عورتوں اور مردوں کی تنخواہ برابر۔۔۔۔

آئس لینڈ، قانون نافذ کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔


غزالہ عامر January 11, 2018
خواتین ملازمین عمومی طور پر اپنے مرد ہم منصبوں کی نسبت کم تنخواہ پاتی ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

دنیا کے بیشتر ممالک میں خواتین کو صنفی عدم مساوات کا سامنا ہے۔ بیشتر معاشروں میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں۔ اس ضمن میں حقوق نسواں کی تنظیموں کی جانب سے گاہے بگاہے رپورٹیں بھی شایع ہوتی رہتی ہیں۔

تیسری دنیا میں عورتوں کے مساوی حقوق کا تصور محدود سطح پر پایا جاتا ہے مگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس حوالے سے صورت حال تسلی بخش نہیں۔ وہاں بھی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور انھیں کم تر سمجھا جاتا ہے۔ گھر سے لے کر دفتر اور زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین وہاں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی ہیں۔ تاہم ہر جگہ ان کے ساتھ امتیازی رویہ عام ہے۔ تنخواہوں کے سلسلے میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ خواتین ملازمین عمومی طور پر اپنے مرد ہم منصبوں کی نسبت کم تنخواہ پاتی ہیں۔

حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں خواتین کے دیگر حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں مساوی تنخواہوں کی ادائیگی کا مطالبہ بھی کرتی رہتی ہیں۔ تاہم اب تک کسی حکومت نے ان کی فریاد پر کان نہیں دھرے تھے۔ آئس لینڈ خواتین کے اس دیرینہ مطالبے کو قانونی شکل دینے والا اولین ملک بن گیا ہے۔ نئے سال کے پہلے دن سے یورپی ملک میں مردوخواتین کی مساوی تنخواہ کا قانون لاگو ہوگیا ہے۔ اب تمام فیکٹریوں ، کمپنیوں اور مختلف اداروں میں ملازم خواتین مرد ملازمین کے برابر تنخواہ لینے کی حق دار ہوگئی ہیں۔

نئے قانون کے تحت تمام کمپنیاں اور سرکاری ایجنسیاں جن کے ملازمین کی کم از کم تعداد 25 ہو، انھیں حکومت سے مساوی تنخواہ کی پالیسی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوگا۔ یہ سرٹیفکیٹ اس بات کا ثبوت ہوگا مذکورہ ادارے میں تنخواہوں کے معاملے میں مردوزن میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ سرٹیفکیٹ متعلقہ سرکاری محکے کی جانب سے چھان پھٹک کے بعد جاری کیا جائے گا۔ جن اداروں میں عورتوں کو مرد ملازمین کے برابر تنخواہ دینے کی پالیسی نہیں ہوگی، ان پر جرمانے عائد کیے جائیں گے۔

ورلڈ اکنامک فورم ( ڈبلیو ای ایف) مطابق صنفی مساوت کے لحاظ سے آئس لینڈ پہلے نمبر پر ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہاں صنف کرخت اور صنف نازک کو عملاً مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اب نیا قانون نافذ ہوجانے کے بعد جو تھوڑی بہت کسر تھی وہ بھی پوری ہوگئی ہے۔

سوا تین لاکھ آبادی کے حامل آئس لینڈ کی پارلیمان میں نصف اراکین خواتین ہیں۔ مساوی تنخواہ کے بل کو حکومتی اور حزب اختلاف کے اراکین نے متفقہ طور پر حمایت کی تھی۔

آئس لینڈ کی ویمن رائٹس ایسوسی ایشن نے قانون کے نفاذ پر اظہار مسرت کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے بورڈ آف ڈائریکٹر کی رکن آراڈوٹر پنٹ نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ صنفی عدم مساوات کے خاتمے کی جانب یہ اہم قدم ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں