بدلتے حالات
صدر ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیانات پر ہمارے حکمرانوں نے معذرت خواہانہ انداز اپنا رکھا ہے
HYDERABAD/
SANGHAR:
معروف انقلابی دا نشورایما گولڈ مان نے ایک موقعے پرکہا تھا کہ ''انتخابات سے مسائل حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگاچکے ہوتے'' درحقیقت بری طرح حکومت چلانے کا نام ہے ''سرمایہ داری'' ۔ ہر وہ شعبہ جسے چلانے کا اہل نہیں ہوتا، اس شعبے پر اسے مقررکیا جاتا ہے،اس لیے کہ وہ حکومت کی 'ہاں' میں 'ہاں' ملاتا رہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کے اتحادیوں میں رد بدل کیا جارہا ہے۔
اب وہ پہلے سے زیادہ رجعتی جے یوآئی (س) کے ساتھ اتحاد بنایا ہوا ہے تودوسری طرف ایم ایم اے کو بحال کیا جارہا ہے۔ اس سے قبل کے پی کے میں ایم ایم اے کی حکو مت رہ چکی ہے،انھوں کتنے گل کھلائے یہ سب کو پتہ ہے۔ یہاں مہنگائی اور بیروزگاری ملک بھرکی طرح آب وتاب سے جاری ہے۔ بلوچستان میں وفاداریوں کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ہے، یہاں کبھی بھی کسی کی مسلمہ حکومت قائم نہیں رہی۔اس بار بھی معمولی ردوبدل کے ساتھ ٹریڈنگ کی گئی ہے،عوام کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔ یہاں آئے روز دھماکے اور فرقہ پرستی کے شعلے بھڑکتے رہتے ہیں۔ آج کل سب سے زیادہ دہشتگردی بلوچستان میں ہی ہورہی ہے۔
اس لیے بھی کہ یہاں کی زمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ ان وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے عالمی سامراجیوں کی ریشہ دوانیوں کا مرکز بلوچستان بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ اندورون ملک مختلف اشکال کی نوکر شاہی، جاگیر دار، سرمایہ دار اور بیرونی پراکسی وار جاری ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ ہزاروں لاپتہ افراد پر عدالتیں بھی برہم نظر آتی ہیں۔ ادھر پنجاب میں بھی انتہائی رجعت پسند قوتوں کی انٹری ہوچکی ہے، جس کی مثال حال ہی میں فیض آباد دھرنے میں نظر آئی۔ پنجاب میں دو رجعتی اتحاد تشکیل دیے گئے ہیں۔ ایک دفاع پاکستان کونسل اور دوسرا پرویز مشرف نے تئیس پارٹیوں کا اتحاد بنایا ہے جن میں تیرہ پارٹیوں کے نام عوام نے پہلی بار سنے ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی مکمل انٹری نہیں ہوپائی اس لیے تحریک لبیک یا رسول اللہ کی انٹری کرائی گئی ہے۔
صدر ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیانات پر ہمارے حکمرانوں نے معذرت خواہانہ انداز اپنا رکھا ہے وہ اس ورد سے ہی ابھی تک نکل نہ پائے کہ ہماری قربانیوں کی داد دی جائے۔ جب کہ یہ قربانیاں نہیں بلکہ امریکی سامراج کے لیے ہم استعمال ہوئے۔ سوشلسٹ کوریا کے ڈٹ جا نے کی وجہ سے آج شمالی اور جنوبی کوریاؤں میں مذاکرات ہونے کو جارہے ہیں۔ اس لیے کہ اس نے اپنے آپ کو تمام سامراجی بندھنوں سے آزاد کیا ہوا تھا، جب کہ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پھندوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
امریکی دھمکیوں کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تما م لیے گئے قرضوں کو بحق سر کار ضبط کرلیتے۔ اس لیے بھی کہ جتنا سود ادا کرچکے ہیں وہ قرضوں سے زیادہ ہیں۔ ویتنام ،کیوبا،کوریا، وینزویلا، لاؤس،کمبو ڈیا، زمباوے، روس اور چین نے ضبط کرلیا تھا تو ان کا کسی نے کیا بگاڑا؟ ہم نے پڑوسی ملکوں ہندوستان، افغانستان اور ایران سے بدترین تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں، جب کہ ہندوستان کی مودی سرکار جس حد تک پاکستان اورہندوستان کی اقلیتوں سے نفرت کرتی ہے اس سے زیادہ امریکا کرتا ہے، لیکن ہماری امریکا سے دوستی اور ہندوستان سے دشمنی چلی آرہی ہے، اس لیے کہ دفاعی اخراجات کم ہوجائیں گے تو صحت اور تعلیم کا بجٹ بڑھ جائے گا۔ ایک جانب دنیا کے عوام بھوک سے مررہے ہیں تو دوسری جا نب اسلحے کے بیوپاری خوب کمارہے ہیں۔
ایک جانب دنیا میں لوگ غذائی قلت کے شکار ہیں تو دوسری جانب میکسیکو جہاں پچاس فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں وہاں 9 ٹن سے زیادہ کا کیک بنایا جاتا ہے۔ روس، جہاں بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے وہاں 80 سالہ بوڑھی خواتین کو میک اپ کرکے 40 برس کی بنانے پر اربوں ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں۔ جرمنی میں کرسمس ٹری پر بے تحاشہ رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔ ہندوستان کی سرحد پر 14460بنکر بنانے کا منصوبہ تیارکیا ہے اس لیے کہ ہمیں ایک دوسرے سے خطرہ ہے ، جب کہ امریکا بے شمار ڈرون حملے کر تا رہا اور شاید آیندہ بھی کرے، انھیں مار نہیں گرایا جاتا ہے۔
جب سے پا کستان بنا ہے پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ اور نقصان ہندوستان سے کم اور امریکا سے زیادہ رہا اور ہے پھر بھی ہم دشمن ملک بھارت کوگردانتے ہیں نہ کہ امریکا کو۔ امریکا جو اسرائیل اور سعودی عرب کا سرپرست ہے، ہم اسرائیل سے تعلقات نہیں رکھتے اور اسلحہ امریکا سے خرید تے ہیں۔ مشرق وسطی ٰ میں سب سے زیادہ امریکی فوج اسرائیل میں ہے اور دوسرے نمبر پر سعودی عرب میں۔ تجارت میں بھی ہم بدستور خسارے کے شکار ہیں۔ 2017ء میں برآمدات 20 ارب 50 کروڑ ڈالر تھیں جب کہ درآمدات 53 ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود 2017ء میں 6 ارب ڈالرکی دا لیں اور خوردنی تیل درآمدکیا گیا، ہماری ساٹھ فیصد زمین بنجر رہنے کے باوجود 11 ارب ڈالرکی غذائی مصنوعات درآمد کی گئیں۔ زیادہ تجارتی خسارہ ہمیں چین سے ہوا۔
پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے سبب چاول، خوردنی تیل اوردا لوں کی قیمتوں میں خاصہ اضافہ ہوا۔ اس مسئلے پر ساری پارٹیاں خاموش ہیں۔ شورشرابا نان ایشوز پر ہوتا ہے جس سے عوام کا کوئی تعلق نہیں، مگر مزدور،کسان، خواتین ، اقلیتیں،کسی نہ کسی شکل میں اپنی طبقاتی لڑائی میں ہر جگہ نبرد آزما نظرآتی ہیں۔کہیں اساتذہ،کہیں کاشتکار، ہیلتھ ورکرز،کہیں مزدور اورکہیں طلبہ مظاہرہ کرتے ہوئے،لا ٹھی کھاتے ہوئے ، سر پھٹتے ہوئے اور پولیس سے دو بدو لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں زینب اور رضوان کے قتل پر قصورکے عوام سراپا احتجاج بن گئے، اساتذہ وزیراعلیٰ ہاؤس جاتے ہوئے لا ٹھیوں کی برسات سے گزرے ،کہیں گنے کے کاشتکاروں نے اندرون سندھ سے کراچی تک پہنچ کر ایک حد تک اپنے مطالبات منوائے، جب تک لو گوں کے مسائل رہیں گے، لوگ طبقا تی لڑائی جاری رکھیں گے۔