مراعات کے پیمانے
سب کو معلوم تھا کہ گزیٹڈ کلاس ون افسر کا اسکیل ساڑھے چار سو روپے سے شروع ہوتا ہے۔
ڈھائی تین دہائیاں قبل سڑکوں پر ایک سے بڑھ کر ایک نئی اور مہنگی موٹر کار نظر آتی تھی، نہ اس قدر چمکتے شاپنگ مال اور امپورٹڈ مال سے لدے اسٹورز تھے کہ کسی کو شدت سے اپنی کم مائیگی کا احساس پریشان کرتا، لوگ فٹ پاتھوں پر مناسب ڈریس میں ملبوس آتے جاتے بھی نظر آتے تھے۔
یہ بہت پرانی بات نہیں تب ہمارے ملنے والے سول سروس کے افسروں کی ماہانہ تنخواہ نوکری شروع ہونے پر چار سو پچاس روپے ہوتی تھی اور کسی کو مالی پریشانی میں مبتلا یا شکوہ شکایت کرتے بھی نہ دیکھا سنا تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ گزیٹڈ کلاس ون افسر کا اسکیل ساڑھے چار سو روپے سے شروع ہوتا ہے۔ کوئی پوچھ بھی لیتا تو موصوف بیورو کریٹ بتانے میں قطعی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ تنخواہوں کے اسکیل تو معمولی Revise ہوئے لیکن گرانی میں اضافے کے علاوہ اشیائے ضروریہ کی تعداد کے علاوہ سامان تعیش کی بھر مار نے ملازمت پیشہ افراد اور خاص طور پر ان کی فیملیز کے لیے دشواریاں پیدا کردیں۔
ایک وقت تھا کہ پورے ضلع میں بمشکل ایک یا دو افسران مشکوک شہرت کے حامل پائے گئے تھے اور اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ ایک یا دو کلین افسروں کی نشاندہی ناممکنات میں پائی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تنخواہوں میں گزر اوقات نہ ہوسکنا جب کہ اصل اور دوسری وجہ کرپشن کا سکہ رائج الوقت ہونا اور کسی قسم کی بھی روک ٹوک سے آزاد ہونا ہے۔
اگر آج ان سرکاری ملازمین، کاروباری حضرات اور سیاسی افراد کا Data اکٹھا کیا جائے کہ سرکاری ریکارڈ میں ان کی کتنی تنخواہ یا آمدنی درج ہے اور ان کا رہن سہن اور خرچ کیسا نظر آتا ہے تو صاف معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنی تنخواہ یا ڈیکلیئر کی ہوئی آمدنی سے کئی سو گنا زیادہ خرچ کرتے ہیں اور وہ جن کی حیثیت پانچ مرلے کے مکان، ایک موٹر سائیکل اور بمشکل دو وقت کی روٹی کی تھی دو کنال کی کوٹھی میں رہائش پذیر، دو کاروں کے مالک، ہر ویک اینڈ پر فیملی اور دوستوں کے ہمراہ مہنگے ہوٹل میں ڈنر کرتے اور سخت موسم میں صحت افزا مقام یا یورپ امریکا کی سیر کرتے ملیں گے۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آزادی کے مصائب میں سے گزر کر وطن عزیز میں نقل مکانی کرکے آنے والوں میں سے ہوشیار اور چالباز غرباء نے محکمہ سیٹلمنٹ میں خود کو لینڈ لارڈ اور محلات کا مالک ظاہر کرکے الاٹمنٹ کے عمل سے گزر کر کرپشن کا پہلا بیج بویا تھا جس کی لہلہاتی فصلیں ہمیں آج کل سارے ملک میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
برائی کے کچھ بیج جن میں منشیات، اسلحہ اور مسلکی تقسیم شامل ہیں اور جنھوں نے دہشت گردی کو بھی پروان چڑھایا ایک ڈکٹیٹر نے بوئے، اسی نے ایک بزنس فیملی کے فرد کو انگلی پکڑ کر سیاست کی پگڈنڈی پر کھڑا کیا تو وہ وزارت، وزارت اعلیٰ سے وزارت عظمیٰ کی شاہراہ پر چل نکلا اور پھر ''راجہ بیوپاری پرجا بھکاری'' کی اصطلاح کو بھی سچ کردکھایا۔ وہ سیاست کو فیملی بزنس بناکر چھٹی Term پر تھا کہ عدالتی گرفت میں آگیا اور اب کہتا ہے کہ ''مجھے کیوں نکالا''۔
کچھ بزرگ دانشور اور سیاست دان بتاتے ہیں کہ تیس چالیس سال پہلے کا پاکستان منشیات، لاء اینڈ آرڈر اور مسلکی تقسیم کے حوالے سے اتنا بہتر تھا کہ مختلف ملکوں کے طالبعلم بغرض حصول تعلیم اور غیر ملکی کاروباری لوگ سڑکوں بازاروں اور ہوٹلوں میں بلا خوف و خطر گھومتے پھرتے دیکھے جاتے تھے اور اب یہ حال ہے کہ ہمارے لوگ بزنس میٹنگز کرنے پر مجبوراً باہر جاتے ہیں اور کالے گورے پیلے طالب علم کہیں دیکھنے کو نہیں ملتے جب کہ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے بھجوانا ایک منافع رساں کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
موضوع کا مرکزی نقطہ سرکاری ملازموں کی تنخواہوں اور ان کے عہدوں سے جڑی ہوئی مراعات اور اختیارات کا ہے۔ اگر ان کے فرائض اور معاوضوں میں بیلنس ہوگا تو وہ ناجائز کاری کی طرف مائل نہیں ہوں گے بلکہ دوسروں کی غلط کاری اور کرپشن کا محاسبہ بھی کریں گے لیکن کافی عرصہ سے دیکھا جارہا ہے کہ حکمران اپنے غلط کام کروانے کے لیے سرکاری ملازموں کو استعمال کررہے ہیں۔
شروع شروع میں سرکاری افسر اور دیگر ملازم دیانت اور امانت کے پیش نظر یا محاسبے کے خوف سے غلط یا ناجائز کام کرنے سے گریز یا انکار کیا کرتے تھے جس پر حکمران Lucrative عہدوں پر من پسند اور کمزور افسروں کو لانے لگے پھر حکمرانوں اور سرکاری افسروں میں ملی بھگت کا رشتہ قائم ہونے لگا جو اس قدر مضبوط ہوتا رہا کہ بہت سے گورنمنٹ افسر سرکاری کی بجائے پرسنل سرونٹ ہوکر Yes Men بن گئے۔
من پسند سرکاری ملازموں اور افراد کو نوازنے کی خاطر ایسے غیر ضروری محکمے اور کمپنیاں قائم اور Create کرنے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن کا No mine Lature اور ان سے جڑی ہوئی تنخواہیں اور مراعات ہی معاملے کو طشت ازبام کرنے کے لیے کافی ہیں۔ فی الحال چند کمپنیوں کی تفصیل درج ہے جن میں سے اکثر کا صرف نام ہی پڑھ کر چہرے پر آنے والی مسکراہٹ کو دبا لینا مشکل ہوگا جب کہ صرف چند پراجیکٹ دیرینہ اور آن گراؤنڈ موجود ہیں۔
(1) سی ای او پنجاب سکل ڈویلپمنٹ کمپنی ماہانہ تنخواہ گیارہ لاکھ روپے (2) سی ای او منرل ڈویلپمنٹ کمپنی آٹھ لاکھ روپے (3) سی ای او نیشنل تھرمل پاور کمپنی بیس لاکھ روپے (4) سی ای او انجینئرنگ کنسلٹنسی سروس ساڑھے سات لاکھ (5) سی ای او پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی پانچ لاکھ روپے۔ (6) پنجاب بورڈ آف انوسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کمپنی آٹھ لاکھ دس ہزار روپے (7) سی ای او پنجاب ہیلتھ فسیلیٹیز مینجمنٹ کمپنی چھ لاکھ روپے ماہانہ۔
مندرجہ بالا ماہانہ تنخواہوں کے علاوہ ان کے سی ای اوز، سرکاری گاڑیاں، یوٹیلیٹی، ہاؤس، پراجیکٹ و انٹرٹینمنٹ الاؤنسز بھی وصول کررہے ہیں۔ ان کی تنخواہوں اور مراعات کا موازنہ ریگولر سرکاری ملازمین سے کیا جائے تو ماسوائے Lucrative عہدوں پر تعینات افسروں کے، ہر دو کیٹگیریز سے مراعات کا فرق ناقابل فہم ہوجاتا ہے۔ مذکورہ بالا میں سے بیشتر کی کارکردگی بلکہ اتا پتہ تک کسی کو معلوم نہیں۔