شکار اور شکاری

جنگلی بھینسوں کے ریوڑ پر جب شیر شب خون مارتے ہیں تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں



ضمیر کے زندہ ہونے کے لیے لازمی شرط مسلمان ہونا نہیں ہے۔ انسان ہونا ضروری ہے اور انسان ہونے کے لیے جسم کافی نہیں ہے بلکہ کچھ اور اعلیٰ اقدار ضروری ہیں اور آپ کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ یہ اقدار غریب عوام کی دولت ہیں۔ آئے دن خبروں میں پڑھتے ہیں ایئرپورٹ پر کوئی مسافر گھر گیا اور جلدی میں سامان چھوڑ گیا گاڑی میں یا بٹوہ رہ گیا اور گھنٹی بجی اور پریشان ہوئے حیرت زدہ ہیں کہ ڈرائیور بٹوہ پکڑے کھڑا ہے اور دیتے وقت کہہ رہا ہے صاحب اچھی طرح دیکھ لیجیے۔ میں نے اسے کھولا نہیں ہے۔

انعام کو واپس کرتے ہوئے کہہ رہا ہے نہیں صاحب مجھے شرمندہ نہ کیجیے۔ یہ آپ نے میری گاڑی میں چھوڑا تھا، واپس کرنا میرا فرض تھا۔

یہ غریب لوگ آخر ایسے کیوں ہوتے ہیں؟ یہ ایک سوال ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھروسے کو توڑنا نہیں چاہتے وہ بھروسا جو ان کو خدا پر ہے۔ یہ اپنے اس یقین پر خوش رہنا چاہتے ہیں جو انھیں اللہ پر ہے۔ یہ ناقابل شکست ہے، ان کے کردار کی طرح۔

یہ غیر مسلم بھی ہوتے ہیں۔ دراصل دیانت ایک بین الاقوامی مذہب ہے اور اس کا چارٹر بہت مختصر ہے۔ ''جو دوسرے کا ہے وہ میرا نہیں ہے'' تو اس کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کے برعکس مسلمان نام کے لوگ جو اسلام کے نام پر ہر جرم کر رہے ہیں وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ''مجرم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا'' اب اس پر کیا تبصرہ کریں۔ یہ ایک سرطان ہے جو دوسروں کے اشارے اور دولت پر پل رہا ہے۔

ہماری جیلیں کیوں بھری ہوئی ہیں کیا انڈین فلمیں دیکھ کر لوگ مجرم بنتے ہیں۔ جی نہیں ان سے وہ ''ماہر'' بنتے ہیں جو جیل کے باہر ہیں ''شیشہ'' استعمال کرتے ہیں۔ یہ تو ان فلموں سے غم غلط کرتے ہیں لاچاری بے بسی اور مجبوریوں کا غم!

لاٹھی بھینس کے لیے نہیں ہے۔ بھینس پر ''اقتدار'' برقرار رکھنے کے لیے ہے اور ''اقتدار'' کے لیے لاٹھی چلانا پڑتی ہے جیسے ماڈل ٹاؤن میں چلی، دھرنے میں چلی، جی ٹی روڈ پر چلی، سپریم کورٹ کے باہر زبان کے لاٹھی بردار مرد و زن مہارت دکھاتے رہے ہیں۔

پانامہ اوپن ہوا۔ غیر مسلم وزرائے اعظم نے جو اس میں تھے۔ سامان کار میں رکھا خود گاڑی ڈرائیو کی اور گھر پہنچ گئے۔ ایک اور نے تو خبر نشر ہوتے ہی پی۔ایم ہاؤس خالی کردیا کسی پنجاب ہاؤس میں منتقل نہیں ہوا ۔

ایک وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کے فیصلے سے اتفاق نہیں ہوا۔ استعفیٰ پی ایم ہاؤس ڈسپیچ کیا۔ اپنی سائیکل پکڑی جی ہاں سائیکل ، پیڈل مارے اور گھر، نہ پولیس کی گاڑی نہ بی ایم ڈبلیو، نہ قافلہ، کلّا پی ایم سائیکل تے بلو کے گھر جہاں وہ بچوں کے ساتھ اس عظیم انسان کا انتظار کر رہی ہے۔ میڈیا بہرحال سائیکل سے تو تیز ہے اور وہ لوگ ٹی وی پر فیملی ڈرامے نہیں دیکھتے ہر وقت۔ جاگتے ہیں باقاعدہ۔

ایک بہت عجیب بات ہوئی ہے کہ مملکت پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ سی پیک نے ایک روشن راہ کا سفر دے دیا ہے اگر یہ لوگ یعنی حکومت کرنے والے فلاح کی راہ پکڑ لیں اور توجہ کرکے ملک کو اپنی راہ پر چلنے دیں اور عوام پر معاشی اور سیاسی، سماجی ظلم و ستم ختم کردیں۔

جج پتا نہیں سیاسی ہوتے ہیں یا نہیں ۔ سب کی اپنی اپنی عینک ہے مگر شیشے صاف رکھنے چاہئیں عینک کے تب عکس پر بھروسہ ہوسکتا ہے۔ دھند کا سفر خطرناک ہے دونوں کے لیے۔

لیڈروں کو دیکھ لیجیے (ن) لیگ کے آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔ قافلے کی صورت، سیکیورٹی میں چلتے ہیں جیسے یہ ملک ایک جنگل ہے اور جنگل میں دو ہی جانور بری نیت سے قافلوں میں چلتے ہیں۔ ہمارا اشارہ صرف جنگل کی طرف ہے اور پاکستان ہرگز جنگل نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے جنگل اور عوام کو جانور سمجھ رکھا ہے ووٹ دینے والا جانور۔ یہ ایک محاورہ ہے ''تنگ آمد بجنگ آمد'' اور ان لوگوں نے عوام کو بہت تنگ کردیا ہے۔ عوام کی رگوں سے خون نچوڑ کر خاندان کو عیاشیاں کروا رکھیہیں۔ کورٹ میں شاہی قافلہ۔ کورٹ نے کہہ دیا نہ آؤ وکیل بھیجو مگر زبردستی حاضری سیاست چمکانے کے لیے۔

مجھے نہ جانے کیوں یقین ہے کہ اب عوام مزید ظلم برداشت نہیں کریں گے۔ اپنے عقیدے اور رسم و رواج کے خلاف سازشیں برداشت نہیں کریں گے، پنجاب بڑا صوبہ ہے اس کے بل پر یہ حکومت کرتے رہے مگر وہاں بھی مخصوص علاقے ترقی پاسکے بقیہ پنجاب ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔ مفلسی، بے روزگاری، بے اندازہ ٹیکس، غنڈہ گردی اور شنوائی نہ ہونے نے پورے پاکستان کو متاثر کیا ہے۔ پنجاب کو خصوصاً پندرہ بھی خوب وڈیروں کی گرفت میں ہے اور عوام ان کے پنجوں میں، زرداری راج ہے کوئی سننے والا نہیں۔ شہر کچرے کا ڈھیر ہیں اور سب اچھا کا راگ دونوں پارٹیاں الاپ رہی ہیں۔

بلوچستان سرداروں کے نرغے میں ہے ہمیشہ کی طرح اور وہاں کے عوام گوادر کو دیکھ رہے ہیں، مگر ان کو کچھ نہیں ملنے والا۔ سارا سونا چاندی سرداروں کا ہے وہی ان کی تقدیر کے مالک ہیں۔ خیبرپختونخوا کو عمران خان کب تک بچائے گا۔ سازشیں جاری ہیں اور عوام کے خلاف اتحاد بننے جا رہا ہے تاکہ اقتدار چھین لیا جائے۔

شکار پھر عوام اور شکاری سیاستدان، لارے، جھوٹے وعدے، دھمکی، دھونس جو چکر بھی چلے چلاؤ اور عوام کا شکار کرو اس مقصد کے لیے یہ سب ایک ہیں۔ بہت کم دیانتدار ہیں۔ اور جو ہیں ان کا کیا ہوگا، ہمارا نظام اور حکومت اس امریکی تھوپے پر چلتے ہیں To be corrupt is not a art the art is to make others corrupt۔ یعنی بے ایمان دھوکے باز Currupt ہونا کوئی کمال نہیں ہے۔ کمال یہ ہے کہ دوسروں کو کرپٹ بنایا جائے۔ امریکا صدق دل سے ساری دنیا میں اس پر عمل کر رہا ہے اور اس کے چمچوں میں سے کچھ پاکستانی حکمران اس پر عمل کر رہے ہیں اپنے امام کی طرح۔

جنگلی بھینسوں کے ریوڑ پر جب شیر شب خون مارتے ہیں تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں اور اپنی آیندہ نسل کو بچانے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ ہرنی بھی کمزور ہونے کے باوجود حوصلے سے کھڑی رہتی ہے اور شیر کو بھاگنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔اگر یہ ملک جنگل ہے، اگر ایسا ہے، تو بھیڑیوں سے اپنی قوم کو بچانا سب کا فرض ہے۔ جنگل کی طرح جمہوریت کا بھی ایکو سسٹم ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ رنگ، نسل، زبان، عقیدے کے بتوں کو توڑ کر ووٹ کے ہتھیار سے ملک اور قوم کو بچانا ہے۔ جرس کارواں سنو ایک ہو جاؤ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں