سچ کا تلخ گھونٹ

امریکا میں ایسے گناہ گاروں کے چہرے سے پردے مزید اٹھتے جارہے ہیں


Shehla Aijaz January 16, 2018
[email protected]

لاہور: چند ماہ پیشتر ایک ٹوئیٹر پیغام نے تہلکہ مچادیا۔ یہ پیغام کسی عام سی عورت نے نہیں بلکہ ایک معروف امریکی اداکارہ ایلسا میلانو کا تھا جس نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو انتہائی بہادری کے ساتھ لوگوں کے ساتھ شیئر کیا یہ ایک ایسا پیغام تھا جس نے لاکھوں، کروڑوں خواتین کے اندر اس بزدل انسان کو مضبوط بنادیا جو اپنے ساتھ ہونے والے بد نما واقعات کو دوسروں سے تو کیا اپنے خاندان تک کے ساتھ شیئر کرتے شرم محسوس کرتی تھیں۔ اکتوبر میں چلنے والی اس طاقت ور تحریک نے مغرب سے لے کر مشرق تک میں بسنے والی خواتین، لڑکیوں اور بچیوں میں بہادری سے اس گھناؤنے جرم کو دنیا کے ساتھ بنانے اور اسے بدنما کرداروں کو سامنے لانے کی ہمت دی ہے جو بظاہر ہمارے سامنے ایک اچھے، محترم اور دوست نما ہوتے ہیں لیکن در اصل ان کے اندر ایک ایسا شیطان چھپا بیٹھا ہے جو ان سے ایسے گھناؤنے جرائم کرانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔

امیر امریکی پروڈیوسر ہاروے وائنسٹن کوگزشتہ تیس بتیس سال تک کوئی نہ جان سکا کہ وہ بڑے بڑے فلمی اداروں کی آڑ میں اپنے ناپاک مذموم مقاصد کی خاطر شوبزکی دنیا میں قدم رکھنے والی معصوم جذباتی لڑکیوں کو استعمال کرتا رہا ہے اس کی ناپاک خواہشات کا کسی نہ کسی طرح نشانہ بننے والی فہرست میں بڑے بڑے نام ہے لیکن وہ سب اپنے نام کا بھرم رکھنے کی خاطر خاموش رہیں اور بالآخر یہ خاموشی اکتوبر 2017 میں بہادر امریکی اداکارہ ایلسا میلانو نے توڑ دی۔ یوں میرا میکس نامی بڑے فلمی ادارے کے بانی اور طاقتور امیر پروڈیوسر کا نام آسمان سے زمین پر ایسے گرا کہ اسے بڑی بڑی اکیڈمیوں نے اپنے سے الگ کردیا نہ صرف یہ بلکہ اس کی اپنی اہلیہ نے بھی اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔

اس شور و غوغا میں بھارتی فلمی اداکارائیں بھی ابھی میدان میں اتری ہیں لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ بہت سے بڑے ناموں کے بارے میں بہت کچھ جاننے کے باوجود اب بھی وہاں ذرا خاموشی ہے۔ البتہ چند ایک اداکاراؤں نے اپنے بچپن میں ہونے والے ایسے مظالم کے بارے میں ضرور زبان کھولی ہے۔ ہمارے ملک میں اس سلسلے میں کچھ اور بھی خاموشی ہے اس لیے کہ ابھی تک ہم بہت بزدل اور کمزور ہیں۔

چین میں ایلسا میلانو کی ''می ٹو مہم'' کے ساتھ فی الحال ایک طوفان ضرور اٹھا ہے۔ بیجنگ کی ایک یونی ورسٹی کے پروفیسر چین ژیاؤ کو ان کی طالبات کے ساتھ اسی برے سلوک کی وجہ سے فارغ کردیاگیا ہے، ان کی ایک سابقہ طالبہ مس ژی ژی جو اب امریکا میں مقیم ہیں اپنے طالب علمی کے زمانے میں ہونے والے اس تکلیف دہ واقعے کو ''می ٹو مہم'' کے ساتھ شیئر کیا تو چین میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔

مس ژی ژی کی اس پوسٹ کو اندازاً تین ملین لوگوں نے دیکھا تھا اور جمعرات کو ہی اس سلسلے میں یونی ورسٹی کی انتظامیہ نے تفتیش کے عمل کو مکمل کرکے پروفیسر کو ملازمت سے فارغ کردیا۔ گو پروفیسر صاحب جو اس قسم کی حرکات نہ صرف مس ژی ژی بلکہ اور دوسری کئی خواتین کے ساتھ کرچکے تھے انکاری تھے لیکن ان کے خلاف اتنی گواہیاں اکٹھی ہوچکی تھیں جو ان کے جرم کے لیے کافی تھیں۔ ''بی ہینگ یونی ورسٹی کا یہ اقدام یقینا چین میں بسنے والی لاکھوں کروڑوں لڑکیوں کے لیے مستحسن ہے جو اپنے ساتھ ہونے والے برے سلوک پر خاموشی اختیار کرتی ہیں۔

امریکا میں ایسے گناہ گاروں کے چہرے سے پردے مزید اٹھتے جارہے ہیں۔ ایک معروف امریکی اداکار بھی اس حوالے سے سامنے آئے ہیں جن کی اداکاری کے رموز سکھانے والی اکیڈمی بھی ہے۔ دیکھیے ان کے خلاف اب کیا ہوتا اور اس میدان میں کتنے نامور ستارے بے نقاب ہوتے ہیں۔ مغرب کے بے باک معاشرے میں جہاں خواتین کو کھلے عام مشرقی روایات کے بر خلاف زیادہ مختلف اور مختصر ملبوسات زیب تن کرتی ہیں ان کے رویے اور انداز بھی خاصے بے باک ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان تمام تر بے باکی کے باوجود بھی اس طرح جنسی ہراساں کیے جانے کے متعدد کیسز سامنے آچکے ہیں۔ اسی طرح بہت سی مشہور مرد شخصیات بھی ڈپریشن کا شکار ہوچکے ہیں۔

حال ہی میں ایک مشہور امریکی پبلک ریڈیو سے ایک مرد میزبان کو فارغ کردیاگیا ہے وجہ یہی ایک خاتون کو ہراساں کیے جانا ہے۔ یہ خاتون ان میزبان کو اپنی درد بھری داستان سنارہی تھیں جسے سننے کے بعد ان صاحب نے از راہ ہمدردی ان کی پشت پر اپنا ہاتھ رکھا اور ان کا یہ ہمدردانہ انداز ان کے لیے مسئلہ بن گیا گو ان صاحب نے خاتون سے معذرت بھی کی تھی اور انھیں بذریعہ ای میل بھی معذرت کی جواباً اس وقت خاتون نے رفع دفع کردیا تھا لیکن چند مہینوں بعد جب اس ''می ٹو مہم'' نے سر اٹھایا اور ان خاتون کے وکیل نے الزام عاید کیا اور گیربین کیلرول پر پروگرام کرنے پر پابندی عاید کردی گئی یہ کیس دو طرح کی صورتحال واضح کررہا ہے جس میں مغرب کے اپنے رویے ہی اس کھلے پن کے دشمن نظر آرہے ہیں۔ خیال رہے کہ بہت سے عوامی مقامات پر بڑے بڑے فنکار، سیاست دان اور امرا اس طرح کی حرکات کرتے نظر آہی جاتے ہیں۔ یوں مرد حضرات کے لیے اخلاقی طور پر ایک قانون بھی سامنے آنا چاہیے کہ اس کی حد کیا ہے؟

مشرق کی حد تک یہ رویہ بڑا واضح ہے جہاں خواتین کا غیر مرد حضرات سے ہاتھ ملانا بھی روایات کے برخلاف سمجھاجاتا ہے لیکن جب معاملہ شوبز کی سطح پر دیکھا جائے تو حقیقتاً بڑے بڑے نام کھل کر سامنے آتے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں قندیل بلوچ کا کیس ہی دیکھ لیں ۔

وہ پیاری سی چھوٹی ماڈلنگ کی شوقین صرف سترہ برس کی تھی، اس کے والدین میں علیحدگی ہوچکی تھی وہ کئی جگہ ماڈلنگ کرچکی تھی اسٹل فوٹوگرافی میں بھی وہ سامنے آچکی تھی۔ چند ڈراموں میں بھی کام کیا تھا۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے خاندان سے اس کا تعلق تھا۔ ''مجھے ماڈلنگ کا بہت شوق تھا اور اب بھی ہے لیکن ہمارے یہاں لوگ بہت خراب ہیں۔ ایک صاحب جنھوں نے بہت سی ماڈلز کو متعارف کروایا ہے میرا بھی ان سے ملنا ہوا تو انھوں نے مجھے بڑی بڑی ماڈلز کے بارے میں بتایا کہ دیکھو فلاں فلاں کو دیکھو اس کے پکچرز میگزینز کے کور پر چھپتی ہیں اسے میں نے ہی بنایا ہے اور تم اگر چاہو کہ تم بھی میگزین کے کور پر لگو تو میں تمہیں بھی بناسکتا ہوں۔

لیکن جو باتیں انھوں نے مجھے بتائیں وہ مجھے منظور نہ تھیں'' ان صاحب کے بارے میں کیا لکھیں کہ حقیقتاً ہمارے یہاں بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو نئے آنے والوں کے ساتھ انتہائی خراب سلوک کرتے ہیں۔ آج بے شمار چینلز کے سیلاب میں بھی اس طرح کے فضول لوگ موجود ہیں جو شوقین لڑکیوں اور خواتین کو غلط انداز میں ترقی کے راستے دکھاتے ہیں۔

شہرت حاصل کرنے والوں کے طریقے سمجھاتے ہیں جن میں کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بنی بنائی کہانیاں بھی گھڑی جاتی ہیں لیکن ایسا اکثر ہوا ہے کہ جب بھی خاص کر خواتین آرٹسٹوں سے انٹرویوز کیے تو انھوں نے مردوں کے فضول طریقوں کی شکایات کیں۔ لیکن ہم پاکستانی معاشرے میں رہتے ہوئے ابھی اتنے بہادر نہیں بنے کہ اس مہم میں اپنی کہانیاں شیئر کریں کیونکہ یہاں تو جو پتھر بھی اٹھاؤ اس کے نیچے ایک کہانی دبی ہے۔ شوبزکی حد تک تو شوق کو الزام دیا جاسکتا ہے لیکن جب یہ کہانیاں تعلیمی اداروں ور کام کرنے والی جگہوں سے نکلتی ہیں تو شرم اور دکھ سے دل چیخ اٹھتا ہے اور آواز نکلتی ہے خدا ہم سب کو نیک ہدایت دے ۔(آمین۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں