بلوچستان میں خوشحالی کا خواب
پاکستان آرمی نے بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لیے تعلیم و ٹیکنالوجی کی جانب توجہ دینی شروع کی ہے۔
تاریخ کے ابواب میں تہذیبوں کی تباہی کے ایک جیسے اسباب پائے جاتے ہیں، جب جان و مال محفوظ نہ ہو، ظلم ہو انصاف نہ ملے، رشوت ستانی کا بازار گرم ہو اور اخلاق اتنے پست ہوں کہ اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت سے غافل ہوجائیں تو سمجھ جانا چاہیے کہ ہمیں اب کسی باہر کے دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہی، اپنی تباہی کے لیے ہم خود کافی ہیں۔ یہی صورتحال اس وقت پورے ملک کی ہے، جہاں حکومت گرنے کے تمام اسباب جمع ہیں، پہلے وزیراعظم نااہل ہوئے اور اب بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو استعفیٰ دینا پڑگیا۔
ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے سے قبل وہ خود کلین بولڈ ہوگئے۔ بلوچستان میں اسی دن ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا، جب اسمبلی کے باہر موجود پولیس کانسٹیبلری بس، جس میں پولیس کے جوان سوار تھے، دہشتگردوں نے حملہ کرکے دھماکے سے اڑا دیا، جس سے چار پولیس اہلکاروں سمیت چھ افراد شہید ہوئے اور دو درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ نئے وزیراعلیٰ کا چناؤ ہو چکا ہے۔ مگر کیا بلوچستان میں جاری بحران ختم ہو گا؟
اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، اس لیے کہ کبھی کبھی انسان کے لیے قدرت کی دی ہوئی نعمتیں بھی زحمت بن جاتی ہیں۔ جس طرح ماضی میں اور آج بھی تیل کی دولت جن ممالک کو حاصل ہے وہ مغربی ممالک کی سازشوں کے جال میں جکڑے ہوئے اپنے ہی لوگوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہیں، بالکل یہی حالات برسوں سے صوبہ بلوچستان کو درپیش ہیں۔ اپنے سی پیک منصوبے سمیت معدنی خزانوں سے لبریز صوبہ بلوچستان آج سماجی، معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں کے نیچے چھپے خزانوں پر تو سب نے اپنا حق سمجھا، لیکن فرض پر کسی کا دھیان نہیں گیا۔
بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا صرف دس فیصد ہے، اس کی سرزمین کو اﷲ تعالیٰ نے قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ یہاں تیل، گیس، کوئلہ، سونے چاندی، قیمتی ماربل اور دیگر دھاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد درست زاویے سے اس کی منصوبہ بندی کی گئی ہوتی تو شاید اس صوبے کے تمام لوگ خوشحال و آسودہ ہوتے اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے آزاد ہوتے۔ مگر اس صوبے کی بدقسمتی دیکھیے کہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ غربت، تعلیم اور علاج سے محروم یہی صوبہ نظر آتا ہے، زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے دیگر صوبوں کے دست نگر ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ اس کے وسائل پر پورا ملک ہی نہیں بلکہ غیر ملکوں نے بھی اپنی حریص نظریں جمائی ہوئی ہیں۔
ایک سروے کے مطابق بلوچستان میں چاغی کے پہاڑوں میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، مگر معلوم ہونے کے باوجود ارباب اختیار نے بے توجہی برتی۔ اس خزانے کو ملکی وسائل کے تحت نکالا جانا چاہیے تھا، لیکن پاکستان میں خام شکل کے سونا، چاندی اور تانبے کو صاف کرنے کے پلانٹ نہ ہونے کے باعث سرمایہ کار کمپنیاں نہایت سستے داموں پاکستان کا قیمتی خام مال باہر لے جاتی رہی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل یہ خبر نظر سے گزری کہ ایران نے اپنے ذرایع سے تانبا کان سے نکالنے اور صاف کرنے کی ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے، اس سے جہاں اس نے جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرلی ہے، وہاں بیرونی طاقتوں پر انحصار سے بھی چھٹکارہ حاصل کرلیا ہے اور اپنے ملک کی قیمتی دولت کو بچانے میں بھی کامیاب ہوگیا ہے۔ ایران کی اس کامیابی میں پاکستان کے لیے بھی بڑا سبق ہے کہ جب ہم ایٹم بم، جدید میزائل تیار کرسکتے ہیں تو اس سرزمین میں چھپے خزانے کو خود زمین سے نکالنے کے لیے ایکسپلورنگ، مائننگ، سروئنگ اور ریفائننگ سے لے کر مصنوعات تیار کرنے تک کے تمام کام کو مقامی سطح پر کیوں نہیں کرسکتے۔
عالمی میڈیا اور پاکستان میں ریکوڈک ٹیلے کے خزانے کا بڑا چرچا ہے، اس خزانے کے بارے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اربوں روپے کے سونے اور قیمتی دھاتوں کے ذخائر موجود ہیں، جس کے لیے ہمارے دشمن سازش کرنے میں مصروف ہیں کہ کسی طرح خزانہ ان کے ہاتھ لگ جائے۔ ادھر ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ اپنی مٹی کو سونا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے بجائے پوری دنیا میں کشکول لیے پھرتے ہیں۔
ڈاکٹر ثمر مبارک کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے بل بوتے پر ان ذخائر کا استعمال کریں تو عوام کو اس کا بھرپور فائدہ حاصل ہوسکتا ہے، خاص کر بلوچ عوام کے مسائل، ان کی محرومیوں کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ اس صوبے میں پانی، خوراک، صحت، تعلیم، سڑکوں کی تعمیر اور روزگار جیسی اہم ضرورتوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق مقامی لوگوں کا ہے۔ اس وقت صوبہ بلوچستان میں جو لاقانونیت، شدت پسندی، معاشی اور سیاسی بحران نظر آتا ہے اس کا واحد حل یہی ہے کہ ان کے مسائل پر ہمدردانہ توجہ دی جائے۔
پاکستان آرمی نے بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لیے تعلیم و ٹیکنالوجی کی جانب توجہ دینی شروع کی ہے۔ کچھ عرصہ قبل بلوچستان میں بننے والی فوجی عمارت کو انھوں نے کیڈٹ کالج میں تبدیل کردیا، جس میں وہاں کے بلوچ طالب علم مستقبل کے فوجی بن کر اپنے ملک وقوم کی خدمت کریں گے، انھیں باعزت روزگار میسر ہوگا، بلوچ نوجوان فوج میں بھرتی کیے گئے، مزید نوجوانوں کو بھرتی کیے جانے کا پروگرام ہے، بلوچ نوجوانوں کے لیے بھرتی کی شرائط میں بھی نرمی کی گئی ہے۔
بلوچستان جسے قدرت نے معدنی دولت کی نعمت سے نوازا ہے، کوشش کی جائے کہ بلوچ نوجوان معدنی وسائل کے مضامین میں تعلیم حاصل کریں، پاک آرمی اسکولوں میں ٹیکنیکل تعلیم کی فراہمی کے لیے الگ مضمون پڑھانے کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائے، مختلف علاقوں میں ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ بنائے جائیں، سی پیک منصوبے میں ان کی شمولیت کو زیادہ فعال بنایا جائے۔ اگر اسی طر ح کی پرخلوص کوششیں جاری رہیں تو بلوچستان میں خوشحالی کا خواب جلد پورا ہوسکے گا۔