میرا ہوا باز ابدی فضائوں میں
ائر مارشل سے وابستہ یادیں بہت ہیں جو ان کی مہربانیوں کی وجہ سے زندہ ہیں
ہماری ہوا بازی یعنی ہوائی دنیا کے جد امجدائر مارشل محمد اصغر خان ستانوے برس کی عمر میں دل کی دھڑکن بند ہونے سے اس دنیا سے چلے گئے۔ ان کے ساتھ ان کی مسکراہٹ بھی زیر زمین چلی گئی اور ہم ان کے نیاز مند اس مسکراہٹ سے محروم ہو گئے جس پر ان کی معاصر خواتین قربان ہوتی تھیں مگر ان کی کوئی سو سالہ پاکباز زندگی پر کوئی داغ نہ لگ سکا۔ وہ اپنی غیر معمولی حد تک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ ہم سے جدا ہوگئے ۔
ہم سے مراد وہ خواتین ہیں جو ان کی مسکراہٹ پر مرمٹتی تھیں ۔ ان کے ساتھ ایک مدت تک قریبی تعلق زندہ رہا اور ان کی خداداد مسکراہٹ کے نظارے اور جلوے میں نے کئی بار دیکھے ۔ ڈھاکا میں ایک بار جہاز سے اترتے وقت وہاں ڈیوٹی پر موجود پی آئی اے کی خواتین نے ہمارے جیسے ائر مارشل کے رفیقان سفر سے سفار شیں کرائیں کہ ائر مارشل ان کو دیکھ کر مسکرادیں ۔ میں نے وعدہ کر لیا کہ مجھے یقین تھا کہ ائر مارشل ان استقبالی خواتین کو دیکھ کر رسماً بھی ضرور مسکرائیں گے، یہی ہوا اور بنگالی اور دیگر خواتین جو اس وقت ڈھاکا کے ہوائی اڈے پر موجود تھیں، ان کی مسکراہٹ کا ایک ہی جلوہ دیکھ کر سرشار ہو گئیں اور مجھے بھی اچھی نظروں سے دیکھ کر مسکرائیں ۔ یہ نظریں شکریئے کی تھیں اور دوسری خاص نظریں تو ائر مارشل لے گئے تھے جنھیں خدا نے صنف نازک مار مسکرہٹ عطاکی تھی ۔
ائر مارشل محمد اصغر خان کو اللہ تعالیٰ نے خاص شخصیت عطاء کی تھی، ان کی ہوا بازی کی مہارت اور فضاؤں کے ساتھ تعلق بہت پرانا تھا اور زندگی میں بہت کچھ حاصل ہونے کے باوجود ان کا مزاج معمول کے مطابق رہا اور انھوں نے مجلسی اور سماجی زندگی میں نیاز مندی اور شائستگی کو ہمیشہ ترجیح دی ۔ میری ان کے ساتھ طویل عرصہ تک نیاز مندی بھی رہی اور فضائی رابطے بھی رہے ۔ ہواؤں کی دنیا میں بھی ان کی شفقت ہمیشہ زندہ رہی جب کہ ان کی حاکمانہ حیثیت بھی اپنی جگہ زندہ رہی ۔ ایک بار ہمیں ڈھاکا میں ایک رات رکنا پڑا ڈھاکا کلب میں شب باشی کا انتظام ہوا لیکن اس کلب میں شب باشی کا انتظام بہت ناقص تھا ۔ میں نے دیکھا کہ ائر مارشل دو تکئے بغل میں دبائے آرہے ہیں، انھوںنے ایک تکیہ مجھے دیا کہ یہاں کے تکئے بہت 'کمزور' ہیں اور دوسرا خود رکھ لیا ۔ میں جو ان کے ہمراہ سفر کر رہا تھا، وہ ہر لمحے میرا خیال رکھتے تھے خواہ خود تکلیف میں کیوں نہ ہوں۔
ائر مارشل سے وابستہ یادیں بہت ہیں جو ان کی مہربانیوں کی وجہ سے زندہ ہیں اور زندہ موجود رہیں گی۔ ائر مارشل ایک بے حد سچے پاکستانی تھے اور پاکستان پر ذرا سا سمجھوتہ کرنے پر بھی کبھی آمادہ نہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی پی آئی اے کی افسری میں بڑے نازک وقت دیکھے مگر وہ اپنی پالیسی پر ڈٹے رہے ۔ انھوں نے ایک بار چند فضائی میزبان بھرتی کیں ، وہ سب خوش شکل تھیں، اس پہ مولوی مزاج لوگ برہم ہو گئے اور ائر مارشل پہ الزامات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، وہ خاموش رہے لیکن تنگ آکر انھوں نے کہا کہ کیا آپ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ میں عام سی شکل و صورت کا عملہ بھرتی کروں جسے ہمارے مسافر دیکھ کر ٹکٹ بھی واپس کر دیں کہ ایسی ائر لائن پر کون سفرکرے اور سفر کی زحمت کو دگنا کرے۔ وہ چونکہ خودایک صاف ستھری زندگی کے مالک تھے۔
اس لیے وہ ایسے معاملات پر تنقید کی پروا نہیں کرتے تھے اور ایک کاروباری ادارے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے، وہ اس کوشش میں کامیاب رہے اور ان کے دور میں پی آئی اے ایک کامیاب ذریعہ سفر رہا ۔ وہ خود چونکہ ایک اچھے ہوا باز تھے اس لیے وہ ہوابازی کے اس ادارے میں کامیاب رہے، دنیا میں ایک نمایاں اور مقبول ادارہ بنا دیا۔ وہ ہوا بازی کے شعبے میں جو بلند مقام رکھتے تھے پی آئی اے میں بھی انھوں نے اس مقام کو قائم رکھا اور اس نازک ادارے سے بخریت رخصت ہو گئے بلکہ یوں کہیں کہ باعزت رخصت ہو گئے اور ان کے مخالف ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
ائر مارشل نے پی آئی اے کے کاروباری ادارے میں اپنا تجربہ لگا دیا اور بعض اوقات تو وہ حد سے بڑھ کر اس ادارے کی کامیابی میں حصہ لیتے تھے یہاں تک کہ ان کا عملہ ان کی مہارت کے سامنے خاموش رہتا تھا جب کہ یہ سب لوگ دنیا دیکھے ہوئے تھے اور ہوا بازی کے شعبے میں اپنا خاص مقام رکھتے تھے ۔ ائر مارشل اپنے ادارے میں مزید خوبیاں پیدا کرنے میں دن رات مصروف رہتے تھے بلکہ بعض اوقات ان کی دلچسپی دیکھ کر الجھن محسوس ہوتی تھی کہ وہ جو معیار قائم کر رہے ہیں اسے زندہ کون رکھے گا لیکن وہ ایسے بنیادیں استوار کر گئے کہ ان کے بعد آنے والے بڑی آسانی کے ساتھ یہ معیار قائم رکھنے میں کامیاب رہے ۔ ائر مارشل کی مسکراہٹ ان کے ساتھیوں کی ہر وقت معاون رہتی اور ان کے حوصلے بلند رکھتی ۔ یہ اپنے ادارے کا ایک ایسا سر براہ تھا جو زندگی بھر ان کے ساتھ رہا اور ان کے حوصلے بلند کرتا رہا ۔ ائر مارشل مرحوم سے وابستہ میں اپنی مزید یادیں تازہ کروں گا۔