہتی تھی لیکن انھوں نے انکار کردیا اور پی آئی اے سے بھی ریٹائرمنٹ حاصل کرلی اور 1968ء میں سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا۔ اصغر خان کو ہلال قائداعظم اور ہلال پاکستان کے اعزازات سے نوازا گیا۔ لیکن بعد میں انہوں نے یہ اعزازات واپس کر دئیے تھے۔

ائیرمارشل اصغر خان پاک فضائیہ کے سربراہ تھے توانہوں نے پاک فوج کے طیارے اور سازوسامان حاصل کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی۔ انہوں نے پائلٹوں کی تربیت کے لیے بھی بہت محنت کی لیکن اپریل ، مئی 1965 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میں رن آف کچھ کے تنازعے پر انہوں نے بھارتی فضائیہ کے سربراہ کو فون کر کے دونوں ممالک کی ائر فورسز کو اس تنازعے سے دور رکھنے کا اہتمام کیا۔ بادی النظر میں یہ اقدام معمولی نظر آتا ہے لیکن اس سے فضائیہ کے مورال پر بہر طور منفی اثرات مرتب ہوئے۔اصغر خان کے اس طرز عمل پر 23 جولائی 1965 کو آنے والے ائر چیف نور خان نے شدید تنقید کی تھی اور فوری طور فضائیہ کو الرٹ پر ڈال کر کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں پروازیں شروع کرادی تھیں۔جس سے پاک فضایہ جنگ کے لیے تیار ہو گئی اور اس نے جنگ میں بہترین مہارت کا ثبوت دیا۔

سن1969ء میں سیاست کے میدان میں وارد ہوئے اور اپنی سیاسی جماعت 'جسٹس پارٹی ' بنائی جس کا نام 1970ء میں بدل کر تحریک استقلال رکھ دیا گیا۔ مارچ 1969ء میں صدر ایوب خان کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں بھٹو صاحب کا ساتھ دیا۔ دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں راولپنڈی کے حلقے سے الیکشن لڑا لیکن ہار گئے۔ ان انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو ایسا عروج حاصل ہوا کہ اصغر خان کی سیاسی قد و قامت گھٹ گئی۔ بھٹو صاحب کے عہد میں حزب اختلاف میں رہے ۔1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جو احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو اس میں دوبارہ سیاست میں آنے کا موقع ملا۔ اور یوں پاکستان قومی اتحادکی تحریک کے صف اول کے رہنما بنے لیکن وہ سیاسی افق پر پوری طرح نمودار نہیں ہوئے تھے کہ جنرل ضیاالحق کا مارشل لا آگیا۔

جنرل ضیاء الحق کے عہد میں حکومت کے اوائل برسوں میں اصغرخان نظر بند رہے۔ انھوں نے سن1981ء میں پاکستان قومی اتحاد سے علیحدگی اختیار کرکے بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی میں شرکت کی لیکن 1986ء میں اسے بھی چھوڑ دیا۔ سن 1987ء میں کابل گئے اور افغانستان کی کمونسٹ حکومت سے مذاکرات کیے، ان کا خیال تھا کہ افغانستان میں روس سے طویل فوجی مسابقت پاکستان کے مفادات میں نہیں۔ سن1988ء کے انتخاب میں ان کی جماعت 'تحریک استقلال' قومی اسمبلی یا کسی بھی صوبائی اسمبلی سے ایک بھی سیٹ حاصل نہ کرسکی، یہی حال بعد میں آنے والے انتخابات میں رہا۔ انھیں ان کے اخلاص اور بے غرضی کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انھوں نے سنہ 2012 میں اپنی جماعت کو عمران خان کی تحریک انصاف میں ضم کر دیا۔

صدر پرویز مشرف کے دور میں ان کے صاحبزادے عمر اصغر خان کو مشرف نے اپنی کابینہ میں شامل کیا لیکن عمر اصغر خان پراسرار طور پر اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔ انہوں نے خود کشی کی یا انہیں قتل کیا گیا اس کا آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ آپ 5 جنوری 2018 کو طویل علالت کے بعد وفات پا گئے۔

وہ ایک اچھے مصنف بھی تھے جنھوں نے ملکی سیاسی اور عسکری امور پر کئی کتابیں لکھیں۔Pakistan at the Cross Roads، The First Round, Indo-Pakistan War 1965،Generals in Politics،The Lighter side of the Power Game،We've Learnt Nothing from History،My Political Struggle،Milestones in a Political Journey اور'صدائے ہوش'،'چہرے نہیں نظام کو بدلو'،'اسلام، جمہوریت اور پاکستان' اور'یہ باتیں حاکم لوگوں کی'۔ عسکری پس منظر سے قطع نظر ان جیسے شخصیات کی پاکستانی سیاست میں ضرورت شاید آج بھی ہے، ان کا نوجوانوں کو ورزش کی جانب تاہم مائل کرنے کا سلسلہ اب ختم ہو گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں