دینی پیغامات میں بے احتیاطی افسوس ناک اور غور طلب پہلو

آج کل بعض بے بنیاد باتوں کو سوشل میڈیا پر قرآن و حدیث کا درجہ دیا جانے لگا ہے۔


اگر کسی نے دین میں افراط و تفریط کرکے اسے پھیلایا تو وہ صرف گناہ نہیں، بل کہ گناہِ عظیم ہوجاتا ہے۔ فوٹو: رائٹرز / فائل

اللہ تعالیٰ سچ بولنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیتے ہیں اور جھوٹ بولنے سے سختی کے ساتھ منع فرماتے ہیں۔ لیکن اگر کسی نے دین میں افراط و تفریط کرکے اسے پھیلایا تو وہ صرف گناہ نہیں، بل کہ گناہ عظیم ہوجاتا ہے۔ دین اسلام کی بنیاد محکم، مضبوط، معتبر، معتمد اور مستند ہے، اس میں کم زور، مشکوک، اٹکل پچو، تُک بندی، اندازے اور تخمینے نہیں چلتے۔

اسلام پر ایمان اور اس کے احکامات پر عمل کا مدار قرآن کریم کے بعد احادیث مبارکہ ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ، معانی، مفہوم، تعیین ، مراد اور حقیقت احادیث مبارکہ سے سمجھی جاسکتی ہیں۔ اس لیے یہاں سخت احتیاط کا حکم دیا ہے۔ علمائے امت نے احادیث کے الفاظ، معانی، مفہوم، متون، اسناد، رواۃ (نقل کرنے والے افراد) صحت و ثقاہت، اس کی ضرورت، حجیت، حفاظت، جمع و تدوین کے ساتھ اس کے اصول و قواعد، اقسام و اسلوب اور روایت کرنے کے آداب و شرائط کو مکمل تفصیل، خوب تحقیق اور عمدہ ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے، اس کی حفاظت کے لیے اسماء الرجال اور جرح و تعدیل جیسے علوم کو ضروری قرار دیا تاکہ اسلام کی یہ بنیاد مضبوط ہی رہے۔

چوں کہ یہ اسلام کی بنیاد ہے اس لیے اس کی اشاعت، حفاظت، تعلیم و تبلیغ اور تفہیم میں علمائے کرام نے بہت محنت سے کام کیا ہے، محدثین اور کتب احادیث کے مختلف طبقات مقرر کیے گئے۔ یہ معاملہ اس قدر نازک اور حسّاس ہے کہ اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات یا کام کی نسبت جھوٹ کے طور پر کردے، یعنی بات واقعتا درست بھی ہو لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد نہ فرمائی ہو یا کام بل کہ درست اور جائز ہو لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہ فرمایا ہو اور کوئی شخص اپنی طرف سے اس بات یا کام کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دے تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : '' جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے (میری طرف کسی کام یا کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے) تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے۔''

(صحیح بخاری، باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث نمبر 74)

نوٹ :اس مفہوم کی حدیث حضرت علی المرتضی، حضرت انس، حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت سلمہ بن اکوع، حضرت سمرہ بن جندب اور دیگر بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے۔

ہاں سچی بات ضرور کہی جائے لیکن جو حدیث نہ ہو اسے زبردستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بنا کر پیش نہ کیا جائے، یہ طرز عمل جہنم میں جانے کا سبب ہے۔ آج علمی زوال اور اخلاقی انحطاط اور عملی فقدان کا زمانہ ہے، عقائد میں کم زوریاں اور توہمات دَر آئے ہیں، اعمال میں بدعات و رواج گھس آئے ہیں، اخلاق، رسمِ محض اور اخلاص سے دل خالی ہوچکے ہیں۔ بے دینی کا مسافر لادینی کو اپنی منزل کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ ایسے میں دینی علم و عمل سے عاری اور اخلاق و اخلاص سے خالی جاہل طبقے نے اسلام کو مشق ستم بنا رکھا ہے۔

موسم کے مطابق دین کے نام پر میسیجز بناتے ہیں، نہ کسی معتبر عالم دین سے اس کی راہ نمائی لیتے ہیں اور نہ ہی معتبر کتب کی طرف مراجعت کرتے ہیں، بس ایک شوشہ چھوڑتے ہیں اور لاعلمی کی بنیاد پر ایک جھوٹی بات کو العیاذ باللہ حدیث بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور اس کے بعد میسج بنا کر پھیلا دیتے ہیں، پھر عوام ا س کو دھڑا دھڑ دین سمجھ کر آگے پھیلاتے ہیں۔

مثال کے طور یہ میسج چلایا جاتا رہا ہے :

'' ربیع الاول شروع ہونے والا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سب سے پہلے کسی کو ربیع الاول کی مبارک دی اس پر جنت واجب ہوگئی۔ ''

جس مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی پیدائش ہوئی یقینا وہ مہینہ محترم ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس مہینے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے جھوٹی اور بے بنیاد بات کو حدیث بنا کر پیش کیا جائے۔ پھر ستم یہ ہے کہ سادہ لوح مسلمان اسے دین کا حکم سمجھ کر آگے پھیلاتے ہیں، میسج کے آخر یا شروع میں یہ بھی اضافہ کیا جاتا ہے کہ یہ میسج اور پوسٹ اتنے لوگوں کو بھیجیں، مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اسے لائک اور شئیر ضرور کریں، اتنے لوگوں کو فارورڈ کریں گے تو خوشی ملے گی، اور اگر اس کو آگے نہ پھیلایا تو کوئی ناگہانی آفت اور صدمہ پیش آئے گا۔

یاد رکھیں! شریعت اسلامیہ کی یہ تعلیمات ہرگز نہیں۔ دین اسلام کو پھیلانے کا حکم محض دس بارہ افراد تک محدود نہیں، بل کہ جہاں تک انسان کی دست رس ہے وہاں تک دین کی صحیح، ثابت شدہ اور اہل اسلام میں قابل عمل بات پر خود بھی عمل کرے، کسی معتبر کتب سے دین کا مسئلہ خود پڑھے دوسرے کو بھی پڑھائے، خود کسی معتبر عالم دین سے مسئلہ سیکھے دوسرے کو بھی سکھائے، اس میں قباحت نہیں لیکن نہ تو دین کی معتبر کتب کا کچھ پتا ہو اور نہ ہی اسلام کی مقتدر شخصیات سے راہ نمائی لے بل کہ سوشل میڈیا پر چلتے پھرتے جھوٹے اور غیر ثابت شدہ میسجز کو دین سمجھ کر آگے پھیلاتا رہنا انجام کے اعتبار سے خسارے والی بات ہے۔

جو باتیں احادیث کی کتب میں صحیح طور پر منقول ہیں ان کو ضرور نقل کیا جائے اور ان سے سبق حاصل کیا جائے، لیکن اعتدال اور حق سچ کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہر بات کو زور زبردستی کرکے کسی کی طرف غلط منسوب نہیں کرنا چاہیے۔

اسلامی مہینوں میں ربیع الاول، رمضان المبارک، محرم الحرام، صفر المظفر، رجب المرجب اور شعبان المعظم میں بے بنیاد اور جھوٹے میسیجز بہت پھیلائے جاتے ہیں، اس سے بچنے کا آسان سا طریقہ یہ ہے کہ وہ میسج چند علمائے دین کی اس غرض سے بھیجیں کہ وہ اس بارے آپ کی راہ نمائی فرمائیں۔

یہ درست ہے کہ بعض علماء کی تعلیمی، تدریسی، تصنیفی، تبلیغی اور تحریکی مصروفیات ہوتی ہیں ان کی علمی و عملی مشغولیت کا احترام کریں، انہیں مجبور نہ کریں ، بل کہ ایسے علماء جن کے بارے میں آپ کو معلوم ہو کہ وہ اس وقت اس قدر مصروف نہیں ہوں گے اور اس سے علیک سلیک بھی ہو تو ان سے فون کر کے پوچھ لیں، میل کرکے پوچھ لیں، ڈاک کے ذریعے پوچھ لیں، واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئیٹر اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوچھ لیں، باجماعت نماز کے بعد، نماز جمعہ کے بعد یا پھر ان سے وقت لے کر ملیں اور سائل بن کر پوچھ لیں۔ علماء کی مذہبی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عوام کی اس بارے راہ نمائی کریں۔

بعض لوگوں کی یہ عادت بہت بُری ہوتی ہے کہ وہ علماء پر اپنا علم باور کرانا چاہتے ہیں، یا علماء سے مقابلے کی صورت پیدا کر لیتے ہیں۔ ایسے شخص کے بارے حدیث مبارک میں بہت سخت وعید آئی ہے۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، مفہوم : '' جو شخص علم (دین) اس لیے سیکھے تاکہ اس کے ذریعے سے علماء سے جھگڑا کر سکے، تو اللہ تعالی ایسے شخص کو جہنم کی آگ میں ڈالے گا۔

(جامع الترمذی، باب ما جاء فی من یطلب بعلمہ الدنیا، حدیث نمبر 2578)

اس لیے سائل بن کر سچی طلب کے ساتھ پوچھنے میں قباحت نہیں لیکن بلاوجہ ان کو تنگ کرنا قطعاً درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین پر چلنے اور گم راہیوں سے بچنے کی توفیق دے۔ بے بنیاد اور جھوٹے پیغامات پھیلانے سے ہماری حفاظت فرمائے۔ ہمارے معاشرے کو جہالت سے محفوظ فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں