ادبی زبان عام زبان سے مختلف سہی اِس کا تعلق اپنے زمانے ہی سے ہونا چاہیے

رویوں میں اعتدال کے لیے مختلف طبقات کے درمیان مکالمے کی ضرورت ہے، خالد محمود


Mehmood Ul Hassan March 20, 2013
پنجابی کے معروف فکشن نگار اور شاعر، خالد محمود کے حالات و خیالات۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR: میدان ادب میں ان کا وُرُود شاعری کے ذریعے ہوا۔ پہلی کتاب''ککرتے انگور''کی ادبی حلقوں میں خاصی پزیرائی ہوئی، ایک مرحلے پر کسی خیال کو نظم کا روپ نہ دے سکے تو کہانی کی صورت لکھ دیا۔ یہ فکشن سے تعلق جڑنے کا آغاز ہے۔

یہ کہانی ''گڈی گڈے دی کہانی'' کے نام سے چھپی۔ فکشن سے ربط تو استوار ہوا، تو شاعری کہیں پیچھے رہ گئی، ساری توجہ فکشن پر مرکوز ہوگئی۔ ان کے بہ قول، تخلیقی تجربے اور کتھارسس کے لیے کہانی میں سہولت محسوس ہوئی، تو وہ اس طرف آگئے۔ شعری مجموعہ 94ء میں احمد راہی اور نسرین انجم بھٹی کی آراء کے ساتھ شایع ہو گیا۔ افسانوں کی کتاب ''ٹھیکریاں'' کی اشاعت کا مرحلہ 11سال بعد آیا، تو منفرد موضوعات اور لہجے کی سادگی کے باعث افسانوں کی بھی تحسین ہوئی۔ مجموعہ چھپنے سے قبل کسی ادبی رسالے میں کبھی کہانی نہ چھپی تھی، لیکن اس کے بعد معروف پنجابی جریدے ''پنچم'' میں کئی کہانیوں کو جگہ دی گئی۔

2011 میں دوسرا افسانوی مجموعہ قلمی نام ''نین سکھ'' کے نام سے منصۂ شہود پہ آیا۔ تبدیلی نام کی ضرورت کا جواز اس واسطے پیدا ہوا کہ ادبی مارکیٹ میں خالد محمود کے نام سے تین چار اور صاحبان بھی برابر لکھ رہے تھے، پڑھنے والے مغالطے کا شکار ہوتے، انہیں اس الجھن سے بچانے کے لیے، خالد محمود نے نام کے ساتھ ایڈووکیٹ لگایا، لیکن پھر اس نام کے بھی ایک صاحب نکل آئے تو اپنا نام نین سکھ رکھ لیا۔ خود کو منوا لینے کے بعد اب ناول نویسی جیسی مشکل صنف میں ہاتھ ڈالا ہے۔ زیر تحریر ناول کا بنیادی موضوع تو صوفی شاعر شاہ حسین کی شخصیت ہے، لیکن ساتھ ساتھ وہ عہد کی تاریخ اور معاشرت کا بیان بھی چاہتے ہیں۔

اس ضمن میں انھیں تحقیق سے خاصا کام لینا پڑا۔ اپنے لکھے کو وہ چھپنے سے قبل ایک دوبار نہیں سات آٹھ بار ''ری رائٹ'' کرتے ہیں۔ ''اس کے باوجود چھپنے کے بعد بھی تحریر میں کم زوریاں اور خامیاں نظرآتی ہیں۔'' نثر میں زبان کے معاملے میں وہ چھان پھٹک سے کام لیتے ہیں۔ '' ادبی زبان ، عام زبان سے مختلف ہوتی ہے، لیکن اس کا تعلق اپنے زمانے سے بھی ہونا چاہیے۔ عام زبان سے مختلف ہونے سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ زبان کا سمجھنا محال ہوجائے۔'' پنجابی میں ایسی نثر لکھنے والے، جن کی زبان ادبی خوبیوں سے بھی مزین ہے اور تفہیم کے اعتبار سے بھی آسان، ان میں وہ افضل احسن رندھاوا اور منشایاد کا نام لیتے ہیں۔ افضل احسن رندھاواکے لکھے سارے فکشن کو سراہتے ہیں۔

منشایاد کی کہانیوں کے زیادہ معترف ہیں، لیکن ناول ''ٹانواں ٹانواں تارا'' زیادہ پسند نہیں۔ یشپال کے ناول ''جھوٹھا سچ'' کے بارے میں ان کا موقف ہے،''اس ناول کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے، پڑھا تو اس نے اتنا زیادہ متاثر نہیں کیا۔ تقسیم کے موضوع پر اس ناول سے کہیں اچھا ناول میرے خیال میں بھیشم ساہنی کا 'تمس' ہے۔'' پنجابی میںشاعری کی عظیم الشان روایت ہے، لیکن پنجابی نثر میںکسی بڑی روایت نے جنم نہیں لیا، تو اس کی بنیادی وجہ ان کے نزدیک یوں ہے،''جس زمانے میں پنجابی شاعری کی بڑی روایت قائم ہوئی، وہ زمانہ ہی شعری روایت کا تھا، جب نثرکی روایت پیدا ہونے کی باری آئی، تو پنجابی والے اردو میں چلے گئے۔

اس کے باوجود وہ پنجابی میں نثر لکھی گئی، بہترین نثرنگار سامنے آئے، جن میں نجم حسین سید کا پایہ بہت بلند ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اب پنجابی میں نثر لکھنے کی طرف توجہ زیادہ ہو رہی ہے۔'' خالد محمود کا کہنا ہے کہ جتنے بڑے پنجابی صوفی شاعر گزرے، ان کا تعلق پاکستانی پنجاب سے ہے، جس کی وجہ ان کے نزدیک تخلیقی اعتبار سے اس خطہ کا زرخیز ہونا ہے۔

فکشن میں وہ سمجھتے ہیں، افسانہ ہوتا ہے یا ناول، ناولٹ نہیں۔ اپنی کئی کہانیوں کے انتہائی مختصر ہونے کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں،''آپ تھوڑے لفظوں میں اپنی کسی کیفیت اور تخلیقی تجربے کو بیان کرتے ہیں اور اس سے پڑھنے والے کے ذہن میں بہت سے واقعات آگئے ہیں تو مختصر کہانی میں حرج نہیں سمجھتا۔ دنیا کے عظیم کہانی کار کافکا نے بھی تو بہت سی کہانیاں بہت ہی مختصر لکھی ہیں۔'' تسلیم کرتے ہیں کہ اکادکا کہانیوں میں سیاست کا ذکر بین السطور نہیں رہا، اور شخصیات کے نام اور کام نمایاں ہوگیا ہے۔ کہتے ہیں بعض جگہ تو ناگزیر ہوتا ہے، لیکن اصولی طور پر وہ سمجھتے ہیں کہ کہانی میں بات ڈھکے چھپے انداز میں ہی ہونا چاہیے۔

وہ، اردو والوں کو تحریر میں انگریزی الفاظ کی بجائے پنجابی الفاظ کو ترجیح اور پنجابی والوں کو انگریزی کی بجائے اردو الفاظ استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ شیو کمار بٹالوی، امرتا پریتم، احمد راہی اور نجم حسین سید کو اپنے پسندیدہ لکھاریوں میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں امرتا پریتم اور شیو کمار بٹالوی کی پزیرائی بھارت سے زیادہ پاکستان میں ہوئی۔ اسیر عابد نے نے دیوان غالب کا جو پنجابی ترجمہ کیا ہے، اس کی تعریف کرتے ہیں لیکن ان کے خیال میں اس ترجمہ میں آورد کا احساس ہوتا ہے۔

اس کے برعکس صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے غالب کی غزلوں کا جو پنجابی ترجمہ کیا ہے، وہ انھیں زیادہ پنجابی لگتا ہے، جب کہ ان کے بہ قول اس میں کہیں کہیں پنجابی لفظ کے بجائے اردو کو ترجیح دی ہے مثلاً اڈیک کی جگہ انتظار ہی انہوں نے استعمال کیا۔ شاعری کے ترجمے کو وہ بہت مشکل کام گردانتے ہیں، خیام کے مترجم فٹز جریالڈ کی سب سے بڑھ کر تعریف کرتے ہیں۔ ڈکشنریوں میں وہ سال ڈیڑھ سال قبل شائع ہونے والے چودھری سردار محمد کی پنجابی اردو ڈکشنری کی تعریف کرتے ہیں۔ تنویر بخاری کی ڈکشنری کے بھی قائل ہیں۔

خالد محمود انتہا پسندی کو معاشرے کے لیے زہرقاتل قرار دیتے ہیں، اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ رائٹ اور لیفٹ دونوں میں انتہا پسند موجود رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ رویوں میں اعتدال کے لیے وہ مکالمے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ لاہور کے بارے میں کتابوں کا انھیں انسائیکلوپیڈیا جانیئے۔ بہت سی کتابوں کو وہ پڑھ چکے ہیں، جنھیں پڑھا نہیں، ان کی تلاش میں ہیں۔ اس شہر بے مثال کے بارے میں وہ کتابیں جنھوں نے ان کے دل کو چھوا ان میں تاریخ دان، کے کے عزیزکی کتاب ''کافی ہائوس'' سرفہرست ہے۔ یہ کتاب ایک بار شروع کی تو اسے ختم کرکے دم لیا۔ لاہور میں بیتے دنوں کے احوال پر مبنی ممتاز ادیب انتظار حسین کی یادداشتیں ''چراغوں کا دھواں'' کی بھی تعریف کرتے ہیں۔

پران نویل کی کتاب"Lahore - A sentimental Journey" کو سراہتے ہیں کہ اسے پڑھ کرآدمی جذباتی ہو جاتا ہے۔ بزرگ فوٹوگرافر ایف ای چودھری کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ''اب وہ لاہورکہاں'' اور ''نقوش'' کے لاہور نمبرکا ذکر بھی کرتے ہیں۔ یونس ادیب کی ''میراشہر لاہور'' انہیں زیادہ پسند نہیں۔ ''تحقیقات چشتیہ'' کے قائل ہیں، لیکن ان کے بقول اسے پڑھتے ہوئے لگتا ہے، مصنف نے ساری جگہیں خود نہیں دیکھی۔ کنہیا لال کی ''تاریخ لاہور'' اور سید محمد لطیف کی ''تاریخ پنجاب'' کو اچھا کام قرار دیتے ہیں لیکن ان کے خیال میں انگریزوں کا ملازم ہونے کے باعث وہ اپنے کام سے انصاف نہیں کر سکے۔

ان دنوں وہ جس کتاب کو پڑھ کرحظ اٹھارہے ہیں وہ عاشق حسین بٹالوی کی ''چند یادیں، چند تاثرات'' ہیں۔ یہ کتاب لاہور پر تو نہیں لیکن پنجاب سے متعلق بہت سی اہم شخصیات کا احوال انہوں نے بڑے زبردست پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کے اس قدر حوالے انہیں یاد ہیں کہ ایسے لگتا ہے کہ وہ اسے گھول کر پی چکے ہیں۔ وہ جن لوگوں کی علمیت کے سچے دل سے قائل ہیں اور جن کے وسعت مطالعہ نے انہیں حیران کیا، ان میں صفدر میر سر فہرست ہیں۔

اور اب کچھ ذکر خالد محمود کے کچھ ذاتی حالات کا۔ ان کا تعلق سرگودھا سے ہے، لیکن پیدائش 1962ء میں وزیر آباد کے ایک گائوں ابوالفتح والی میں اپنے ننھیال کے ہاں ہوئی۔ والد عمر حیات، کسان تھے۔ مختلف تعلیمی درجے سرگودھا میں رہ کر پاس کیے، میٹرک پبلک ہائی اسکول وزیرآباد سے کیا۔ 83ء میں گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے بی اے کیا۔ 1987ء میں بہ سلسلہ روزگار لاہور آگئے۔ یہاں رہ کر ایل ایل بی کیا اور وکالت کو بہ طور پیشہ اپنالیا۔ کہتے ہیں، وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے پیچھے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں تھی، بس ایک خیال آیا اور اس طرف چلا آیا۔

پنجابی قصوں کا پڑھنا ادب کی طرف راغب کرنے کی بنیاد بنا۔ مذہبی کتابیں بھی پڑھیں اور تاریخی ناول بھی۔ انگریزی بہتر بنانے کے لیے، گورگی کا ناول ''ماں'' پڑھاتو کمیونزم کے بارے پڑھنے کاشوق ہوگیا، اس رو میں دوسرے روسی قلم کاروں کی تحریروں کوبھی پڑھ ڈالا۔ اردو ادب بھی خوب پڑھا۔ کارل مارکس سے متاثر ہونے کا بھی یہی زمانہ رہا، جس کے اثر سے بعدازاں آزاد ہو گئے۔ 95ء میںوہ رشتۂ ازدواج میں بندھے۔ دو بیٹے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں