چلتے چلاتے
ادھر ایگری فورم پاکستان نے کہا ہے کہ ربیع موسم میں فصلوں کی پیداوار 20 لاکھ ٹن کم رہے گی۔
کراچی میں بدھ6 مارچ کی دوپہر 11:25 بجے سپر ہائی وے سبزی منڈی میں تخریب کاری کی وجہ سے آگ لگ گئی۔ جس کے نتیجے میں سبزی منڈی کے ''بی'' اور ''سی'' سیکشن میں قائم 1600 دکانیں، مزدوروں کی ہاتھ گاڑیاں اور عارضی شیڈز جل کر خاکستر ہوئے۔ تقریباً 1 کروڑ روپے کی مالیت کا کیلا، پیاز اور آلو جل کر تباہ ہوا۔
نقصانات کا تخمینہ سوا 2 کروڑ روپے کا ہے اور ڈھائی ہزار مزدور، چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجر بیروزگار ہو گئے۔ کسی ذمے دار سرکاری شخصیت نے منڈی کا دورہ کرنے کی زحمت کی اور نہ متعلقہ محکموں اور اداروں کے نمایندوں نے سروے کیا۔ 1600 دکانوں کا جلنا اور ڈھائی ہزار لوگوں کا بے روزگار ہونا انتہائی درجے کا معاشی قتل ہے، مگر حکمراں طبقات اور حزب اختلاف کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔
ادھر ایگری فورم پاکستان نے کہا ہے کہ ربیع موسم میں فصلوں کی پیداوار 20 لاکھ ٹن کم رہے گی۔ گزشتہ سیزن میں زیر کاشت اراضی میں کمی، معیاری بیجوں کی عدم دستیابی اور کھاد کے کم استعمال کی وجہ سے گندم، چنا، کنولہ اور سورج مکھی سمیت ربیع کے فصلوں کی پیداوار میں 15 سے 20 لاکھ ٹن کمی کا خدشہ ہے۔ پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ نے ایک کروڑ68 لاکھ ایکڑ اراضی پر ربیع کا فصل کی کاشت کا ہدف مقرر کیا تھا جس سے ایک لاکھ 92 ہزار ٹن پیداوار متوقع ہے۔ تاہم ناقص پالیسیوں کے باعث ربیع کی فصلوں کی پیداوار میں کمی سے غربت، بے روزگاری اور قیمتوں میں اضافے جیسے مسائل بڑھ جائیں گے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے انکشاف کیا ہے کہ قطر میں امریکا اور طالبان کے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ یہی کوشش مولانا فضل الرحمٰن پاکستان میں کر رہے ہیں۔ اس لیے بھی کہ بے نظیر بھٹو جب وزیر اعظم تھیں اس وقت امریکی سی آئی اے کے منصوبے کے تحت پیپلز پارٹی کی حکومت میں نصیر اللہ بابر کی سر پرستی سے جے یو آئی کے مدارس سے طلبہ کو افغانستان میں قائم بائیں بازو کی حکومت گرانے اور سامراجی تسلط کو قائم کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ افغانستان میں موجود مذہبی جماعتیں امریکی سی آئی اے کی تخلیق ہیں۔ انگریزی کہاوت کے تحت (love and hate) یعنی ''محبت اور نفرت'' ایک ریل گاڑی کی دو پٹریاں ہیں۔
اسی فارمولے کے تحت امریکا اور طالبان کی جنگ چل رہی ہے۔ اس وقت بھی پی پی پی کی حکومت تھی اور آج بھی صدر مملکت ان کے ہیں۔ ایک مولانا فضل الرحمٰن معترض ہیں کہ طالبان مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن حکومت ٹال رہی ہے اور طالبان نے تو جرگے پر اعتماد بھی کیا ہے۔ درحقیقت امریکا اور طالبان کے بنیادی اصولوں میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں سرمایہ داری کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ایک جمہوریت کے نام پر دوسرا اسلام کے نام پر، حال ہی میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر امریکا نے دنیا کی چند بہادر خواتین کو انعام دینے کا اعلان کیا جن میں ایک ملالہ یوسف زئی بھی ہے۔
مگر اس کے اہل خانہ نے اس انعام کو لینے سے انکار کر دیا۔ یہ عمل انھوں نے بالکل درست کیا ہے اس لیے کہ طالبان جتنے بڑے دہشت گرد ہیں اس سے ہزار گنا بڑا دہشت گرد امریکی سامراج ہے۔ بقول امریکی انقلابی دانشور پروفیسر نوم چومسکی کے امریکا اب تک 88 ملکوں میں مداخلت کر چکا ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔ اس لیے انھوں نے درست فیصلہ کیا ہے اور جیسا کہ سنتا ہوں کہ ملالہ کے والد کمیونسٹ تھے یا ہیں تو پھر ان کو ایسا ہی فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔
خبر آئی کہ پرویز مشرف کا پاکستان میں آمد کا راستہ سعودی عرب نے ہموار کیا ہے۔ پہلے بھی سعودی عرب نے نواز شریف کی راہ ہموار کروائی تھی۔ ایک جانب آئین کی شق نمبر 6 کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔ عدالت ابھی تک انھیں پیش نہیں کروا پائی۔ اس سے پہلے بھی عدالت جنرل بیگ اور جنرل درانی کو سیاسی رہنماؤں میں رقوم بانٹنے کے سلسلے میں نوٹس دے چکی ہے لیکن اس پر ابھی تک کوئی عمل نہیں ہوا۔ پھر پرویز مشرف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔ اس سے قبل جنرل اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ ایسا ہے کہ جیسے شاعر نے کہا کہ ''ہر گھڑی ہر وقت کامران ہیں ہم''۔
پاک ایران گیس معاہدہ پاکستان نے ایندھن کا مسئلہ بظاہر حل کرنے کے لیے کیا ہے، درحقیقت ہمارے ہاں جس قدر بجلی، گیس، کوئلہ، ہوا، شمس، پانی موجود ہے، ہم اس سے نہ صرف اپنی ضروریات پوری کر لیں گے بلکہ توانائی برآمد بھی کر سکتے ہیں۔ حکمرانوں کی جانب سے بجلی کی پیداوار کی کمی کا شور و غوغا صرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع لوٹنے اور حکمرانوں کی کمیشن کے مفادات ہیں۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے حکم پر ججوں نے ملیر اور لیاری کا چھاپہ مار دورہ کیا۔ پتہ چلا کہ لیاری ٹاؤن کے 49 اسکول خالی پائے گئے۔ تمام عملہ تنخواہیں وصول کر رہا ہے، کروڑوں روپے وصول کر کے ٹھیکیدار کام چھوڑ کر فرار ہو گیا۔
سیشن جج نے صدر ٹاؤن کراچی کے 46 اسکولوں کی حالت خراب قرار دے دی، یہ بھی پتہ چلا کہ'' شیخ'' صاحب 2 ہزار روپے میں گھر بیٹھے آڈٹ کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دورے اور چھاپے لیاقت آباد اور عزیز آباد سمیت دیگر علاقوں میں بھی ہونے چاہئیں اور یہ کام 5 سال قبل بھی ہو سکتے تھے۔ 14 ویں صدی کے ایک یونانی فلسفی نے کہا تھا کہ ''قانون ایک ایسا مکڑی کا جالا ہے جسے طاقتور پھاڑ کر نکل جاتا ہے جب کہ کمزور پھنس جاتا ہے۔ روزنامہ ایکسپریس میں ایک خبر چھپی ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں مذہبی جماعتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کیا جائے۔
1971ء میں مشرقی پاکستانی جو آبادی کی اکثریت تھے انتخابات میں عوامی لیگ کی کامیابی کے بعد اقتدار ان کے نمایندوں کے حوالے کیا جاتا۔ جماعت اسلامی نے فوج کے ساتھ مل کر البدر اور الشمس تشکیل دی اور مبینہ طور پر لاکھوں بنگالیوں کو قتل کیا اور یہی کام افغانستان میں قائم بائیں بازو کی سامراج مخالف حکومت کو گرانے کے لیے جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں افغان عوام کے قتل کی صورت کیا گیا۔ واضح رہے کہ 17 دسمبر 2012ء میں بنگلہ دیش کے عوام نے ہڑتال کی جس میں ان کا مطالبہ تھا کہ تمام مذہبی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے، یہ مطالبہ چند لوگوں کا نہیں بلکہ 15 کروڑ عوام کا مطالبہ تھا۔
اسی جماعت پر ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو پاکستان میں پروان چڑھانے کا الزام ہے کہ امریکی سامراج کی سرپرستی میں ڈالر بٹورتے ہوئے امریکا کو افغانستان اور پاکستان میں مداخلت کا موقع فراہم کیا۔ امام کعبہ شیخ عبدالرحمٰن السدیس نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نائب صدر دلاور حسین کو سزائے موت ناانصافی ہے۔ یہ ایسا ہی بیان ہے جس طرح ویتنام پر امریکی بمباری پر ویٹکن سٹی خاموش رہا کرتا تھا۔
سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ حکومت نے دور اقتدار کے چند آخری دنوں میں ایسے اقدامات کیے جن کے سبب مالی سال 2012-13ء کے دوران پاکستان کا بجٹ خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے 8.5 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ہے جس کی مالیت 20 کھرب روپے کے برابر ہے۔ ان خساروں میں ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس کی وصولی میں 88 ارب روپے کمی، اتصال سے 80 ارب روپے کی عدم وصولی، یورو بانڈ سے 50 ارب روپے قرضوں پر 100 ارب روپے مدد کی ادائیگی، دفاعی اخراجات کی مد میں اضافہ خسارے کی اہم وجوہ ہیں۔
اخراجات کی مد میں 20 کھرب 86 ارب روپے خرچ کیے جب کہ آمدنی صرف 14 کھرب 61 ارب روپے تک محدود رہی، جس کے نتیجے میں 624 ارب روپے بجٹ خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ ان کا کہنا ہے جو خود حکمران طبقات کا اہم حصہ رہے۔ان تمام مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام میں مضمر ہے۔ جہاں ریاست، طبقات، اسمبلی، پارٹیاں، فوج، عدالت، وزارت، مذہبی جنونیت، فرقہ واریت، قومی ریاستی سرحدیں، کاروکاری اور نجی ملکیت کا خاتمہ کر کے ایک ایسا سماج قائم کیا جائے جہاں کوئی دولت مند ہو گا اور نہ کوئی بھوکا مرے گا۔