وہ شاعر جو مٹی کے کھلونے بیچتا تھا دوسری قسط

حسرت جے پوری نے بمبئی میں جب پہلے کسی مشاعرے میں شرکت کی تھی انھوں نے ایک درد بھری نظم پڑھی تھی۔


یونس ہمدم January 13, 2018
[email protected]

فلم ''آہ'' محبت کی ایک المناک کہانی تھی۔ راجہ کی آئے گی برات والا گیت شیلندر نے لکھا تھا اور خوشی کے اس گیت میں غم کی تصویر بنی اداکارہ نرگس نے بے مثال اداکاری کی تھی اور اپنی اداکاری سے فلم بینوں کو رلادیا تھا مگر فلم کا وہ گیت جو حسرت جے پوری نے لکھا تھا وہ سارا کا سارا گیت درد میں ڈوبا ہوا تھا اس گیت کا ایک ایک لفظ دو ٹوٹے ہوئے دلوں کی کہانی بیان کر رہا تھا گیت کے بول تھے:

آجا رے اب میرا دل پکارا

رو رو کے غم بھی ہارا

اس گیت کو سن کر فلم بینوں کے اپنے دل بھی درد و غم سے بھر جاتے تھے اور یہی حسرت جے پوری کے گیت کا کمال تھا۔ حسرت جے پوری اب صف اول کے کامیاب نغمہ نگاروں میں شامل ہوچکے تھے۔ بمبئی کی فٹ پاتھ پر مٹی کے کھلونے بیچنے والے شاعر کے پاس اب سب کچھ تھا۔ شہرت، دولت، بنگلہ، گاڑی اور اب وہ ایک عدد بیوی کا شوہر بھی بن چکا تھا مگر پہلی محبت کی کسک اب بھی اس کے گیتوں میں نظر آتی تھی۔

یہاں ایک بات کا ذکر اور کرتا چلوں کہ حسرت جے پوری نے بمبئی میں جب پہلے کسی مشاعرے میں شرکت کی تھی انھوں نے ایک درد بھری نظم پڑھی تھی وہ نظم فٹ پاتھ پر مرنے والے اپنے ایک مزدور ساتھی کی موت پر لکھی تھی اور عنوان تھا ''مزدور کی موت'' وہ مزدور جو رات کو حسرت جے پوری کے ساتھ ہی فٹ پاتھ پر سویا تھا اور صبح اس کی ٹھٹھری ہوئی لاش ملی تھی۔ حسرت جے پوری کی دل خراش نظم نے سننے والوں کو کچھ دیر تک کے لیے سکتے میں مبتلا کردیا تھا اور وہی درد وکرب فلم آہ میں لکھے ہوئے حسرت جے پوری کے گیتوں میں نمایاں نظر آتا تھا۔

حسرت جے پوری کا وہ دور مصروف ترین دور تھا اس دوران انھوں نے فلم جاگتے رہو، جس دیش گنگا بہتی ہے، رام تیری گنگا میلی، اناڑی، پرورش، عاشق، میں نشے میں ہوں، چوری چوری، بے گناہ، نیم جی، ضدی، عمرقید، برہم چاری، سورج، سسرال، سیما، شکار، سہرا، پروفیسر اور جب پیار کسی سے ہوتا ہے جیسی سپر ہٹ فلموں کے گیت لکھے۔ ان کے فلم رام تیری گنگا میلی میں لکھے ہوئے ایک گیت کو بڑی شہرت ملی تھی اور وہ گیت تھا:

سن صاحبہ سن پیار کی دھن

میں نے تجھے چن لیا تو بھی مجھے چن

ان دنوں یہ گیت ہندوستان کے گلی کوچوں میں خوب گایا جاتا تھا، اور ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر تھا۔ اب میں آتا ہوں اس یادگار گیت کی طرف جو حسرت جے پوری نے اس وقت جب وہ اقبال حسین تھا ،اپنی ہندو محبوبہ رادھا کو ایک خط کی صورت میں لکھا تھا اور اس خط کی ابتدا کچھ اس طرح کی تھی۔ یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کہیں ناراض نہ ہونا کہ تم میری زندگی ہو کہ تم میری بندگی ہو۔ وہ گیت وقت گزرنے کے بعد بھی حسرت جے پوری کی حسرتوں میں شامل تھا۔ جب راج کپور کی فلم سنگم میں ایک محبت بھرا خط لکھنے کی سچویشن ملی تو حسرت جے پوری کی ساری پرانی حسرتیں پھر سے جاگ اٹھی تھیں وہ چند لمحوں کے لیے ماضی میں چلا گیا تھا۔ جب واپس آیا تو گیت کا جنم کچھ اس طرح ہوا تھا۔ یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کبھی ناراض نہ ہونا۔ کہ تم میری زندگی ہو کہ تم میری بندگی ہو۔

تجھے میں چاند کہتا تھا مگر اس میں بھی داغ ہے

تجھے سورج میں کہتا تھا مگر اس میں بھی آگ ہے

تجھے اتنا ہی کہتا ہوں کہ مجھ کو تم سے پیار ہے

اس گیت نے بھی اپنے زمانے میں بڑی دھوم مچائی تھی فلم سنگم میں محمد رفیع کا گایا ہوا یہ گیت راجندر کمار اور وجنتی مالا پر فلمایا گیا تھا۔ حسرت جے پوری کے گیتوں کی کشتی اب بمبئی کے دوسرے فلمسازوں کو بھی اپنی طرف کھینچ رہی تھی حسرت جے پوری نے ایک دن راج کپور سے کہا اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اب کچھ دوسرے فلم سازوں کے لیے بھی گیت لکھنا چاہتا ہوں۔

راج کپور نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ حسرت جے پوری سے کہا تھا۔ یہ تو میرے لیے بھی بڑے اعزاز کی بات ہوگی کہ میری فلموں سے شہرت پانے والا شاعر اب ہر فلمساز کے دل میں جگہ بنا رہا ہے۔ جاؤ جس فلم کے لیے چاہو لکھو، مگر میری ہر فلم تمہاری اولین ترجیح ہوگی اور اس کے بعد حسرت جے پوری پر بمبئی کی فلمیں بمبئی کی بارش کی طرح برسنے لگی تھیں اور انڈین فلم انڈسٹری میں ہر طرف حسرت جے پوری کی جے جے کار ہونے لگی تھی۔ اب میں ذیل میں ان کے لکھے ہوئے کچھ سپر ہٹ اور دلکش گیتوں کے مکھڑے پیش کر رہا ہوں۔

رسک بلما دل کیوں لگایا تو سے (فلم چوری چوری)

آج کل تیرے میرے پیار کے چرچے ہر زبان پر (فلم برہمچاری)

میں غریبوں کا دل ہوں وطن کی زباں (فلم آبِ حیات)

میں تیرے پیار میں کیا کیا نہ بنا دل بر (فلم ضدی)

پنچھی بنی اڑتی پھروں مست گگن میں (فلم چوری چوری)

بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے (فلم سورج)

تری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے چشم بد دور (فلم سسرال)

کیسی خوشی کی ہے رات بلم میرے ساتھ (فلم پونم)

مستی بھرا ہے جہاں ہم تم دونوں یہاں (فلم پرورش)

آج نہ جانے پاگل منوا کاہے کو گھبرائے (فلم بے گناہ)

اے گلبدن اے گلبدن پھولوں کی مہک کانٹوں کی چبھن (فلم پروفیسر)

احسان میرے دل پہ تمہارا ہے دوستو (فلم غبن)

تقدیر کا فسانہ جاکر کسے سنائیں (فلم سہرا)

آئے بہار بن کے لبھا کر چلے گئے (فلم راج ہٹ)

تمہارے پیار میں ہم بے قدر ہو کے چلے (فلم شکار)

دل کے جھروکے تجھ کو بٹھا کر یادوں کو تیری میں دلہن بنا کر

رکھوں گا اپنے پاس نہ ہو مری جاں اداس (فلم برہمچاری)

کھلی پلک میں جھوٹا غصہ بند پلک میں پیار (فلم پروفیسر)

قید مانگی تھی جدائی تو نہیں مانگی تھی (فلم پیار کسی سے ہوتا ہے)

اب میں آتا ہوں فلمساز راجکپور کی ایک شہرہ آفاق فلم ''میرا نام جوکر'' کی طرف، اس فلم کی خوبی اس کی منفرد کہانی، ڈائریکشن، اداکاری تو تھی ہی مگر اس فلم کا ایک گیت جو حسرت جے پوری نے لکھا تھا وہ فلم کی ہائی لائٹ تھا اور اس کے بول تھے:

جانے کہاں گئے وہ دن' کہتے تھے تیری راہ میں' نظروں کو ہم بچھائیں گے

چاہے کہیں بھی تم رہو' چاہیں گے تم کو عمر بھر ' تم کو نہ بھول پائیں گے

راجکپور نے اپنی اس بے مثال فلم پر اپنا تن من اور سارا دھن لگا دیا تھا، جس کی وجہ سے اس فلم کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ اب میں کبھی نہ بھلائی جانے والی لیجنڈ ہیرو دلیپ کمار کی فلم ''داغ'' کی طرف آتا ہوں۔ اس فلم کے ہدایت کار امیہ چکرورتی تھے یہ فلم 1952 میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ فلم سارے ہندوستان میں سپرہٹ تھی اور ایک طویل عرصے تک سینماؤں کی زینت بنی رہی تھی۔

فلم داغ کی کامیابی میں جہاں دلیپ کمار اور نمی کی لازوال اداکاری کو دخل تھا وہاں حسرت جے پوری کے گیتوں نے بھی بڑا کمال دکھایا تھا۔ ہر گیت انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ تھا۔ اور دو محبت کرنے والوں کے دل کی پکار تھا جس کو لاکھوں فلم بینوں نے بھی اس درد کی پکار کو اپنے دلوں میں محسوس کیا تھا، جیسے طلعت محمود کا گایا ہوا یہ گیت:

کوئی نہیں میرا اس دنیا میں' آشیاں برباد ہے

یا پھر یہ گیت:

ہم درد کے ماروں کا اتنا ہی فسانہ ہے

پینے کو شرابِ غم دل غم کا نشانہ ہے

اس گیت میں دلیپ کمار کی اداکاری کا بھی نشہ شامل ہوا تو اس گیت کا نشہ دوآتشہ ہوگیا تھا یا پھر اداکارہ نمی پر فلمایا ہوا حسرت جے پوری کا یہ دل میں اتر جانے والا گیت:

موت آگئی نہ آئیں گے مرنے کے بعد بھی

آنکھیں تڑپتی رہ گئیں اس انتظار میں

کاہے کو دیر لگائی رے آئے نہ اب تک بالما

ہم نے تو جان گنوائی رے آئے نہ اب تک بالما

فلم داغ انڈین فلم انڈسٹری کی ایک نہایت قیمتی فلم کا درجہ رکھتی ہے۔ اس فلم میں دلیپ کمار، نمی، امیہ چکرورتی، شنکر جے کشن اور شاعر حسرت جے پوری کی فنکارانہ صلاحیتوں پر فلم کریٹکس ایوارڈ فلم فیئر ایوارڈ اور دیگر کئی ایوارڈ سے بھی ان فنکاروں کو نوازا گیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔