روشنی ضرور آئے گی
حقیقت یہ ہے کہ ’’کوئی بھی فرد جزیرہ نہیں ہوتا‘‘ کہ جو خود سے شروع ہوکر خود پر ہی ختم ہوجائے
KARACHI:
پاکستان میں ایک ایسی قوم آباد ہے جو قائداعظم کو مانتی ہے مگر قائد اعظم کی نہیں مانتی ۔ آپ کہیں گے کہ نہیں وہ تو قائد اعظم کو پرس میں سجا کر رکھتے ہیں۔ جی ہاں مگر ملکہ برطانیہ کی تصویر اگر ایک انگریز جیب میں رکھتا ہے تو وہ اس کو بہت احتیاط سے رکھتے ہیں کتھے چونے اور حساب کتاب سے اسے محفوظ رکھتے ہیں، آپ کی یہ بات بہرحال ٹھیک ہے کہ وہ کارکا گٹکا بناتے ہیں کھانے والا گٹکا اور مین پوری وغیرہ سے ناواقف ہیں۔
بات تھی قائد اعظم کی مگر نوٹوں پر قائد اعظم کی تصویر اور نوٹوں کے سائز اور مالیت کے باوجود ناجائز مال کو گننے میں مشینوں کو بھی کئی دن لگ جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ ''پلی بارگین'' کا چانس موجود ہے۔ اگر واقعی کام کرنا ہے تو سب سے پہلے اس قانون پلی بارگین کو ختم یا درست کرنا ہوگا۔ جس میں عہدے سے برخاستگی اور سزا دونوں لازم ہوں اور اس کا دائرہ کار ملک سے باہر تک اور تحقیقات 1965 سے شروع کرنی چاہئیں جو دنیا میں نہیں ہیں ان کی بھی حقیقت قوم کو معلوم ہونی چاہیے اور اولاد کو ملا وہ ضبط ہونا چاہیے۔
سیاسی لطیفوں پر ملک چل رہا ہے۔ نااہل سارے اداروں کو للکار رہا ہے۔ سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور تیس سال عوام کو لوٹتے رہے اور شاید یہ سلسلہ جاری ہے۔
ایسے ہی نعرے سندھ، بلوچستان، سرحد میں رہے پختونستان کا خواب ابھی دیکھنا چھوڑا نہیں ہے اور کہتے ہیں کچھ پختون یا افغان ہیں پھر کچھ اور۔ پاکستان مشروط قبول ہے۔ لیڈروں کے نام لکھنا ضروری نہیں سب ایک ہیں جو نااہل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بہت سے کاروبار ختم کردیے گئے، محب وطن پختونوں کی ایک بڑی تعداد رات دن پاکستان کی حفاظت کر رہی ہے۔
بنگلہ دیش تو مل جل کر ہم نے کامیاب کروا دیا۔ اس کے سرخیل کون تھے بھٹو اور بلوچستان میں انھوں نے آپریشن کروایا جس کے نتائج آج تک بھگت رہے ہیں اور کچھ لوگ دوسرے ملکوں میں اس لائن پر کام کر رہے ہیں خصوصاً بھارت میں کہ اس آپریشن نے جواز پیدا کردیا تھا۔ ان کے داماد نے بلوچستان پیکیج دے کر اسے ختم کرنے کی کوشش کی۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس سب کا پس منظر قائد اعظم ہی ہے۔ چاہے پاکستان کھپے ہی ہو۔ ہر بات کا نتیجہ دو صورتوں میں نکلتا ہے یہ طولانی مزاحیہ گفتگو آپ نے سن رکھی ہوگی مگر یہاں پاکستان کھپے میں دو نتیجے صاف ظاہر ہیں یعنی کھپے ایک آرزو ہوسکتی ہے کہ اگر مشکل میں پڑیں تو خدانخواستہ کھپ جائے۔ دوسرے ایک پوشیدہ دھمکی بھی کہ اس کھپے سے پہلے نا بھی لگ سکتا ہے۔ خدا نہ کرے۔
ابھی حال ہی میں انھوں نے رقص کرتے ہوئے موڈ میں پاکستان پیپلز پارٹی بلاول کے سپرد کردی۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ کس نے کہا یا خود سوچا کہ اس بار خود کو بلاول سے نامزد کروائیں۔ یہ واحد ملک ہے دنیا کا جہاں ابا میاں اور بیگم کی وصیت پر سیاست چلتی ہے۔ لوگوں کا اس بارے میں بھی شبہ درست ہے کہ کوئی وصیت نہیں تھی بے نظیر کو بھلا کیا پتا تھا کہ ایسا ہوگا وہ تو عوام کی قسمت کا فیصلہ میثاق جمہوریت کرکے آئی تھیں جس کے لڈو آصف زرداری نے نوش فرمائے اور اب بچا کچھا میٹھا بلاول کے سپرد کیا جا رہا ہے تماشہ ہے اور کچھ نہیں۔
ننگے بھوکے، بے گھر، بے آسرا لوگ، نہ پینے کو صاف پانی، نہ کھانے کو روٹی، نہ سر پے چھت، نہ آبرو محفوظ انھیں سرد محلوں میں رہنے والے لوگوں کو جن پر باہر کا موسم اثر نہیں کرتا انھیں وراثت میں دے دیا گیا۔ انھیں اقبال، شاہ لطیف، سچل کے کلام سے فائدہ اٹھانے کا درس دے کر ان سے سب چھین لیا۔ ووٹ دینے کا حق بھی۔ ہمدردی کے ووٹ سے پانچ سال صدارت کا لطف اٹھانے والا اب تک درپردہ حمایت کر رہے ہیں۔ بیانات تو کمرشل بزنس ہیں۔
حیرت ہے کہ یہ اسمبلی قائم ہے کیونکہ یہ مفاداتی اسمبلی ہے۔ سب نے اپنا اپنا حصہ لیا ہے، لے رہے ہیں۔ ریڈیو، ٹیلی وژن غلام ہیں اور بدترین حال میں ہیں۔ (ن) لیگ چاہتی ہے کہ احتساب عدالت اتوار کو بھی لگے تاکہ شاہانہ پروٹوکول کا لطف اٹھایا جائے۔ الزام کورٹ پر اور درپردہ عیاشی آمد و رفت اور بیان داغنے کی سہولت۔
یاد رکھیے اس میں قائد اعظم کا دخل ہے۔ گننے میں وقت لگتا ہے لہٰذا دس اور پچاس ہزار کے قائد اعظم آیندہ آجائیں گے۔ ملک بہت ترقی کر رہا ہے کرپشن میں، اسمبلیوں کے اسپیکر ہم نے سنا تھا کہ ہاؤس کے اسپیکر ہوتے ہیں مگر پاکستان میں تجربہ یہ ہے کہ وہ پارٹی کے مفادات کے اسپیکر رہتے ہیں ایوان بالا ہو یا زیریں، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اسمبلی میں مائیکرو فون بند رکھنے کا ریکارڈ بھی پاکستان کے پاس ہے اور جس کا مائیکروفون بند رکھا گیا وہ بھی پاکستانی ہے اور ریکارڈ ہولڈر ہے۔
ایک اسپیکر نے تو آنسو پونچھتے ہوئے ایک قانون پر دستخط فرمائے۔ نہ کرتے دستخط اسپیکر شپ چھوڑ دیتے مگر شاید یہ مشکل کام تھا۔ اقتدار وہ گھوڑا ہے جس کی پیٹھ سے کوئی سوار نہیں اترنا چاہتا، چاہے اسپیکر ہو یا وزیر اعظم۔ یہ تو کورٹ نے ظلم کیا نااہل کے بقول کیوں نکالا؟ اب تو سمجھ میں آگیا ہوگا۔ دوسرا نعرہ یہ ہونا چاہیے۔ سب کیوں نکالا؟ میاں صاحب کے وکیل نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اور جائیدادوں کی تفتیش کیوں؟
وہ شاید بھول گئے ہیں کہ یہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہو رہا ہے۔ چور ڈاکو پکڑا جائے تو پولیس سب اگلے پچھلے جرائم کا اعتراف کروالیتی ہے۔ یہاں تو بہت پریم نال کام ہو رہا ہے۔ مال تو برآمد کیا جائے گا۔ ثابتی دیدو لے جاؤ۔ سیدھی سی بات ہے۔ اس کے بغیر یہ سب قومی خزانے میں جائے گا وہی اس کی صحیح جگہ ہے۔
اور اللہ طاقت اور ہمت دے نیب کے چیئرمین کو سابقہ Un Solved کیس بھی وہ کھول رہے ہیں۔ سر ٹائم ملے تو سرے محل اور سوئٹزرلینڈ والا معاملہ بھی دیکھ لیجیے گا آیندہ الیکشن سے پہلے۔ پونے دو ارب روپے خرچ ہوئے ہیں اسلام آباد کے جلسے میں۔ الیکشن کمیشن بھی ذرا نوٹس لے لے ان معاملات کا تو مزہ آجائے۔ سب کے جلسے چیک کریں۔ اگر مل جل کر جلسوں کی رقم سے یہ پارٹیاں ملک میں کام کریں تو نہ بچے اسپتالوں کے باہر رکشے میں پیدا ہوں نہ بھوک سے تھر میں مریں۔
ہم عوام چند خاندانوں کی میراث ہیں۔ سیاسی، سماجی، مذہبی فرقہ واریت کے تحت اور اب تو ملک میں ایسا دور چلا ہے کہ ہم ہمیشہ کے لیے فلاں ابن فلاں کے غلام رہیں گے، ہم بھوسہ اور یہ ڈبل روٹی کھاتے رہیں گے۔ وصیتیں لکھیں گے، بادشاہت بیٹی، بیٹے کو دیں گے اور اپنے آپ کو عالم اور دیانتدار کہنے والے ان کے دسترخوان سے لقمے توڑتے رہیں گے۔ اور سرکار کے حق میں سند دیتے رہیں گے۔ افسوس ہے کہ قوم کو راہ فلاح پر گامزن رکھنے والے خود ''گمراہ'' ہیں سیاسی اور زرپرستی کے فائدوں کے لیے ایمان گروی رکھ دیا ہے اور قوم نابیناؤں کی طرح ڈنڈے لاٹھی ہاتھ میں لیے ان کے آگے چل رہی ہے۔ ان کو خراش بھی نہیں آتی، مرتا غریب اور اس کا بچہ ہے۔
قائد اعظم کا پاکستان، میرا اور آپ کا پاکستان، دکھ میں ہے، آپ اس سے سب کچھ لے رہے ہیں اسے کچھ نہیں دے رہے۔ جو اسے بچا رہے ہیں روز گالیاں کھا رہے ہیں، مجبور عوام ان کے لیے دعا کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے کیونکہ یہ جب کھڑے ہوئے کسی نہ کسی نے ان کے گھٹنے توڑ دیے پاکستان بنانے والی قوم روشنی کا انتظار کر رہی ہے۔ یہ روشنی کہاں سے آئے گی۔ عدل کے ایوانوں سے اور جفاکشی اور سرفروشی کے میدانوں سے۔ روشنی آئے گی ضرور۔