مشرف بہ مقابلہ ایم کیو ایم
12 مئی 2007 ء جو کراچی کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، اس روز جنرل پرویز مشرف ایم کیوایم کے پشتی بان تھے
ہمارے یہاں ملک اور قوم کے لیے نسخۂ شفا آمر ہی لکھتے رہے اور یہ بھی وہی تھے جن میں سے دو نے خود نوشت لکھی ۔ جنرل ایوب خان ''جس رزق سے آتی ہو'' کے مصنف کہلائے ، یحییٰ خان ' ایں دفترِ بے معنی غرقِ مے ناب اولیٰ' کی تصویر تھے انھیں کسی کام کی فرصت نہ مل سکی ۔
جنرل ضیاء الحق کو موت کے فرشتے نے مہلت نہ دی ۔ بریگیڈیر صدیق سالک جو ان کے کارہائے نمایاں لکھنے والے ممکنہ وقایع نویس ہوسکتے تھے ، وہ بھی جنرل ضیاء کے ہمراہ گئے۔ رہ گئے جنرل پرویز مشرف تو انھوں نے اپنے دورِ اقتدار میں ہی ''In the Line of Fire'' تحریر کرلی تھی اور اس کی رونمائی کے لیے امریکا بھی تشریف لے گئے تھے۔ وہ فور اسٹار جنرل تھے۔ 1999ء میں انھوں نے جمہوریت اور جمہوری حکومت پر شب خون مارا ۔ ابتدا میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے اور پھر 2001 ء سے 2008ء تک خود کو صدر کے عہدے پر فائز رکھا۔ 2008 ء میں انھوں نے اس وقت صدارتی عہدے سے استعفیٰ دیا جب ان کے سر پر مواخذے کی تلوار لٹک رہی تھی۔
اپنے دور صدارت میں انھوں نے متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے کئی سیاسی کارکنوں کو معافی دی اور ایم کیو ایم کو حکومت میں مرکزی کردار ادا کرنے کی چھوٹ دی ۔11ستمبر 2009 کو ٹوئین ٹاور پر ہونے والے حملے کے بعد جب امریکا نے ان سے دہشت گردی کی جنگ کے خلاف معاونت کے لیے کہا تو جنرل مشرف نے افغانستان پر امریکی حملے میں وہ تعاون بھی پیش کردیا جو امریکیوں نے پاکستانیوں سے طلب نہیں کیا تھا۔ یوں وہ امریکی صدر اور سٹبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔
ادھر پاکستان میں آج تک ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ جنرل مشرف، افغانستان سے دہشت گردی کی جنگ کوکھینچ کر پاکستان کی سرحدوں کے اندر لائے۔ یوں انھوں نے پاکستان کو دہشت گردوں کے لیے ایک ایسی جگہ بنا دیا جہاں وہ پناہ لے سکتے تھے اور جہاں نقل وحرکت کرنا یا پاکستانی شہریوں کو سہولت کار بنانا، طالبان کے لیے بہت آسان تھا ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدارکی خاطر پاکستان کو منشیات اور کلاشنکوف کا 'تحفہ' دیا اور جنرل پرویز مشرف امریکیوں کو خوش کرنے کی خاطر اُس دہشت گردی اور خودکش دھماکوں کا 'تحفہ' لے کر آئے جس نے ہزاروں پاکستانیوں کی جان لی اور ملک کی پیشانی پر 'دہشت گرد' کا کلنک لگا دیا ۔ ان کا مستعفی ہو کر پاکستان سے جانا اور پھر بلند آہنگ دعوؤں کے ساتھ پاکستان آنا ہم سب ہی کو یاد ہے ۔ وہ سیاست میں بھرپور حصہ لینے کی خواہش اور عزم رکھتے تھے ۔
اسی لیے انھوں نے جون 2010ء میں آل پاکستان مسلم لیگ بنائی اور اس کے سربراہ کے طور پر پاکستان واپس آئے۔ ان کا خیال تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ان سے لاکھوں روپے لینے والوں نے انھیں یقین دلایا تھا کہ وہ جب کراچی پہنچیں گے تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کا انتظار کر رہا ہوگا۔ عوامی سمندر تو دورکی بات ہے جب وہ کراچی پہنچے تو وہاں چند سو افراد کے سوا کچھ بھی نہ تھا ۔ یہ صورتحال جو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی، ان کے لیے ناقابلِ یقین تھی۔ کراچی آنے کے تین برس بعد ان کی واپسی کا راستہ اس وقت کے جنرل راحیل شریف نے ہموار کیا جن کے لیے شکر گزاری کا اظہار وہ ایک نہیں کئی انٹرویوز میں کرچکے ہیں ۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج اپنے ایک سابق سربراہ کے مواخذے کو کسی طور برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ اس طرح ایک ایسی نظیر قائم ہوجاتی جو آنے والے دنوں میں فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کے لیے مسئلہ بن سکتی تھی۔
آج جنرل مشرف اس لیے یاد آرہے ہیں کہ دو دن پہلے انھوں نے کراچی میں اپنی جماعت اے پی ایم ایل کے جلسے سے خطاب کیا ۔ یہ جلسہ لیاقت آباد دس نمبر کے فلائی اوور پر ہوا۔ اس جلسے میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم خیال لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر ہم ایک ایسا اتحاد بنا رہے ہیں جو اقتدار میں آکر عوام کے مسائل حل کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم مہاجروں کے نام پر ایک دھبہ ہے۔ کراچی پاکستان ہے۔ اس شہر میں سندھی، مہاجر، پٹھان، بنگالی، پنجابی، بلوچی سمیت تمام قومیت کے لوگ آباد ہیں ۔ کراچی کے لوگوں کو استعمال کیا گیا۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میں صدر، آرمی چیف رہ چکا ہوں ۔ مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں ۔ پاکستان کی ترقی کا سوچتا ہوں ۔کراچی میں لاشوں کی سیاست ہوتی تھی۔ خاندان کے خاندان تباہ ہوگئے۔ میں بھی مہاجر ہوں لیکن میں اپنے آپ کو مہاجر نہیں سمجھتا۔ میں سب سے پہلے پاکستانی ہوں ۔ مہاجر ایک پڑھی لکھی قوم ہے ۔
ایم کیو ایم نے مہاجروں کو تباہ کردیا ۔ اے این پی نے کٹی پہاڑی میں پٹھانوں کو اسلحہ دیا۔ ایم کیو ایم نے مہاجروں کو اسلحہ دیا ۔ پیپلز پارٹی نے اپنے لوگوں کو اسلحہ دیا۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑایا۔ ہمیں اس سیاست سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑے گا۔ کراچی کے لوگ باشعور ہیں۔ وہ میرا ساتھ دیں۔ ہم پیپلز پارٹی کا مقابلہ کریں گے۔ اب جو اتحاد بنے گا اس کو نیا نام دیا جائے گا۔ اور ہماری کوشش ہوگی کہ ہم حکومت بنائیں۔ ہم کراچی سمیت ملک بھر کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہم تعلیم صحت، امن و امان اور دیگر مسائل کو حل کریں گے۔ اس لیے میں عوام کو کہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ چلیں تاکہ ہم حکومت بنا کر عوام کے مسائل حل کرسکیں۔ جو بھی سمجھتا ہے کراچی سندھ نہیں ہے وہ غلط سمجھتا ہے۔ کراچی ہمیشہ سندھ کا حصہ رہے گا۔ سندھ کے دیہی اور شہری علاقے ایک ہونا چاہئیں۔ آپ 'را' کے ایجنٹ، ٹارگٹ کلر، بھتہ خور اور دہشت گرد کہلائے۔ کسی کے ماتھے پر نہیں لکھا کہ وہ شریف آدمی ہے۔ ان دھبوں سے میں آپ کو باہر نکالوں گا۔ پیپلز پارٹی سندھ، مسلم لیگ (ن) پنجاب، اے این پی پٹھان کے لیے ہے۔
ان کی یہ تقریر پڑھ کر مجھے نومبر 2017 ء کا ان کا بیان یاد آیا جس میں انھوں نے ایک ایسے سیاسی اتحاد کا اعلان کیا تھا جس میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کو شمولیت کی دعوت دی گئی تھی، انھوں نے کہا تھا کہ وہ تمام جماعتیں جو مہاجروں کی نمایندگی کرتی ہیں انھیں متحد ہوجانا چاہیے۔ اپنے اس بیان میں عمران خان پر تنقید کی تھی کہ وہ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ انھوں نے عمران کو بھی دعوت دی تھی کہ وہ ان کے اس اتحاد میں شامل ہوجائیں۔ ان کے اس بیان میں ان جماعتوں کا بھی نام دیا گیا تھا جو جنرل پرویز مشرف کے 23 رکنی جماعتی اتحاد میں شامل ہوں گی۔
11 نومبر2017ء کے اس بیان کو دہرانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ 7جنوری 2018 ء کو انھوں نے لیاقت آباد میں جو تقریر کی ہے اس میں ایم کیو ایم کے نام کو ایک دھبہ قرار دیا ہے۔ 11 نومبر 2017ء کو وہ جس جماعت کو اپنے سیاسی اتحاد کا حصہ بننے کی دعوت دے رہے تھے، 7 جنوری یعنی دو ماہ سے بھی کم کی مدت میں اس کو مہاجروں کے نام پر دھبہ قرار دیا ہے۔
اس سے بہت پہلے اپنے دورِ اقتدار میں وہ ایم کیو ایم کے ہمدرد بلکہ سرپرست سمجھے جاتے تھے اورکوئی بھی آج 12 مئی کی ان خبروں اور فلموں کو نہیں بھولا ہے جن میں اسلام آباد میں ہونے والی '' استحکام پاکستان ریلی'' سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کا مکّہ بنا کر لہرایا تھا ۔ یہ وہ گھڑی تھی جب کراچی میں آگ لگی ہوئی تھی، شہر گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے گونج رہا تھا، ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی ۔ اس وقت کے چیف جسٹس کراچی ائیر پورٹ پر محصور تھے اور آخر کار انھیں واپسی کا سفر اختیارکرنا پڑا تھا ۔کراچی جل رہا تھا اسی گھنٹہ گھڑی اس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے مکّے لہراتے ہوئے کہا تھا ''دیکھ لیا جائے۔ یہ عوام کی طاقت ہے۔''
12 مئی 2007 ء جو کراچی کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، اس روز جنرل پرویز مشرف ایم کیوایم کے پشتی بان تھے۔ 11 نومبر 2017 ء کو نئے سیاسی اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے وہ ایم کیو ایم ۔ پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کو اس اتحاد میں شمولیت کی دعوت دے رہے تھے اور دو ماہ سے بھی کم کی مدت میں 7 جنوری 2018ء کو وہ اعلان کررہے تھے کہ ایم کیو ایم مہاجروں کے دامن پر سیاہ دھبہ ہے۔
جنرل پرویز مشرف نسیان کے مریض تو یقیناً نہیں ہیں لیکن وہ نیم حکیم ضرور ہیں۔ وہ لوگ جو خود کو ابھی تک مہاجر کہتے اور سمجھتے ہیں انھیں سوچنا چاہیے کہ ایک سابق آمر نے انھیں پہلے اپنے اقتدار اور جمہوریت کے خلاف استعمال کیا اور آج بھی وہ انھیں جمہوری عمل کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔فوجی آمر کے پاس سیاسی دانش نہیں ہوتی کیونکہ یہ اس کا شعبہ نہیں ہے۔ جناب کے پاس یہ دانش ہوتی تو وہ اس ایم کیو ایم کو ایک دھبہ نہ کہتے جسے وہ ماضی میں استعمال کرتے رہے تھے، بلکہ کسی اور لفظ کا انتخاب کرتے ۔