سیاست کا گورکھ دھندا
سماج کو تاراج کرنے والی سیاست اور پالیسیوں میں کروڑوں عوام کی دلخراش محرومیوں کا کوئی حل نہیں۔
جہاںمعیشت دیوالیہ پن کا شکار ہو اور نظام انہدام کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہو وہاں نظریات سے عاری سیاست کا اخلاقی اور سماجی گراوٹ کی انتہاؤں کو چھونا غیرمعمولی نہیں۔ قبضہ گروپوں، بھتہ مافیا، پولیس تشدد اور بدعنوانی کی سرپرستی کرنے والے سیاست دان آج کھلم کھلا سیاست کے نام پر بربریت پھیلا رہے ہیں۔ اگرچہ میڈیا میں غضب ناک سیاسی لفاظی اور مباحث کے ساتھ ساتھ حکمران اشرافیہ کا سیاسی شوروغوغا عروج پر ہے، لیکن عوام سیاست سے بالکل لاتعلق ہیں۔
اس ہنگامے میں عوام گہرے سکوت میں ہیں اور ایسا بے سبب نہیں۔ سماج کو تاراج کرنے والی سیاست اور پالیسیوں میں کروڑوں عوام کی دلخراش محرومیوں کا کوئی حل نہیں۔ حل تو درکنار سماج پر مسلط شدہ سیاسی بحثوں میں عوام کو درپیش مسائل، ان پر ڈھائے جانے والے مصائب اور ان کی تکالیف کی کوئی آواز ہی نہیں ان کے متعلق کوئی گفتگو ہی نہیں۔ لیکن حکمران اس وقتی جمود کو ابدی سمجھ بیٹھے ہیں اور سطح کے نیچے اضطراب بڑھتا جارہا ہے۔ اشرافیہ کی غالب سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریاتی فرق مٹتا جارہا ہے اور یہ سب جس سرمایہ دارانہ نظام کے پجاری ہیں وہ ایک ناقابل حل بحران میں گھر چکا ہے۔ اس نظام کے منصوبہ سازوں کے پاس اس بحران سے جنم لینے والے معاشی زوال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔
درحقیقت انھوں نے اس معاشی تنزلی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ دن گئے جب معاشی ماہرین معیشت کو ترقی کی راہ پر لانے اور غربت کے خاتمے اور سماجی ترقی کی کم ازکم کوشش ضرور کیا کرتے تھے۔ لیکن اس مایوسی اور پژمردگی کے عالم میں وہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے تباہ کن نسخوں کو آنکھیں بند کیے لاگو کر رہے ہیں۔ نجکاری، ڈی ریگولیشن، ری اسٹرکچرنگ، لبرلائزیشن اور کٹوتیوں کی پالیساں سماج کو برباد کرنے والی معاشی ابتری کو حل کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کر رہی ہیں۔ عوام کی وسیع اکثریت کو برباد کرنے والے سلگتے ہوئے حقیقی ایشوز کو حل کرنے میں حکمران اشرافیہ ناکام ہوچکی ہے اور گزشتہ کچھ عرصے سے عوامی شعور پر نان ایشوز کی بھرمار کی جارہی ہے۔
الیکشن کمیشن اور عبوری یا نگراں حکومت کے معاملے پر موجودہ کشمکش حکمران طبقات کے اندر لوٹ مار میں اپنا حصہ بٹورنے کے لیے اقتدار کے امیدواروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ظاہر کر رہی ہے۔ نگراں حکومت کا سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سخت ترین معاشی فیصلے اور آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کی ری شیڈولنگ کے معاہدے اور نئے قرضے کہیں زیادہ کڑی شرائط پر حاصل کیے جائیں گے۔
کٹوتی کے دیگر اقدامات کے علاوہ آئی ایم ایف روپے کی قدر میں بڑی کمی کا مطالبہ کرے گی جس کی قدر پہلے ہی اس کی اصل سے زیادہ ہے۔ اس سے افراط زر میں تیزی سے اضافے کے ساتھ معاشی سرگرمی میں جمود آئے گا۔ تیزی سے ختم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ قرضوں اور سود کی ادائیگیاں خزانے پر بہت بھاری ہیں۔ نومنتخب شدہ حکومت کو یہ تباہ کن اقدامات کرنا پڑیں گے ۔ اس مرتبہ سامراجیوں اور حکمران طبقے کے ماہرین کے لیے انتخابات کے نتائج کو اپنی منشا کے مطابق موڑنا اور ایک پائیدار حکومتی اتحاد قائم کرنا بہت مشکل ہوگا۔
نگراں حکومت کے دورانیے میں طوالت کی بحث اور انتخابات کے بارے میں ابہام حکمران طبقات کے ٹوٹتے اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں۔ اندرونی تضادات ریاست کی یکجہتی اور نظم و ضبط میں تناؤ ڈال رہے ہیں۔
انتخابات کے گرد ہونے والی مختلف بحثوں میں سے ایک بحث یہ بھی ہے کہ آئین اور قانون کی مختلف شقوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے اگر انتخابات کرائے جائیں تو یہ عمل شفاف ہوگا اور اہل لوگ اسمبلیوں میں پہنچ سکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں آئین اور تمام قوانین کا مقصد سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے۔ موجودہ آئین اور تمام قوانین کی بنیاد نجی ملکیت کا تحفظ ہے۔ ریاست ہے ہی جبر کا ادارہ، یہ کیوں کر لوگوں کی فلاح کے کام آسکتی ہے۔ ان انتخابات میں بھی واشنگٹن سے تیار ہونے والی فہرست کو اسمبلیوں میں پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔
اس کے لیے دیگر قوتوں کا سہارا لیا جائے گا اور من پسند امیدواروں کو کرپشن سے پاک قرار دے کر ان کی کامیابی کی راہ ہموار کی جائے گی۔ اس کے لیے پاکستانی ادارے بھی اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کے لیے اپنے وفاداروں کو اسمبلیوں کے اندر دیکھنا چاہیں گے۔ معاشی اور سیاسی بحران کے باعث کسی سیاسی جماعت سے وفاداری تبدیل کرنا اب بدعنوانی یا دھوکا دہی نہیں کہلاتا بلکہ اسے عملیت پسندی قرار دیا جاتا ہے۔ روز مختلف پارلیمنٹیرین ایک سے دوسری جماعت میں پھدکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب سیاسی جماعتیں ان الیکشن جیتنے کا گر جاننے والے پھدکتے ہوئے سیاستدانوں کے پیچھے بھاگتی نظر آتی ہیں۔
گو اس سماج میں الیکشن جیتنے کا گر بھی اتنا مشکل نہیں، انسان کو عیار، مکار اور اخلاقی و سماجی طور پر ہر گری ہوئی حرکت کرنے کا بس حوصلہ ہونا چاہیے۔ وہ مروجہ سیاست میں اتنا ہی کامیاب ہوگا۔ اپنے سے طاقتور اور دولت مند افراد کی چاپلوسی اور خوشامد جب کہ کمزور افراد کو ظلم، تشدد یا لالچ کے ذریعے ساتھ جوڑے رکھنے کا فن موجودہ دور میں کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔
جب تمام سیاسی جماعتوں کا معاشی پروگرام ایک ہو تو اختلافات وہی ہوسکتے ہیں جو آج کل نظر آتے ہیں۔ کراچی میں مختلف سیاسی قوتوں کا اختلاف بھتہ اکٹھا کرنے، زمینوں پر ناجائز قبضے، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں حصے کی وصولی اور سرکاری رقم کی بندربانٹ پر ہے۔ ریاست کے تمام ادارے اتنے کمزور اور آپس میں ٹکراؤ کی کیفیت میں ہیں کہ وہ خود اس تمام لڑائی کا حصہ بن چکے ہیں۔ کوئی ایسا فریق نہیں کہ وہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس لڑائی کو کسی ایک یا دوسری جماعت کے حق میں ختم کراسکے۔
دوسری جانب تمام سیاسی جماعتوں کا کردار عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے اور کسی کے پاس بھی بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل نہیں کہ وہ اس بنیاد پر کوئی فیصلہ کن برتری حاصل کرکے صورت حال کو اپنے حق میں کرسکے۔ کمزور فریقین کی باہمی لڑائی کا انجام یہی ہوتا ہے۔ اب ریاست کے ایک دھڑے کی جانب سے طالبان کو کراچی پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے پروان چڑھایا جارہا ہے۔ لیکن جو سوات میں اپنا تسلط قائم نہیں رکھ سکے وہ پورے کراچی میں کیا کامیاب ہوں گے۔ گوکہ اس دوران خونریزی میں اضافہ ہوگا اور اس میں کمی کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔
ان تمام مسائل کا واحد حل غیر طبقاتی نظام ہے جو کہ امداد باہمی کی بنیاد پر قائم ہوگا۔ ریاست کی عملداری اور جبر کو رد کرتے ہوئے کچھ علاقوں، شہروں اور خطوں میں آزاد شہری امداد باہمی کی بنیاد پر منظم ہورہی ہیں اور اقدامات کر رہے ہیں۔ ہندوستان، لاطینی امریکا اور یورپ کے کئی خطوں، شہروں اور صوبوں میں ایسے اقدامات جاری ہیں۔ آگے چل کر کوئی امیر ہوگا اور نہ غریب۔