امریکا کا روشن رخ
ہم ٹرمپ کے بجائے امریکی معاشرے کے اسی پروفائل کو سامنے رکھیں۔
بلاشبہ کسی قوم کے افراد ہی مل کر اس کا چہرہ بناتے ہیں بعض اوقات کوئی ایک فرد اس چہرے کے مجموعی تاثر کو اپنی موجودگی کے رنگوں سے اس طرح بگاڑتا ہے کہ وہ پہلے سے مختلف دکھائی دینے لگتا ہے مگر یہ ایک وقتی اور لمحاتی کیفیت ہوتی ہے کہ اس قوم کے زندہ ضمیر لوگ خود اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور کھل کر اعلان کرتے ہیں کہ وہ نہ تو اس متذکرہ فرد کے قول و فعل کے حامی ہیں اور نہ ہی اس کی تائید کرتے ہیں اور یہ کہ وہ ظلم اور بے انصافی کو ناپسند کرتے ہیں چاہے اس سے ان کی قوم کو دنیاوی حوالے سے کتنا ہی فائدہ کیوں نہ پہنچ رہا ہو۔
امریکا آج کل اسی طرح کے ایک بحران سے گزر رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نامی ایک شخص نے اپنے ملک کے روشن اور خوب صورت چہرے کو بہت تھوڑی مدت میں بری طرح سے دھندلا کے رکھ دیا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی ضرور اٹھتا ہے کہ یہ سب لوگ اس وقت کہاں تھے جب یہ شخص اقتدار کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور ووٹرز کی اکثریت اس کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کر رہی تھی!
میڈیا کے فروغ اور ہمہ جہت رسوخ نے آج کے تاریخ نگاروں اور سماجی امور کے ماہرین اور طالب علموں کو یکساں طور پر پریشان کر کے رکھ دیا ہے کہ کارپوریٹ کلچر اور سیاست اور سماج کے خود ساختہ ٹھیکے داروں نے کسی چیز کو اس کے اصل اور جائز مقام پر رہنے ہی نہیں دیا۔
پہلے یہ عام آدمی کو تانگے میں جوتے جانے والے گھوڑے کی طرح خبروں کے دائرہ نما ریگ زار میں دوڑا دوڑا کر اس کے سمتوں کے احساس کو ختم کرتے ہیں اور پھر کسی ایک رنگ کے کھوپے چڑھا کر اس کو اپنے اشاروں پر اس طرح چلانا شروع کر دیتے ہیں کہ اس کو اپنی بے سمتی کا احساس ہی نہیں ہوتا اور چونکہ یہ سب کچھ اس کی فلاح' ترقی' حفاظت اور خوش حالی کے نام پر کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کا ضمیر بھی جاگنے کی زحمت نہیں کرتا اور یوں جیتے جاگتے انسان کٹھ پتلیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ایسی کٹھ پتلیاں جو خود کو تماشائی سمجھتی ہیں اور نہیں جانتیں کہ وہ حقیقت میں خود تماشے کا حصہ بن چکی ہیں۔
ٹرمپ امریکا کا صدر کیوں اور کیسے بنا یہ ایک بہت طویل اور الجھی ہوئی کہانی ہے۔ امریکا کے سپر پاور ہونے اور انسانی ترقی کے ہر شعبے میں اس کے مرکزی کردار کو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے' ایسی باصلاحیت اور باعمل قوم نے ایسا غلط اور انسانیت دشمن فیصلہ کیوں اور کیسے کیا، یہ بھی اپنی جگہ پر ایک پیچیدہ اور مشکل سوال ہے۔ ان دونوں باتوں پر اس وقت دنیا بھر کے سیانے غوروفکر میں مبتلا ہیں لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ اس میدان میں بھی امریکا ہی سب سے آگے ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس قوم کو جو عزت اور مقام ملا ہے وہ واقعی اس کی حق دار ہے۔
ٹرمپ ایک طرح سے امریکنوں کے لیے ''درپردہ نعمت'' یعنی Blessing in disguise بھی ثابت ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے ان کا نیم خوابیدہ ضمیر پھر سے بیدار ہونا شروع ہو گیا ہے۔
دنیا بھر میں امریکی حکومت کی طرف سے روا رکھی جانے والی زیادتیاں' ظلم اور بے انصافیاں اور اس پر کیا جانے والا عالمی احتجاج اور اس سے بننے والی صورتحال سب اپنی جگہ بجا' درست اور قابل تحسین لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ امریکی عوام کے ہر شعبے کے نمایندہ لوگوں نے جس طرح سے ان پر تنقید کی ہے اور اس کی تکذیب کرتے ہوئے نہ صرف اپنے آپ کو اس سے الگ کیا ہے بلکہ اپنے معاشرے سمیت دنیا بھر کو یہ احساس بھی دلایا ہے کہ ظلم کے مقابلے میں آواز نہ اٹھانے اور خاموش رہنے والا بھی اصل میں ظالم کا ساتھی ہوتا ہے اور آگے چل کر اس طرح کی خاموشی کا تاوان نسل در نسل دینا پڑتا ہے اور یہ کہ اس کی سزا صرف آج کے امریکی پالیسی سازوں کو ہی نہیں بلکہ پوری امریکی قوم کے ہر فرد پر لاگو ہوگی اور اس کا اطلاق ان کے ضمیر پر ہی نہیں بلکہ ان کی زندگیوں پر بھی ہو گا کہ برا عمل چاہے چند لوگوں کا ہی کیوں نہ ہو اس کا ردعمل پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پر امریکی معاشرے کے مختلف شعبوں سے متعلق افراد کی اسی حوالے سے کئی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں ان میں فن کار بھی ہیں کھلاڑی اور لکھاری بھی' سماجیات' سیاسیات' تاریخ اور نفسیات کے اساتذہ اور اسکالرز کے ساتھ ساتھ اسٹیج' میڈیا اور شوبز کے نمایندے اور عام آدمی کے ترجمان بھی۔کچھ کے نام اور چہرے پہلے سے آشنا تھے لیکن بیشتر کا تعارف ان کی اس سوچ اور پیغام کی معرفت ہوا جس نے نہ صرف میری طرح بے شمار لوگوں کے دلوں میں امریکا کی عزت کو بحال کیا ہے بلکہ امریکی معاشرے کے چہرے کا وہ رخ بھی کھل کر سامنے آیا ہے جو اس کی عزت اور نیک نامی کا صحیح معنوں میں ترجمان ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ٹرمپ کے بجائے امریکی معاشرے کے اسی پروفائل کو سامنے رکھیں کہ اصل امریکا ٹرمپ کے ٹویٹ نہیں بلکہ خود تنقیدی کے یہ شاندار اور بروقت مظہر ہیں جن سے امریکی عوام کی وہ اخلاقی اور فکری عظمت ظاہر ہوتی ہے جس نے اس قوم کو وہ بلندی عطا کی ہے جو قابل رشک بھی ہے اور لائق تقلید بھی۔
جس اعتماد' سچائی' جرات اور انصاف پسندی سے ان نیک دل اور خوش خیال لوگوں نے ظلم کے خلاف احتجاج اور انسانی حقوق کی حمایت اور حفاظت کے لیے اپنی آواز بلند کی ہے اس کا اولین تقاضا یہی ہے کہ نہ صرف ان کا کھل کر ساتھ دیا جائے بلکہ امریکی عوام کو ان کی حکومت سے الگ کر کے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ وہ اپنی سیف زون سے نکل کر ان اقدار اور خلق خدا کے ساتھ کھڑے ہیں جہاں ہر طرف خطرہ ہی خطرہ ہے۔
ٹرمپ کی سوچ اور عمل سے ان کا یہ انحراف اور اعلان بریت صرف امریکا کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک روشن مثال اور مثبت اقدام ہے کہ اس کی بنیاد وہی حق پرستی ہے جو رنگ' نسل' زبان' قوم یا کسی بھی اور طرح کی تقسیم سے بالاتر ہو کر ہم سب کا اجتماعی ورثہ اور مشترکہ لائحہ عمل ہے۔