ہماری بیٹیاں
ہماری بچیوں کی بے عزتی کی جو خبریں اخباروں میں چھپی ہیں وہ ہماری اپنی نااہلی ہوتی ہیں۔
اپنی حالت یہ رہی ہے کہ غم عشق کبھی ہوا نہیں اور غم روزگار کبھی کیا نہیں جو حالت بھی رہی یہی سمجھا کہ ایسا ہی ہونا تھا اس لیے غم اور غمِ روزگار کس کا۔ دریائے جہلم کے کنارے پیدا ہونے والے اپنے پڑوسی صوفی دانشور مرحوم واصف علی واصف کے الفاظ میں خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے چنانچہ جو بھی نصیب ہوا اسی پر خوش رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جدید دور کی ایک عام نفسیاتی بیماری ڈپریشن یعنی طبیعت کی بددلی اور افسردگی سے محفوظ رہے۔
یہ بیماری عموماً ہوس زر رکھنے والوں کو لاحق ہوتی ہے لیکن جو کام بس میں نہیں اس کے لیے رونا دھونا کیسا۔ اگر ہماری حکومت کی انتظامی نااہلی اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور آئے روز عوام اس انتظامی نااہلی کو بھگت رہے ہیں معصوم بچیوں کی عصمتیں لٹ رہی ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے اور میری کیا ذمے داری ہے میری ذمے داری تو اتنی تھی کہ ووٹ دے کر نسبتاً ایک بہتر حکمران کا چناؤ تھا جو میں نے ادا کر دیا اور اس انتظار میں ہی رہا کہ میرے حقوق کا تحفظ میری نئی حکومت کرے گی لیکن شدید مایوسی ہوئی کہ کئی سالوں کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں ہے اور میری حکومت اپنی ذمے داری ادا کرنے سے قاصر ہے۔
اگر ملک کو امریکا کی بدمعاشی سے کسی قسم کا خطرہ ہے اور جوہری اثاثے خطرے میں ہیں تو اس میں بھی میرا کوئی قصور نہیں اس کو ڈاکٹر قدیر بھگت رہے ہیں جنہوں نے اپنی جوانی اس مشن میں تیاگ دی اور اس ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا مگر ہمارے لیے یہ ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں حافظ شیرازی نے فتویٰ دے رکھا ہے کہ
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش
یعنی ملک کی مصلحتیں اور نفع نقصان تو بادشاہ جانتے ہیں حافظ تم تو ایک گوشہ نشین فقیر ہو تم کس لیے واویلا کرتے ہو۔ یہی وہ ایک زمینی حقیقت ہے جس کا ادراک ہم جیسوں کو غم روزگار اور غم دنیا دونوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اطلاع دے رکھی ہے کہ زندگی اور موت، عزت اور بے عزتی اور رزق صرف اس کے اختیار میں ہے اس لیے ان باتوں کی خاطر ہنگامہ کیوں اور رونا پیٹنا کیسا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ جو رب المسلمین ہی نہیں رب العالمین ہے جس میں ہر مذہب کے ماننے والے بلکہ لامذہب بھی موجود ہیں اس نے انسانوں کو ایسے تفکرات سے آزاد کر دیا ہے جو بے سود اور بے نتیجہ ہیں۔
عرض یہ ہے کہ غم روزگار کبھی کیا نہیں اس لیے غم روز گار کبھی ہوا ہی نہیں۔ یہ آزار ان انسانوں کو لاحق ہوتا ہے جو بے اختیار ہونے کے باوجود کسی سراب تک پہنچنے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ علامہ اسے وہم و گماں کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ بتان ِوہم و گماں۔
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں۔ لا الہٰ الا اللہ
سچ بات تو یہ ہے کہ ہم نے نہ خدا کی مانی ہے اور نہ کسی خدا شناس کی۔ صرف اپنی خواہشات کی غلامی کی ہے اور اقتدار و اختیار جیسی عارضی چیزوں کے لیے اپنی دنیا و عاقبت دونوں خراب کی ہیں اور حماقتوں کا یہ حال ہے کہ عبرت کے لاتعداد نمونے سامنے ہیں مگر بے سود۔ کہاں گئے آریہ مہر شہنشاہ ایران رضا پہلوی جس کو قبر کی جگہ بھی بصد رسوائی نصیب ہو سکی۔
ہمارے شہر لاہور میں کتنے ہی بادشاہ اور امراء مدفون ہیں جن کی قبروں پر کبھی کوئی فاتحہ پڑھنے بھی نہیں گیا لیکن اسی شہر میں ایک درویش مدفون ہے علی ہجویریؒ جس کے مزار پر ہزار برس زیادہ مدت سے کوئی ایسا لمحہ نہیں گزرا جب فاتحہ کے لیے ہاتھ بلند نہ ہوں۔ اس کا دربار ایک ایسے گنج بخش کا دربار ہے جہاں سے کروڑوں انسان دو وقت کا کھانا کھاتے چلے آرہے ہیں ۔ نہ معلوم کون سا خزانہ ہے جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتا بلکہ بھرتا ہی جاتا ہے۔ بھوکوں اور ناداروں کے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے شاید اس لیے کہ اس خزانے کا مالک خود بھوکا رہا اور خدا نے اس کا رزق اس قدر وافر کر دیا کہ رہتی دنیا تک لٹتا رہے گا مگر ختم نہ ہوگا۔
معلوم نہیں اس بے ثبات دنیا میں لوگ کیا تلاش کرتے ہیں۔ کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو شہر بند ہو جاتے ہیں اور صرف ایک جان کی حفاظت کے لیے ہزاروں انسان خبردار اور چوکنے ہو جاتے ہیں۔ ادھر لاکھوں ان بند راستوں پر آہ و بکا کرتے ہیں کہ ان کی منزل کھوٹی ہورہی ہوتی ہے کوئی عزیز کسی اسپتال میں جاں بلب ان کا انتظار کر رہا ہوتا ہے اور کوئی اسپتال جانے کے لیے تڑپ رہا ہوتا ہے مگر اس اہتمام کے باوجود زندگی کا چراغ جلتا بجھتا رہتا ہے۔
ایک بادشاہ نے مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک ایسا شخص بیٹھا ہے جس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔ نماز سے فراغت کے بعد اس نے ساتھیوں کو بتایا کہ فلاں آدمی مجھے قتل کر دے گا۔ سب نے کہا کہ امیر المومنین اس کی گرفتاری کا حکم دیں۔ مگر کیوں، جواب دیا ابھی تک اس نے کیا تو کچھ بھی نہیں کس جرم میں گرفتار کراؤں۔ اسی نے شہید بھی کر دیا مگر ہم بے گناہوں کو بند کر دیتے ہیں اور گناہگاروں کو کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں، غریبوں مسکینوں کی دادرسی چھوڑ دی ہے اس لیے یہ جو سب کچھ ہم دیکھ اور بھگت رہے ہیں یہ ہماری اسی بے حسی کا ایک نمونہ ہے۔
ہمارا دین تو ایسا نہیں ہے اس میں تو سزا و جزا کا ایک اعلیٰ معیار مقرر ہے اور حد کیا ہوگی کہ آپ ؑ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو ا سکے بھی ہاتھ کاٹ دیئے جاتے۔ یہ تھا وہ عدل و انصاف جس کے ہم پیرو کار ہیں لیکن اس کو ہم نے چھوڑ دیا جس کی سزا اسی دنیا میں ہم اور ہماری معصوم بیٹیاں بھی بھگت رہی ہیں گا گر ہم صرف اپنے دین کی صرف اسی ایک بات کو تھامے رکھتے تو خدا کی قسم کسی معصوم بیٹی کی عزت یوں سر بازار نہ لٹتی اور وہ اپنی جان سے نہ جاتی۔
ہماری کوئی اپنی بیٹی ہی ہمارے لیے عبرت بن جائے تو اس سے بڑی بد نصیبی اور شرمندگی اور کیا ہو گی۔ بیٹیاں تو عزت ہوتی ہیں عبرت نہیں ہوتیں۔ ہماری بچیوں کی بے عزتی کی جو خبریں اخباروں میں چھپی ہیں وہ ہماری اپنی نااہلی ہوتی ہیں کہ ہم اپنی اولاد کی جسمانی پرورش تو کرتے ہیں لیکن ان کی ذہنی پرورش پر توجہ نہیں دیتے اور یہ بچیاں نادانی میں اپنا سب کچھ لٹا دیتی ہیں اور اہل خانہ کو ایک عذاب مسلسل میں گرفتار کر دیتی ہیں۔ جس کے گھر میں بچیاں ہیں وہ ان کی ذہنی پرورش جسمانی پرورش کی طرح بلکہ زیادہ کرے۔ اس موضوع پر بہت کچھ عرض کیا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے گردو پیش میں بہت کچھ دیکھ رہے ہیں۔