ہم سب زینب کے قاتل ہیں
شکریہ زینب، تمہارے سرد دستانے والے ننھے ہاتھوں نے میرے لہو کو آتشیں جرار بنادیا اور پلٹ دی کایا میری سوچ اور گمان کی۔
یہ ہے قتل گاہ! جو میرا دیس ہے، جسے فیض زرد پتوں کا بن کہتے تھے۔ چلو آئی تو سہی زینب اپنے معصوم ہاتھوں پر سرد دستانے پہنے۔ میں نے دیکھے ہیں اس کے وہ حرارت بھرے ہاتھ بھی۔ اس کے ننھے ہاتھوں سے لکھی تحریریں۔ اس کی نوٹ بک، اس کی کتابیں اور بستہ۔ کتنے سارے خواب تھے زینب کی آنکھوں میں اور پھر کیسے کانچ کی چوڑیوں کی طرح ٹوٹ گئے، بکھر گئے اور ہواؤں میں تحلیل ہوگئے۔ مگر میں نہ سن سکا اس کی آہ و فغاں، اس کا چیخ کر اماں کو پکارنا، ہم میں سے کوئی بھی نہ سن سکا، ہم بہرے جو تھے، ہم اس بینائی سے محروم تھے۔ اور جب وہ سرد دستانے پہن کر موت کی آغوش میں چلی گئی اور کچرے کے ڈھیر میں ملی تو ہم رو پڑے، چیخ پڑے، راستوں پر ماتم کدہ بن کر نکل پڑے۔
آپ کا شکریہ، آپ نے یہ تو کیا، مگر زینب کا یوں مرنا تو جیسے یقینی تھا۔ اس وقت ہم کہاں تھے جب زینب سے پہلے دو مہینوں کے اندر بارہ ایسے حادثات ہوئے اور اسی شہر ''قصور'' میں ہوئے۔ کہاں تھے ہم! کتنی زینب اسپتالوں میں، صاف پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کے آغوش میں چلی جاتی ہیں، اس وقت ہم کہاں تھے۔ یہ تو قتل گاہ ہے، عورتوں کا مقتل، جو میرا دیس ہے۔
دنیا میں غیر یقینی حالات میں رہتے ہوئے عورت، اعداد و شمار اور رپورٹس بتاتی ہیں دنیا کے مانے ہوئے اداروں کی کہ پاکستان اس زمرے میں سب سے آگے ہے۔ میں نے کہا نا ہمیں پتا تھا کہ ہم قاتل ہیں زینب کے۔ زینب ایک رات میں نہیں مری، وہ تو روز جنم لیتی ہے اور مرتی ہے۔
حادثے اچانک جنم نہیں لیتے، حادثے لاشعور سے شعور بن جاتے ہیں۔ ہاتھوں، انگلیوں اور بازوؤں کی حرکت بن جاتے ہیں۔ وہ جو قاتل ہے زینب کا اس کے ذہن میںسب کچھ موجود تھا اور اس خیال کو مکمل ہونے کے لیے زینب کا وجود ضروری تھا، مگر وہ خیال پیدا کہاں سے ہوا۔
خیال ابھرتے ابھرتے ماحول کی گردشوں سے گھوم کر، خیالوں اور سوچوں کی لڑیوں سے بنتے بنتے حقیقت بن گیا۔ ایسے کئی خیالات بڑے اور چھوٹے جو اب بھی پنپ رہے ہیں اسی معاشرے میں، اسی قصور میں، خانیوال میں اور میرے گاؤں میں۔ شہر شہر، بستی بستی وحشی ہے، اپنے دل سے پوچھیں ہے کہ نہیں؟ ہم جو عورتوں کو گھور گھور کر دیکھتے ہیں، فقط جسم ہو جیسے، وہ انسان نہیں ہو شاید۔ وہ میرے ہوس کا ساماں ہے۔
آپ میں سے کتنے لوگ ہوں گے جو ایسا سوچتے نہیں ہوں گے، باقی سب وحشی ہیں۔ جو بھی تھا، چیف جسٹس کو یہ کہنا چاہیے تھا یا نہیں، اس کی جیورسڈکشن بنتی تھی یا نہیں، جب انھوں نے بات کو ایک کوزے میں بند کردیا کہ میں تمہاری اورنج ٹرین بند کردوں گا اگر تم نے اسپتالیں نہیں بنوائیں۔ ہم جو چیختے چلاتے کہتے تھے کہ انسانوں پر Invest کرو، جس کو ڈاکٹر محبوب الحق اور ڈاکٹر امرتاسین HDI کہتے ہیں، مگر حکمرانوں کے ذہن پر شاید شیر شاہ سوری کا گمان سوار ہے۔
اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اورنج اور گرین لائن ترقی ہے، موٹر وے ترقی ہے، مگر Developmental Science کہتی ہے کہ انسان کا انسان ہونا ترقی ہے، اس کاتعلیم یافتہ ہونا اور صحت مند سوچ رکھنا ترقی کی سمت کا تعین کرتا ہے، ورنہ قصور اور لاہور میں فرق ہی کتنا ہے، صرف آدھے گھنٹے کا سفر۔ جو بیماری قصور میں ہے وہ لاہور میں بھی ہوگی، تو یہ ترقی تو نہ ہوئی۔ بیمار دماغ بیمار معاشرے کو جنم دیتا ہے اور اگر یہ بیمار دماغوں کا مجموعہ بن جائے تو یہ میرا دیس ہے، جس کو زرد پتوں کا بن فیض کہتے تھے۔
میں نے کہا نا، حادثے اچانک جنم نہیں لیتے، زینب ایک رات میں نہیں مری، اس کی موت میں پاکستان کی ستر سال کی تاریخ موجود ہے، وہ اس رات بھی مری تھے جس رات بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں مارا گیا، جب ہم نے عورت سے حکمران بننے کا حق چھین لیا۔ فتوؤں کا بازار لگادیا، تہمتیں تھیں جو ہر عورت پر لگا دی گئیں۔ اس کو کسی اور کے خیال سے اپنی زندگی بسر کرنی ہوتی ہے، مگر عورت کوئی فرشتہ تو نہیں ہوتی، وہ ہماری طرح انسان ہے، بہو، بیٹی، بیوی، استانی ہر روپ میں عورت ہے۔ وہ اسی کوکھ سے جنم لیتی ہے، جس سے بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس طرح یکساں ہے، جیسے اس معاشرے کا ایک فرد ہے اور ہمیں اس کو ایک فرد کی ہی آنکھ سے دیکھنا ہوگا۔
نہ کم نہ زیادہ، نہ وہ فرشتہ ہے اور نہ ہی غلام ہے، وہ کوئی جنس بھی نہیں، وہ حاکم بھی نہیں اور باطل بھی نہیں، وہ کوئی حسن بھی نہیں، کیوں کہ وہ آپ کا زاویہ ہے اسے دیکھنے کا۔ وہ ایک حقیقت ہے، ایک فرد ہے بس۔ یہی وہ چاہتی ہے، وہ اسی کی طلبگار ہے اسے وہ مقام ملنا چاہیے۔ عام انسان کی طرح اسے عام نگاہوں سے جانچیے۔ یہ تمام تشریحات اور بیانیہ مردوں کا بنایا ہوا ہے۔ جب کہ پاکستان کی مجموعی آبادی میں 48 فیصد اگر مرد ہیں تو 52 فیصد عورتیں بھی ہیں اور سب کے حقوق برابر ہیں۔ اب ہم آہستہ آہستہ ان سے ووٹ دینے کا حق بھی چھین رہے ہیں۔
کبھی کبھی کوئی حادثہ زندگی کا رخ بدل دیتا ہے، یوں لگتا ہے کہ جیسے سب جاگ اٹھے ہوں۔ کہتے ہیں کہ NIETZSCHE صبح سویرے اٹھ کر روزونی سورج کی پہلی کرنوں میں خوبصورت کھیتوں اور کھلیانوں کو دیکھتا تھا اور اسی میں محو رہتا تھا، جب یورپ کو نپولین کی جنگ کے طبل کی خبر ہوئی اور ہر جگہ جب تیاریاں شروع ہوئیں تو ایک دن NIETZSCHE کے ان ہی کھیتوں اور کھلیانوں سے ایک شہسوار گزرا اور اس کے گھوڑوں کے قدموں کی دھول نطشے کے منہ پر چھا گئی، تو نطشے نے اپنی سوچ کا رخ موڑا اور کہا کہ زندگی اسی شہسوار کی طرح ہے، مسلسل جہد اور مسلسل جنگ اور مظلوم خود اپنے وجود کے لیے سزا ہے، کیونکہ وہ اپنا حق چھین کر نہیں لیتا۔
شکریہ زینب، تمہارے سرد دستانے والے ننھے ہاتھوں نے میرے لہو کو آتشیں جرار بنادیا اور پلٹ دی کایا میری سوچ اور گمان کی، میری خاموشی اب اس بات کی تصدیق ہوگی کہ میں تمہارے قاتل کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں تمہیں ڈھونڈوں گا زینب، ہر بچی کی آنکھ میں جو کم غدائیت اور شفاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے اور شاید کئی وجوہات کی بنا پر، جو کہ پسماندگی کی وجہ ہیں، میں ان حقوق کی جنگ لڑتا رہوں گا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اب کہیں اگر کوئی زینب دنیا سے جائے گی میں چپ نہیں بیٹھوں گا۔
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے درد کی دوا کرے کوئی