چراغ سحری دلیپ کمار اور بھارتی تعصب
دلیپ کمار چراغ سحری ہیں، خاکم بدہن ہوا کا کوئی بھی جھونکا اس چراغ کو گل کرسکتا ہے۔
FAIRFAX, UNITED STATES:
بھارت خود کو خواہ کتنا ہی سیکولر اور غیر متعصب ہونے کا ڈھنڈورا پیٹے، حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری اور عوامی سطح پر اس ملک میں تعصب کبھی کم نہیں ہوا، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی مثالیں یوں تو پیش کرنے کے لیے بے شمار ہیں لیکن سردست دلیپ کمار ہی ہمارا موضوع ہیں۔ بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو بذات خود دلیپ کمار کے بہت بڑے پرستار اور معترف تھے۔
دلیپ کمار کو جہاں ہر کس و ناکس نے پسند کیا، ان کی فنی خصوصیات کو سبھی ناقدین نے تسلیم بھی کیا، لیکن بھارت میں جہاں انھیں شہرت دوام حاصل ہوئی موقع با موقع ان کی دل شکنی بھی کی گئی اور ان کو احساس دلایا گیا کہ وہ ایک غیر مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی حب الوطنی کو بھی ہمیشہ شک و شبے کی نظر سے دیکھا گیا۔ کہنے کو وہ فلمی صنعت کے دیوتا یا بادشاہ تھے لیکن ان کے فنی کیریئر میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، جن کا دلیپ کمار نے مردانہ وار مقابلہ کیا۔
''پدم بھوشن'' بھارت کا سب سے بڑا شہری اعزاز سمجھا جاتا ہے، یہ اعزاز فن، سماجی کاموں، سائنس، تجارت، ادب، تعلیم، کھیل اور سول سروسز جیسے شعبوں میں بہترین کام کرنے والوں کو دیا جاتا ہے۔ دلیپ کمار کو یہ اعزاز پانے کا شرف حاصل ہے، یہی نہیں بلکہ سرکاری طور پر انھیں ''دادا صاحب پھالکے ایوارڈ'' بھی دیا جاچکا ہے۔ دلیپ کمار کو سب سے زیادہ ایوارڈ اپنے نام کرنے کا بھی منفرد اعزاز حاصل ہے، جس کی بدولت ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا ہے۔
دلیپ کمار کی فنی شخصیت کو یہ سب کا مل جانا یا حاصل ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات اس لیے نہیں کہی جاسکتی کہ واقعی ان کا فن اور ذات کسی ایوارڈ کے محتاج اور متلاشی کبھی نہیں رہے۔ تاہم ان کے کروڑوں مداح کہتے ہیں کہ آخر دلیپ کمار کو بھارت کا عظیم ترین ایوارڈ ''بھارت رتن'' سے آج تک کیوں محروم رکھا گیا ہے؟ اور اب جب کہ دلیپ کمار اس شعری مصرعے کی عملی تصویر ہوکر دنیا کی بے ثباتی کی ایک بڑی مثال بن گئے ہیں کہ ''چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں''۔
بلاشبہ دلیپ کمار چراغ سحری ہیں، خاکم بدہن ہوا کا کوئی بھی جھونکا اس چراغ کو گل کرسکتا ہے۔ مگر بھارتی حکومت کو تادم تحریر اس بات کا احساس نہیں ہو رہا۔ واضح رہے کہ ''بھارت رتن'' کا ایوارڈ اب تک صرف 46 افراد کو ان کی عظیم اور بے مثل خدمات پر دیا جاچکا ہے لیکن تعصب کی وجہ سے اور مسلمان ہونے کی بنا پر بھی شاید انھیں اس اعزاز سے محروم رکھا گیا ہے۔ خود بھارت کے ممتاز فلمی نقاد اور مبصر اب یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ دلیپ کمار کو بھارت رتن ایوارڈ دیا جائے وگرنہ یہ اس عہد ساز فنکار کے ساتھ سخت ناانصافی ہوگی۔
دلیپ کمار برسوں سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں، مختلف عارضوں نے انھیں بے حد نحیف و نزار بنادیا ہے، وہ قوت گویائی سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے جسے ساری دنیا بھی تسلیم کرتی ہے کہ دلیپ کمار سے بڑا اداکار آج تک پیدا نہیں ہوا۔ وہ شخص جس کے مکالمے سن کر لوگ حیرت سے گنگ رہ جاتے تھے اب خود بولنے کے قابل نہ رہا۔ (انقلابات ہیں زمانے کے) افسوس کہ بھارتی فلم انڈسٹری نے انھیں عقیدت و احترام سے سر آنکھوں پر بٹھا تو ضرور دیا لیکن انھیں ان کا جائز مقام نہ دیا۔
1993 میں پاکستانی حکومت نے دلیپ کمار کو سب سے بڑا ملکی اعزاز ''نشان امتیاز'' عطا کیا، یہ دور میاں محمد نواز شریف کا دور حکومت تھا۔ وطن عزیز کا سب سے بڑا اعزاز نشان امتیاز صرف دو ہندوستانیوں کو اب تک حاصل ہوا ہے ایک ہندوستانی وزیراعظم مرارجی ڈیسائی اور دوسرے دلیپ کمار۔ مرارجی ڈیسائی تو خیر ہندو تھے اس لیے انھیں سات خون بھی معاف تھے لیکن دلیپ کمار کو جب یہ اعزاز ملا تو بھارت میں شور و غوغا مچ گیا، ان کی ذات اور حب الوطنی پر متعدد سوالیہ نشان کھڑے کیے گئے اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ یہ اعزاز پاکستانی حکومت کو واپس کردیں لیکن دلیپ کمار نے ایسا نہیں کیا اور اپنی ذات اور اپنے دلائل سے ان کا مقابلہ کیا۔
متعدد ہندو متعصب جماعتیں ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑی رہیں، ان پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے لیکن کوئی بھی عمل ان کے پایہ استحکام کو جنبش نہ دے سکا۔ 11 دسمبر 1922 کو پاکستان کے شہر پشاور کے قصہ خوانی بازار کے محلہ خدا آباد میں پیدا ہونے والے محمد یوسف خان نے دلیپ کمار کے نام سے عالمگیر شہرت حاصل کی اور اب وہ اپنی زندگی کے 95 برس مکمل کرچکے ہیں، لیکن اب ان کی صحت تشویشناک حد تک خراب ہوگئی ہے، آئے دن ان کی صحت کی خرابی کے حوالے سے خبریں آتی رہتی ہیں۔
دلیپ کمار کا آبائی گھر تین مرلے پر مشتمل ہے اور آج بھی شکستہ حالت میں خیبر پختونخوا میں موجود ہے اور صوبائی حکومت نے اسے خرید کر یادگار کے طور پر محفوظ کرلیا ہے۔ دلیپ کمار اور ان کی فیملی نے ایک مختار نامے کے ذریعے یہ مکان فروخت کرکے حاصل ہونے والی رقم فلاحی کاموں کے لیے دینے کی اجازت دے رکھی ہے۔ دلیپ کمار جب ایک بار پاکستان آئے تو خاص طور پر پشاور بھی گئے تھے اور اپنے پرانے دوستوں اور بزرگوں سے مل کر انھیں بہت خوشی ہوئی تھی۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ دلیپ کمار کو بلاشبہ ''لیجنڈری اداکار'' کہا جاتا ہے جن کے انداز و اطوار کو برصغیر پاک و ہند کے لاکھوں نوجوانوں نے اپنانے کی کوشش کی۔ اسی طرح برصغیر میں ہی سیکڑوں اداکار دلیپ کمار بننے کی خواہش اور کوشش میں رہے لیکن وہ ان کا انداز کاپی نہ کرسکے۔ دلیپ کمار کئی دہائیوں سے فلموں میں اداکاری ترک کرچکے ہیں لیکن ''فن اداکاری'' میں کبھی ان کا نام 'تھا' کے صیغہ میں نہیں رہے گا۔
اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں آنے اور طویل عرصے تک نظروں سے اوجھل ہونے والوں کو یاد رکھنا بھی مشکل ہے۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ دلیپ کمار چار نسلوں کے محبوب اور مثالی اداکار رہے ہیں اور ان کی فنی عظمت سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا۔ انھوں نے اعلیٰ تعلیم تو حاصل نہیں کی لیکن مطالعے کی کثرت کی وجہ سے وہ بہت زیادہ قابلیت رکھتے ہیں اور اپنے وقت میں مختلف شعبوں کے بارے میں عالمانہ گفتگو ان کی شخصیت کا ایک مرعوب کن پہلو کہی جاسکتی ہے۔
ان کا مطالعہ اور مشاہدہ بھی بہت وسیع رہا، وہ صاحب نظر اور صاحب فکر انسان کے حوالے سے ہمیشہ لوح تاریخ پر نقش رہیں گے۔ ان کی زندگی اور اداکاری کے موضوع پر لاتعداد کتابیں دنیا بھر میں شایع ہوچکی ہیں۔ انھوں نے بہت کم لیکن منتخب جاندار کرداروں کا ہمیشہ انتخاب کیا انھوں نے دولت کی طمع کبھی نہیں کی، ہر فلم ساز کی خواہش و حسرت رہتی کہ وہ ان کی فلم میں کام کریں کیونکہ کسی فلم سے ان کے نام کی وابستگی ہی اس کی مقبولیت کی ضمانت ہوتی تھی، لیکن وہ ایک وقت میں صرف ایک ہی فلم میں کام کرتے تھے، وہ اپنے کرداروں میں اس طرح ڈوب کر اداکاری کرتے اور کردار کو خود پر اس طرح طاری کرلیتے کہ بعض فلموں کے بعد انھیں نفسیاتی ماہرین کی مدد حاصل کرنا پڑتی تھی۔
ان کو اس دور میں فلم انڈسٹری کا ''مسٹر پرفیکشن'' جانا اور مانا جاتا تھا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دلیپ کمار نے اپنی شہرت یافتہ فلم ''داغ'' کا معاوضہ صرف ایک روپیہ لیا تھا کیونکہ اس فلم کے ہدایت کار امیہ چکرورتی کو دلیپ کمار نے ہمیشہ اپنا استاد اور رہنما سمجھا۔ ''داغ'' شراب نوشی کے خلاف ایک بہت موثر، بامقصد، خوبصورت اور کامیاب ترین فلم تھی۔ یہ اس دور میں بھارت کی تعلیمی درسگاہوں میں طالبعلموں کو بطور خاص دکھائی جانے والی فلم بھی تھی۔