ارتقا کا دھارا 2
اس عہد کے حساس اور ذہین نوجوانوں کی اکثریت بیزاری، مایوسی، محرومی، تلخی، تشویش اور اضطراب سے دوچار ہے۔
ممکن ہے کہ آپ کو اس دعوے پر اعتراض ہو کہ موجودہ صدی کے آدمی کو زندہ رہنے کی معرکۃ الآراء جدوجہد سے نجات مل گئی ہے اور اب وہ آسانی کے ساتھ اپنی تمام ذہنی صلاحیتوں کو دماغی اور روحانی ترقی کی طرف مبذول اور مرکوز کرسکتا ہے۔ بے شک آج بھی بھوک اور افلاس کا دور دورہ ہے، یقیناً آج بھی قوموں کی اکثریت فاقہ کشی کے عذاب میں مبتلا اور دماغ کے بجائے معدے کے ذریعے سوچنے پر مجبور ہے۔
کوئی شبہ نہیں آج بھی افلاس، اوہام اور امراض (ذہنی اور جسمانی دونوں) کے سیاہ بادل زندگی کی افق پر چھائے ہوئے ہیں اور ایک محدود اقلیت کو چھوڑ کر آج بھی انسانوں کی جماعتیں تحت البشری (SUB HUMAN) درجے سے بلند نہیں ہوسکیں بلکہ حیوانی سطح پر زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یہ تمام اعتراضات اپنے مقام پر حق بجانب ہیں، کون نہیں جانتا کہ خلائی تسخیر کے حیرت انگیز دور میں بھی کروڑوں انسانوں کی اربوں قوتیں جنگ و جدل، تخریب و فساد، قتل و خون، جہالت و جرائم میں صرف ہورہی یا فقر و فاقے کے سبب ضایع ہوئے جارہی ہیں اور یہ بھی واقعہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں اور بین الاعظمی میزائلوں کی عالم گیر تباہی پھیلانے والی قوت کے سبب نسل آدم کی مجموعی ہلاکت کا اتنا بڑا خطرہ آج درپیش ہے کہ ہمارے آبائو اجداد اور ان کے آبائو اجداد کے لیے اس کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔
یہ تمام حقیقتیں بڑی سنگین اور تشویشناک ہیں، ان کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، تاہم (ان تمام خرابیوں اور خامیوں کے باوجود) کیا یہ حقیقت نہیں کہ مجموعی طور پر انسانیت کا قافلہ صحیح سمت (تسخیر کائنات اور تعمیر حیات) میں چلنے لگا ہے۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کی کرنیں پہاڑوں کی چوٹیوں کو منور کرتی ہیں۔ رفتہ رفتہ اجالوں کا لشکر نچلی تاریک وادیوں کی طرف بڑھتا ہے۔ یہ نہیں ہوا کہ سورج کے نکلتے ہی پورا کرۂ زمین ایک دم جگمگانے لگے، یہی حالت ذہنی ارتقا کے سورج کی ہے۔ وہ بہت آہستہ آہستہ افق زیست پر بلند ہو رہا ہے اور آہستہ آہستہ اس کی روشنی انسانی دماغوں میں پھیل رہی ہے۔
یقیناً آج پوری دنیا میں انتشار، تشدد، فساد، مایوسی اور بیزاری کا دور دورہ ہے۔ خصوصیت کے ساتھ نئی نسل زبردست بے چینی، گہری ناآسودگی اور اتھاہ تشویش میں ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ اور ناترقی یافتہ ملک تو خیر پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ہی ہیں، اگر افریشیائی نوجوان زندگی سے بیزار ہوجائیں تو انھیں ملامت نہیں کی جاسکتی کیونکہ آخر زندگی نے انھیں کون سا نعمتیں اور لذتیں بخش دی ہیں کہ وہ خوش گوار اور مطمئن نظر آئیں۔ یہاں ذکر ہے ترقی یافتہ ملکوں اور ان قوموں کا جو پوری سائنسی اور صنعتی ترقی سے لیس ہیں۔ ان کی نوجوان نسل بھی پرانی فکر سے بیزار ہو کر زندگی کے کسی نئے نظریے اور حیات کے کسی نئے مقدر کی تلاش میں دیوانہ وار چاروں طرف دوڑ رہی ہے!
سوال یہ ہے کہ نئے طرزِ فکر اور مقصد حیات کی تلاش کیوں شروع ہوئی؟ یہ تقاضا کیوں ابھرا؟ وہ کیا اسباب تھے کہ عام لوگ رفتہ رفتہ پرانے تصورات سے غیر مطمئن ہونے لگے۔ اس لیے غیر مطمئن ہونے لگے کہ اب ارتقا کے سورج کی کرنیں دماغ کے ان نامعلوم حصوں پر چمکنے لگی ہیں، جہاں عظیم الشان فوق البشری صلاحیتوں کے خزانے دفن ہیں۔ فوق البشر، انسان برتر کو کہتے ہیں۔ آج سے پانچ ہزار سال پہلے انسان برتر وہ تھا جو وحشی انسانوں کے درمیان مہذب بستیاں بنا کر رہتا تھا اور جنگلی پھلوں اور شکار کے گوشت پر ننگ دھڑنگ زندگی بسر کرنے کے بجائے غلوں کی کاشت کرتا، جانور پالتا اور روئی کو کپڑا بننے کے کام میں لاتا تھا۔
تاریخ کے ہر عہد میں معمولی انسانوں کے درمیان غیر معمولی انسانوں (انسان برتر) کے نمونے موجود رہے ہیں۔ کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا کہ تمام آدمی یکساں صلاحیتوں اور قابلیتوں کے حامل ہوسکے ہوں۔ جینیئس اور جاہل ہر دور میں موجود تھے اور ہر دور میں موجود رہیں گے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہر عہد میں معاشرے کا حساس طبقہ ماضی سے بیزار ہو کر مستقبل کے امکانات کو محسوس کرتا اور نئی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی اس کے نقش قدم پر چل کھڑے ہوتے ہیں، ہر صدی میں کم و بیش انقلاب و اجتہاد کی یہ برقی اور انقلاب انگیز رو، رواں دواں رہی ہے، آج بھی رواں دواں ہے۔ کہا جاتا ہے اور بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ نفسیاتی بیماریوں کا عہد اور جذباتی الجھنوں کا زمانہ ہے۔
اس عہد کے حساس اور ذہین نوجوانوں کی اکثریت بیزاری، مایوسی، محرومی، تلخی، تشویش اور اضطراب سے دوچار ہے، اس کا یہ سبب نہیں کہ وہ کسی پیدائشی دماغی کمزوری کا شکار ہیں۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ معاشرہ اور اس کا طرزِ فکر ان کی ذہنی صلاحیتوں اور دماغی قوتوں کو دبائے ہوئے ہے۔ چڑیا کو پنجرے میں بند کر دیا جائے تو وہ کس طرح پھڑپھڑاتی ہے، قفس کی تیلیوں سے سر دے دے مارتی ہے، چیختی ہے چلاتی ہے، فریاد کرتی ہے۔ اکیسویں صدی کے حساس نوجوان ان ہی بلند پرواز پرندوں کی حیثیت رکھتے ہیں جنھیں نام نہاد مادی ترقی کے سنہری پنجروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ جو قومیں مادی ترقی، صنعتی ترقی اور سائنسی ترقی کی معراج کو پہنچ چکی ہیں۔
وہاں کی نوجوان نسل میں باغیانہ رجحان (جس کے زندہ نمونے 'ہپی' پیش کرتے ہیں) کی شدت و وسعت کا سبب ہی یہ ہے کہ اب ان ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں کی روح کے وہ تقاضے بروئے کار آنا چاہتے ہیں جو فوق البشری صلاحیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مستقبل کا آدمی یقیناً انسان برتر ہوگا۔ قوت ارتقا کا اَن دیکھا ہاتھ ہمارے نفس کو بلو رہا ہے اور دماغ کے گہرے اور انجان رقبوں میں نئی بیداری اور نئی زندگی کی صبح مسکرانے والی ہے، پچھلی رات کا اندھیرا جس قدر غلیظ اور وحشت ناک ہوگا، نئے سورج کی تابانی اتنی ہی دل افروز ہو گی۔
انسانی وجود کے ممکنات کا اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ ہمارا جسم پانچ بلین، بلین، بلین (یعنی 5 کے ساتھ 27 صفر) (5X1027) خلیوں سے مرکب ہے، ہر خلیہ یا ایٹم بجائے خود ایک دنیا ہے۔ صرف دماغی خلیوں کی تعداد تیس بلین سے کم نہیں۔ دماغ کا دسواں حصہ اب تک استعمال میں آسکا ہے، باقی نوے فیصد دماغی طاقتیں ہنوز بروئے کار نہیں آسکیں۔ ارتقا کی قوتیں دماغ کی انھی نااستعمال شدہ یا کم استعمال شدہ رقبوں کو کرید رہی ہیں۔ ذہنی سطح پر آج شکست و ریخت کا ہنگامہ اس لیے برپا ہے کہ دماغ کے مدفون خزانوں کو برآمد کیا جائے۔
ترقی کا یہ عمل انسان کے ارادے کے بغیر جاری ہے، جس طرح اپنے جسم کی ساخت میں ہم نے کوئی شعوری حصہ نہیں لیا (یعنی اپنا پتلا خود نہیں بنایا) اسی طرح اپنے نفس کی پرداخت میں بھی انسان کا شعوری حصہ بہت کم ہے، جو کچھ ہورہا ہے، خود بخود ہورہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے لوگ عام ذہنی نا آسودگی اور روحانی بے چینی محسوس کر رہے ہیں، کیونکہ وہ ان قوتوں کے عمل سے واقف نہیں جو ان کے اندر کارفرما ہیں۔ نصاب تعمیر و تنظیم شخصیت کی مشقیں انسان کی غیر شعوری نفسیاتی تبدیلی کو شعوری عمل میں تبدیل کر دیتی ہیں، یعنی ذہن کی قلب ماہیت غیر ارادی کے بجائے ارادے کے تحت آجاتی ہے۔