جمہوریت نصب العین نہیں اصل بات اچھی حکومت کا قیام ہے

سینئر سیاستدان اور مسلم لیگی راہنما حامد ناصر چٹھہ کی بے لاگ گفتگو۔


اوور لائن : نواز شریف نہ کبھی مسلم لیگی تھے، نہ اب ہیں، مسلم لیگ ایک سوچ، نظریئے اور کیفیت کا نام ہے۔ فوٹو : فائل

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے مثالی جدوجہد ہوئی، وہ تاریخ نے پہلی کبھی دیکھی نہ شائد آئندہ دنیا دیکھے گی۔ مسلم لیگ وہ پلیٹ فارم تھا، جس نے مسلمانوں کے خون کو ایسے گرمایا کہ پھر وہ پاکستان کے قیام تک ٹھنڈا نہ ہوا، چاہے اس کے لئے لاکھوں مسلمانوں کو اپنی جان، مال اور عزتوں کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑی۔

قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم نے بھارت اور پاکستان کی مسلم لیگ کو الگ شناخت ضرور دی، لیکن ذاتی مفاد کے قیدیوں نے پاکستان میں مسلم لیگ کے ساتھ الف، ب، ج، د لگا کر اس جماعت میں اتنے چھید کر دیئے کہ آج اس کی اصل پہچان ہی معدوم ہو چکی ہے۔

آج مسلم لیگ کئی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور ہر دھڑے کا لیڈر اپنی لیگ کو قائد کی مسلم لیگ قرار دیتے ہوئے خود کو ان کے افکار کا پیرو کار اور داعی سمجھتا ہے، تاہم ملکی سیاست میں آج بھی کچھ لوگ ایسے موجود ہیں، جن کے بقول مسلم لیگ ان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے اور پُرکشش آفرز کے کئی مواقعوں کے باوجود انہوں نے خود کو مسلم لیگی کہلوانے کے حق سے دستبردار ہونا گوارا نہ کیا، ایسے ہی لوگوں میں ایک نام حامد ناصر چٹھہ کا بھی ہے۔ ضلع گوجرانوالہ (احمد نگر) کے ایک بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے حامد ناصر چٹھہ 15 نومبر 1944ء کو پیدا ہوئے۔

ایچی سن کالج سے تعلیم کی ابتداء کرنے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے 1966ء میں بیچلرز اور سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں بار ایٹ لاء کے لئے وہ لندن چلے گئے، تاہم والد کی وفات کے باعث وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکے اور وطن واپس لوٹ آئے۔ 5 دہائیوں کے لگ بھگ سیاسی میدان میں مصروف عمل رہنے والے سینئر سیاست دان نے سیاست کا آغاز 1970ء کے الیکشن سے قبل کر دیا تھا اور 70ء میں پہلا الیکشن لڑا۔ 1981ء میں پہلی بار صوبائی وزیر برائے تعلیم و صحت کی ذمہ داریاں سنبھال لیں، پھر 1985ء کے غیر جماعتی عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے تو اسی سال مارچ میں انہیں وزارت اطلاعات، براڈکاسٹنگ، سائنس و ٹیکنالوجی کا قلمدان سونپ دیا گیا۔

جس کے ایک سال بعد مئی 1986ء میں انہیں اتفاق رائے سے قومی اسمبلی کا سپیکر بنا دیا گیا، وہ دسمبر 1988ء تک یہ ذمہ داری بااحسن نبھاتے رہے، 1990ء میں وہ ایک بار پھر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تو انہیں وفاقی وزیر برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بنایا گیا۔ 2002ء میں مشرف دور میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی وہ قومی اسمبلی کی نشست جیت چکے ہیں۔ 2008ء کے الیکشن میں انہیں قومی اسمبلی کی نشست تو نہ مل سکی لیکن صوبائی اسمبلی کی نشست وہ جیت گئے۔ بزرگ سیاست دان نے جمہوریت اور آمریت کے طوفان میں ہچکولے کھاتی ملکی سیاست کی کشتی کو ناصرف قریب سے دیکھا بلکہ وہ اس کے سوار بھی رہے ہیں۔ ''ایکسپریس'' نے گزشتہ دنوں ان سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: موجودہ حکومت کہاں تک اس دعوے میں حق بجانب ہے کہ اس نے ملک کو بڑی حد تک دہشت گردی، شدت پسندی، غربت، مہنگائی اور توانائی بحران جیسے مسائل سے نکال کر ترقی کے سفر پر گامزن کردیا ہے؟

حامد ناصر چٹھہ: دہشت گردی اور شدت پسندی جیسے مسائل کے حل کی کوششیں تو موجودہ حکومت سے پہلے ہی جاری تھیں۔ یہ تو فوج کی مہربانی ہے کہ انہوں نے اس عفریت کی کمر توڑی اور اس میں رینجرز اور ایئرفورس نے اہم کردار ادا کیا۔ گو دہشت گردی مکمل ختم نہیں ہوئی لیکن بہت حد تک کم ہوگئی ہے۔ مگر اس میں حکومت کی کوئی کارکردگی نہیں ہے۔ اس کا کریڈٹ ننانوے فیصد فوج اور ایک فیصد پولیس کو جاتا ہے اور وہ بھی زیادہ تر کے پی کے پولیس کا اس میں کردار ہے۔ باقی جہاں تک غربت اور مہنگائی کا تعلق ہے تو ان میں تو اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہاں، توانائی بحران بہتر ضرور ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔

ایکسپریس: اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ توانائی بحران کے حل کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو دیتے ہیں۔

حامد ناصر چٹھہ: کوئی بھی حکومت آتی تو اس نے توانائی کے بحران کو حل کرنا ہی تھا۔ موجودہ حکومت نے کون سا اتنا مشکل کام کیا ہے۔ یہ تو پچھلی حکومت کی نالائقی تھی کہ وہ اس بحران کو ختم نہیں کرسکے۔ ورنہ یہ کوئی ایسا کام نہیں تھا کہ وسائل کے ہوتے ہوئے یہ کام نہ ہوتا۔ موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ دیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس کی طرف توجہ دی۔

ایکسپریس: ایک اعتراض یہ ہے کہ حکومت ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کے بجائے تھرمل پروجیکٹس پر انحصار کر رہی ہے جو مہنگے اور آلودگی پیداکرنے والے منصوبے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں ؟

حامد ناصر چٹھہ: یہ بات ٹھیک ہے کہ زیادہ توجہ ہائیڈرل پاور پروجیکٹس کی طرف ہونی چاہیے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہائیڈرل پروجیکٹس بنانے میں وقت بہت لگتا ہے۔ کم از کم دس بارہ سال۔ تو ظاہر ہے کہ توانائی بحران فوری حل کا متقاضی تھا۔ البتہ اب حکومت کو چاہیے کہ وہ ہائیڈرل پروجیکٹس کی طرف بھی توجہ دے۔

ایکسپریس: آپ کو سیاست میں چار دھائیاں ہوگئی ہیں۔ اس دوران آپ نے سول اور فوجی دونوں ادوار حکومت دیکھے۔ پاکستان میں اس کے قیام سے لے کر آج تک سول ملٹری تعلقات مثالی نہیں رہے، اس کی وجہ فوج کی اقتدار کی خواہش ہے یا ہمارے سیاست دانوں کی نااہلی؟

حامد ناصر چٹھہ: میرے خیال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں پچیس فیصد فوج کی خواہش اور پچھتر فیصد سیاستدانوں کی نااہلی شامل ہے۔

ایکسپریس: ملکی مفاد کے لیے مستقبل میں سول ملٹری تعلقات کو کیسے متوازن بنایاجاسکتا ہے؟

حامد ناصر چٹھہ: ہم آہستہ آہستہ اس طرف جارہے ہیں۔ اب ٹرینڈ جمہوریت کی طرف زیادہ اور آمریت کی طرف کم ہوتا جارہا ہے۔ امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ ٹھیک ہوجائے گا۔ میرے نزدیک جمہوریت اصل نسب العین نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں اچھی حکومت، جو عوام کی فلاح و بہبود کے کام کرے، وہ قائم ہونا زیادہ ضروری چیز ہے۔

ایکسپریس: علامہ طاہر القادری نے 17 جنوری سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے، آپ کے خیال میں اس تحریک کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور کون کون علامہ صاحب کا ساتھ دے گا۔

حامد ناصر چٹھہ: میرا خیال ہے کہ وہ سب ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے جو علامہ صاحب کے ساتھ میٹنگز کرتے رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اتنی دور جانے کے بعد اگر کوئی پیچھے ہٹے گا تو اس کا مذاق اڑے گا کیونکہ اس طرح کے اقدامات سیاسی جماعتوں کو بہت سوچ سمجھ کر لینے چاہئیں اور جب ایک بار یہ اقدام لے لیے جائیں تو پھر ان پر کھڑے رہنا چاہیے۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ تحریک کے فیصلہ کن مرحلے پر علامہ طاہر القادری ہمیشہ بیرون ملک چلے جاتے ہیں، اس پر آپ کیا کہیں گے؟

حامد ناصر چٹھہ: طاہر القادری صاحب جب پہلے آئے تھے تو انہوں نے ''To the End'' تحریک کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اس مرتبہ انہوں نے یہ اعلان کیا ہے تو ہمیں ان پر اعتماد کرنا چاہیے اور جو لوگ ان کے ساتھ بیٹھے ہیں انہیں بھی اعتبار کرنا چاہیے۔

ایکسپریس: پانامہ کیس کے حوالے سے آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟ کیا میاں نواز شریف سے انصاف ہوا؟

حامد ناصر چٹھہ: میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی تو انصاف ہونا ہے۔ ابھی تو جو کچھ ہوا ہے یہ صرف ''Tip of the Iceberg'' ہے۔ میاں صاحب روز لوگوں کے سامنے اپنی مظلومیت بیان کرتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ کیا لوگ ان کی باتوں پر یقین کرلیں گے۔ چاہے حدیبیہ کیس قانونی سقم کی وجہ سے ٹیکنیکل بنیاد پر نہیں کھلا لیکن اس میں بھی فیکٹس اور فگرز تو سامنے آگئے تھے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی شک ہے کہ نواز شریف صاحب کے ساتھ انصاف ہوا ہے کہ نہیں اور مجھے قوی یقین ہے کہ جو کسر باقی رہ گئی ہے وہ ان کے خلاف چلنے والے نیب کے ریفرنسز میں احتساب عدالتوں کے فیصلوں کے نتیجے میں پوری ہوجائے گی۔

ایکسپریس: آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے علاوہ بھی ان کے ساتھ ابھی مزید بہت کچھ ہونا ہے؟

حامد ناصر چٹھہ: جی میرا خیال ہے کہ اگر ان کے ساتھ مزید کچھ نہیں ہونا تو پھر ان کی وزارت عظمیٰ ختم ہونے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔

ایکسپریس: حدیبیہ پیپرز مل کا تفصیلی فیصلہ جو سپریم کورٹ نے جاری کیا ہے اس میں اسحاق ڈار صاحب کے اعترافی بیان کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ قانونی طور پر نہیں لیا گیا اور یہ کہ حدیبیہ کیس کو کھولنے کا مقصد شریف خاندان کو دباؤ میں لانا تھا۔ کیا آپ کے خیال میں سپریم کورٹ تقسیم ہوگئی ہے؟

حامد ناصر چٹھہ: سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس کے تفصیلی فیصلے میں یہ کہا ہے کہ اسحاق ڈار کا بیان صحیح طریقے سے نہیں لیا گیا۔ ایسے بیانات لینے کا ایک قانونی پروٹوکول ہوتا ہے۔ شاید اس طریقہ کار کو فالو نہیں کیا گیا۔ دوسرے جہاں تک شریف خاندان کو دباؤ میں لانے کا ذکر ہے تو وہ اب اس مخصوص موقع پر کیس کھولنے کے بارے میں یہ کہا گیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حدیبیہ کا جو فیصلہ اب آیا ہے وہ بالکل آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ ویسے یہ معاملہ ختم نہیں ہوا کیونکہ شریف خاندان اور اسحاق ڈار کے علاوہ حدیبیہ کیس کے دیگر ملزمان جیسے نیشنل بینک کے صدر سعید احمد اور قاضی فیملی وغیرہ کے متعلق تحقیقات میں یہ معاملہ دوبارہ زندہ ہوجائے گا۔ جہاں تک سپریم کورٹ کے تقسیم ہونے کا سوال ہے تو میرے خیال میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔

ایکسپریس: آج میاں نواز شریف سے لے کر (ن) لیگ کے ایم این اے، ایم پی اے یہاں تک کہ کونسلر تک سازشوں کا رونا رو رہے ہیں، آپ کے خیال میں کیا واقعی (ن) لیگ کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے ؟

حامد ناصر چٹھہ: جی بالکل (ن) لیگ کے خلاف سازش ہورہی ہے اور یہ سازش خود میاں نواز شریف کررہے ہیں۔

ایکسپریس: آج کل الیکشن کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال پیدا ہوگئی ہے، کوئی ٹیکنو کریٹس کی حکومت کی بات کررہا ہے تو کوئی تاخیر سے الیکشن ہونے کے دعوے کررہا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا ہونے جارہا ہے؟

حامد ناصر چٹھہ: ہر الیکشن سے پہلے ٹیکنو کریٹ حکومت ہی آتی ہے۔ معین قریشی کیا تھا؟ ایک ٹیکنو کریٹ۔ ان نگران حکومتوں کو آپ ٹیکنو کریٹ حکومت کہہ لیں یا کیئر ٹیکر حکومت کہہ لیں ایک ہی بات ہے۔

ایکسپریس: مگر آج کل جو باتیں ہورہی ہیں وہ یہ ہیں کہ اس مرتبہ ٹیکنو کریٹس کی جو حکومت آئے گی وہ لمبے عرصے تک رہے گی۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔

حامد ناصر چٹھہ: دیکھیں میں کوئی نجومی تو نہیں ہوں۔ مجھے تو اتنا پتا ہے کہ اگر حکومت قبل از وقت ختم ہوجائے تو اس کے بعد نوے دن اور حکومت اپنی مدت پورے کرکے جائے تو اس کے بعد ساٹھ دن کے لیے آئین کے تحت نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔

ایکسپریس: کیا آپ کو موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرتی ہوئی نظر آرہی ہے؟

حامد ناصر چٹھہ: پہلے مجھے تیس فیصد شک تھا کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرسکے گی مگر اب جو یہ بلوچستان میں صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ وہاں وزیراعلیٰ مستعفی ہوگئے ہیں تو اب مجھے چالیس فیصد یقین ہے کہ شاید موجودہ حکومت اپنی مدت پوری نہ کرسکے لیکن ساٹھ فیصد چانسز یہی ہیں کہ حکومت مدت پورے کرے گی۔ یہ بات یاد رکھیے کہ آئین میں پوری مدت نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مدت کا ذکر ہے جو پانچ سال ہے۔

ایکسپریس: مسلم لیگ نواز کے اندر جماعت کی سربراہی کے لیے جاری کشمکش کے بارے میں آئے روز خبریں آتی رہتی ہیں کہ نواز شریف، میاں شہباز شریف یا حمزہ شریف کی بجائے مریم صفدر کو قیادت سونپنا چاہتے ہیں، آپ کی معلومات کے مطابق کیا کچھڑی پک رہی ہے؟

حامد ناصر چٹھہ: میں شریف خاندان کے ساتھ رابطے میں تو نہیں ہوں لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ شاید میاں نواز شریف کی یہی خواہش ہے کہ ان کی جانشین مریم بی بی بنے۔ اب اس حوالے سے شریف خاندان میں کوئی کشمکش ہے یا نہیں، یہ تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا مگر میرا اندازہ ہے کہ ایسی کشمکش ہونی تو ضرور چاہیے۔

ایکسپریس: آپ کا یہاں نواز شریف سے اسی کی دہائی سے تعلق رہا ہے تو آپ نے ان کی شخصیت کو کیسا پایا؟

حامد ناصر چٹھہ: میرا ان سے تعلق صرف 1988ء تک رہا۔ اس وقت تک میرے ان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ اس وقت ہم دوست تھے۔ اکٹھے بیٹھتے، اٹھتے بھی تھے۔ کئی لمبے سفروں پر بھی گئے۔ اس وقت میں نے ایسا کچھ بھی محسوس نہیں کیا کہ ان کی طبیعت ایسی ہے کہ ان کی خواہش یا مرضی کے خلاف اگر کوئی بات بھی کرے تو وہ اس کو ناپسند کرتے ہیں۔ لیکن اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ''میں جو کہوں وہی ہو۔''

ایکسپریس: کیا اس طرز عمل کو آمرانہ رویہ کہا جاسکتا ہے؟

حامد ناصر چٹھہ: آمرانہ رویے کی تعریف مختلف لوگوں کے نزدیک مختلف ہوتی ہے۔ اگر ایک آدمی عوام سے منتخب ہوکر آتا ہے اور وہ اپنی کوئی خواہش نافذ کرتا ہے تو اس کو تو آمرانہ رویہ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن جو جمہوری روایات ہیں اگر کوئی اس کے برعکس اپنی خواہش نافذ کرتا ہے تو اس کو پھر آمرانہ ہی کہیں گے۔ اس لیے (ن) لیگ کی جانشینی کے حوالے سے مریم نواز کی جو بات کی جارہی ہے کہ یہ نواز شریف کی خواہش ہے تو ابھی اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ آمرانہ رویہ ہے یا نہیں۔ اگر یہ فیصلہ پارٹی کی رائے کے مطابق ہوا تو ٹھیک ہے لیکن اگر پارٹی کی رائے کے برخلاف یہ خواہش پارٹی پر تھوپنے کی کوشش کی گئی تو پھر یہ آمرانہ رویہ ہی کہلائے گا۔

ایکسپریس: کیا ہماری سیاسی پارٹیوں میں اتنا دم خم ہے کہ وہ اپنے سربراہ کے فیصلے کے خلاف جاسکیں؟

حامد ناصر چٹھہ: پارٹیوں میں یہ ہمت ہونی چاہیے کہ اگر وہ کسی بھی فیصلے کو نامناسب سمجھتی ہیں تو اس پر اپنے سربراہ سے اختلاف کرسکیں ورنہ وہ سیاسی جماعت کہلانے کی مستحق ہی نہیں ہیں۔

ایکسپریس: موروثی سیاست یا خاندانی آمریت کے بارے میں آپ کیا مؤقف رکھتے ہیں؟ کیا پاکستانی قوم کا مقدر مریم صفدر، حمزہ شہباز اور بلاول بھٹو ہی ہیں؟

حامد ناصر چٹھہ: نہیں بہت سے باصلاحیت لوگ موجود ہیں۔ یہ ہماری سیاست میں کمزوری ہے۔ لیکن یہی ہمارے خطے کا مزاج ہے۔ بھارت میں بھی ایسی صورتحال موجود ہے۔ گو، بی جے پی میں یہ چیز نہیں ہے، پہلے انہوں نے اٹل بہاری واجپائی کو وزیراعظم بنایا اور اب نریندر مودی، بی جے پی کی طرف سے وزیراعظم ہیں لیکن ان کی قدیمی پارٹی کانگریس اسی موروثی انداز میں چل رہی ہے اور کانگریس کے لوگ بھی یہ چاہتے ہیں کہ یہ اسی طرح چلے اور میرے خیال میں کسی نے سنجیدگی سے نہرو خاندان کا مقابلہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

ایکسپریس: جب بھی موروثی سیاست کی بات ہوتی ہے تو بھارت کی مثال ہی کیوں دی جاتی ہے؟

حامد ناصر چٹھہ: نہیں، میں پورے تھرڈ ورلڈ کنٹریز کی بات کررہا ہوں۔ مغربی ممالک اور امریکہ کی بات اور ہے۔ میں ہندوستان کو صحیح معنوں میں مستحکم جمہوری ملک نہیں سمجھتا۔ میرے خیال میں ہندوستان کا طرز حکومت جمہوری اور پارلیمانی نہیں ہے۔ وہ ہماری طرح ہی ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ ہمارے یہاں مارشل لاء لگتے رہنے کی وجہ سے جمہوری تسلسل برقرار نہیں رہا جبکہ ہندوستان میں ایسا نہیں ہوا اس لیے ان کا ٹریک ریکارڈ ہماری نسبت کچھ بہتر ہے ورنہ ان کا رویہ اور ان کی سوچ ہماری طرح ہی ہے۔ اگر ہمارے یہاں مارشل لاء نہ لگتے اور جمہوری تسلسل برقرار رہتا تو یہاں بھی موروثی سیاست بڑی حد تک کم ہوچکی ہوتی۔

ایکسپریس: اپنے وسیع سیاسی تجربے کی روشنی میں فرمائیں کہ شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالتوں میں جاری مقدمات کیا کسی نتیجے تک پہنچ پائیں گے یا ڈیل کی افواہوں درست ہیں ؟

حامد ناصر چٹھہ: میرا خیال ہے کہ کوئی ڈیل نہیں ہوئی اور اللہ نہ کرے ''اگر'' سعودیہ نے کوئی ڈیل کی بھی ہے تو ہم اس کے پابند نہیں ہیں۔ باقی اگر شریف خاندان کے خلاف احتساب مقدمات کسی منطقی انجام تک نہ پہنچے تو ملک انار کی کا شکار ہوجائے گااور یہاں دنگا فساد بپا ہو گا۔

ایکسپریس: کیا شریف خاندان کے احتساب کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے؟ جیسا کہ میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ خفیہ ہاتھ پیچھے سے ڈوریاں ہلا رہا ہے؟

حامد ناصر چٹھہ: دنیا کے تمام جمہوری ممالک اپنے سکیورٹی اور خارجہ معاملات میں اپنی مسلح افواج کو اعتماد میں لیکر چلتے ہیں۔ یہی طریقہ ہمارے یہاں بھی ہے۔ بس یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک میں کیونکہ فوج کو حکمرانی کرنے کے دو تین مواقع دیئے۔

ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف، تو اس وجہ سے ہمارے ملک میں فوج کا اثر کچھ زیادہ نظر آتا ہے لیکن ساری دنیا میں اسٹیبلشمنٹ اپنے ملک کی پالیسیوں میں بہت اہم کردار ادا کرنی ہیں اور انہیں کرنا بھی چاہیے کیونکہ وہ ایکسپرٹس ہیں۔ سیاسی حکومت کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماہرین، اپنی پارٹی اور عوام سب کی رائے سنے اور پھر فیصلہ کرے کہ کہ کیا کرنا ہے۔

اب ہمارے جو سکیورٹی ایشوز ہیں، افغانستان کے حالات ہیں۔ جو کچھ کشمیر میں روز ہورہا ہے، بھارت جو ورکنگ باؤنڈری پر چھیڑ چھاڑ کرتا ہے تو کیا اس تمام تر صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو پالیسی بناتے ہوئے مسلح افواج سے مشاورت نہیں کرنی چاہیے؟ بالکل کرنی چاہیے کیونکہ وہ اپنی فیلڈ کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔ اور وہ اپنی ماہرانہ رائے دیتے ہیں جو حکومت کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہیں۔ اسی طرح خارجہ امور میں دفتر خارجہ کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے۔

اگر توانائی بحران کا معاملہ ہو تو واپڈا کے انجینئرزکی رائے کو ہی اہمیت ملنی چاہیے۔ ایک سیاستدان جتنی بھی قابلیت اور اہلیت رکھتا ہو مگر ہر شعبے کے معاملات درست کرنے اور چلانے کے لیے اس شعبے کے ماہرین ہی کی رائے اور مشاورت سے استفادہ کرنا ہوتا ہے اور پھر اس کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

ایکسپریس: آپ نے ہمیشہ انتخابی سیاست کی، جو آپ کے جمہوری رویے کی عکاس ہے لیکن جب جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے دور کی بات ہوتی ہے تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں، اس تناظر میں آپ اپنے جمہوریت پسند رویے کا کیسے دفاع کریں گے؟

حامد ناصر چٹھہ: میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے کبھی بھی مارشل لاء لگنے یا جمہوریت کے التواء میں حصہ نہیں ڈالا۔ اب اگر مارشل لاء لگ ہی گیا ہو اور ایک حقیقت بن چکا ہو تو پھر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے سے تو کام نہیں چلتا اور پھر ملک کو واپس جمہوریت کی طرف بھی تو لانا ہوتا ہے۔ اس لیے ایک اس حکومت جس کو اس وقت کی عدلیہ بھی قبول کرچکی ہو تو پھر ایسی صورت حال میں وہی ہوسکتا تھا جو ہم نے کیا۔ آہستہ آہستہ فوج کو اپنے خیالات سے آگاہ کیا اور انہیں جمہوریت کی طرف واپس جانے کی طرف راغب کیا۔ پھر اس کے بعد نگران سیٹ اپ میں حصہ ڈال کر کوشش کی تاکہ مکمل جمہوریت بحال ہو اور ہم اپنے اس مقصد میں ہر مرتبہ کامیاب ہوئے۔

ایکسپریس: جنرل ضیاء نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کے لیے 85ء میں الیکشن کروائے اور جونیجو کو خود وزیراعظم منتخب کروایا، لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ 88ء میں جنرل ضیاء نے خود ہی آپ کی حکومت کا خاتمہ کردیا؟

حامد ناصر چٹھہ: مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ بلکہ شایدکسی کو بھی معلوم نہ ہو کیونکہ ضیاء الحق نے کسی کو بھی نہیں بتایا کہ کیا ہوا۔ وہ بتانا چاہتے تو میں وہ واحد فرد ہوتا جس کو بتاتے کیونکہ ایک تو میں ان کے ساتھ کام کررہا تھا دوسرے میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی تھا اور انہوں نے میرے ساتھ کھانے وغیرہ پر ایک دو ون ٹو ون ملاقاتیں بھی کیں۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے جنرل ضیاء اور جونیجو مرحوم کے درمیان آئین کے تحت صدر اور وزیراعظم کے اختیارات کے معاملے پر اختلافات تھے۔

ایکسپریس: تاریخ بتاتی ہے کہ جنرل ضیاء کے دور میں فخر امام کا سپیکر قومی اسمبلی بننا آمر کی پہلی شکست تھی، کیسے؟ جنرل ضیاء فخر امام کو کیوں پسند نہیں کرتے تھے اور وہ کسے بنوانا چاہتے تھے؟ فخر امام کے بعد آپ کے سپیکر بننے میں کون سے عوامل کارفرما تھے؟

حامد ناصر چٹھہ: جنرل ضیاء بالکل فخر امام کو ناپسند نہیں کرتے تھے بلکہ سپیکر کے الیکشن سے چار پانچ دن پہلے تک جنرل ضیاء 25-20 ایم این ایز کو روزانہ بلا کر ان سے ملاقات کرتے تھے۔ میں اس وقت وزیر تھا۔ وزراء ان ملاقاتوں میں شامل نہیں ہوتے تھے۔

جنرل ضیاء نے سب ممبران اسمبلی کو یہ بتایا تھا کہ وزیراعظم میری مرضی کا ہوگا اور سپیکر آپ اپنی مرضی سے جس کو بھی چن لیں۔اس بات سے یہ پتا چلتا ہے کہ انہیں فخر امام کے ساتھ کوئی مخاصمت نہیں تھی۔ بعد میں وزیراعظم جونیجو مرحوم اور فخر امام میں کوئی ریفرنس وغیرہ کے معاملے پر اختلاف ہوا جس پر وزیراعظم نے سپیکر تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس وقت فخر امام سپیکر شپ سے ہٹے تو میرا سپیکر کے عہدے کے امیدواروں میں نام شامل نہیں تھا بلکہ میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے وزیراعظم کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اکھاڑ پچھاڑ نہ کریں اور نوزائیدہ جمہوریت کو چلنے دیں۔ وزیراعظم جونیجو مرحوم کو یہ مشورہ میرے علاوہ موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد مرحوم نے بھی دیا تھا۔

ایکسپریس: سپیکر کے عہدے کے لیے پھر آپ کا نام کس نے تجویز کیا؟

حامد ناصر چٹھہ: میرا نام تو تقریباً چار ماہ بعد آیا۔ تین چار ماہ تو فخر امام کو سپیکر کے عہدے سے ہٹانے کے لیے کام ہوتا رہا۔ وزیراعظم جونیجو نے تمام ممبران قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیا۔ میں سپیکر شپ کے لیے خواہش مند نہیں تھا کیونکہ میرے نزدیک سپیکر کی نوکری بہت عجیب سی ہوتی ہے۔ وہ الگ اکیلا سا بیٹھا ہوتا ہے، یہ بہت مشکل کام ہے۔

ایکسپریس: کیا سپیکر کو مکمل غیر جانبدار ہونا چاہیے؟

حامد ناصر چٹھہ: جی بالکل، ہر بندہ کسی نہ کسی پارٹی سے تعلق تو رکھتا ہے مگر سپیکر بننے کے بعد اسے مکمل غیر جانبدار ہونا چاہیے کیونکہ سپیکر پورے ہاؤس کا کسڈوڈین ہوتا ہے۔ میں اور فخر امام بالکل غیر جانبدار سپیکرز تھے۔ ملک معراج خالد بھی ایک غیر جانبدار سپیکر تھے۔جب فخر امام کے بعد سپیکر شپ کے امیدواروں کے نام سامنے آنے لگے تو میرا اس میں کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔

کسی نے یٰسین وٹو، جو اس وقت وزیر خزانہ تھے، کا نام سپیکر کے لیے تجویز کیا۔ ان کا نام اس لیے لیا گیا تھا کہ ممبران یہ چاہتے تھے کہ یہ وزیر خزانہ نہ رہیں کیونکہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ وزارت خزانہ کو صحیح طور پر نہیں چلا رہے۔ حالانکہ وزیر نے تو اپنے ماتحت ماہرین کی مدد سے وزارت چلانی ہوتی ہے۔ لیکن وٹو صاحب کے نام کو زیادہ تر ممبران نے قبول نہیں کیا۔ میں وفاقی کابینہ کا رکن تھا اور اپنی وزارت میں بہت خوش تھا مگر کسی بندے نے میرا نام سپیکر کے لیے تجویز کیا اور پھر سب نے ہی اس کو پسند کیا۔ میں تو کسی سے ووٹ لینے بھی نہیں گیا تھا۔ اگر مجھے دوبارہ مواقع ملے تو بھی میں کبھی سپیکر بننا نہیں چاہوں گا۔ کیونکہ یہ بڑا عجیب سا کام ہے۔

ایکسپریس: آئی جے آئی کی حقیقت کیا تھی اور اس بارے میں آپ ہمارے قارئین کو کچھ ایسا بتاسکیں جو اس کے بارے میں پہلے کبھی عیاں نہیں ہوا؟

حامد ناصر چٹھہ: مجھے نہیں معلوم کے آئی جے آئی کیسے بنی۔ 88ء کے بعد جونیجو مرحوم کا نواز شریف سے جھگڑا ہوگیا تھا مگر پھر کچھ مشترکہ دوستوں نے مل کر ان دونوں کی صلح کروادی۔ جونیجو صاحب سندھڑی چلے گئے اور میں اپنے حلقے میں چلاگیا۔ الیکشن مہم شروع ہوگئی تھی۔ اسی دوران اچانک پتا چلا کہ جونیجو صاحب کو خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد بلوایا گیا ہے اور ادھر آئی جے آئی تشکیل دے دی گئی ہے۔ آئی جے آئی 88ء میں بنی اور 90ء کے الیکشن میں انتخابات جیتی۔ مجھے نہیں پتا کہ آئی جے آئی کیسے بنی کیونکہ میں سپیکر تھا اور پارٹی کا عہدہ دار نہیں تھا اور نہ ہی پارٹی میٹنگز میں شریک ہوتا تھا۔

ایکسپریس: آئی جے آئی بنانے کے لیے سیاستدانوں میں رقوم بانٹنے کے حوالے سے مشہور و معروف اصغر خان کیس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

حامد ناصر چٹھہ: اس وقت تو ایسی کوئی بات سننے میں نہیں آئی تھی مگر اب جبکہ اس کیس میں اس وقت کے، آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی نے اپنا بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کروایا ہے کہ انہوں نے سیاستدانوں کو اس مد میں رقوم دیں تھیں تو اس کا مطلب ہے کہ پھر بات صحیح ہی ہوگی کیونکہ میں جنرل درانی کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ وہ انتہائی نفیس اور بے حد شریف آدمی ہیں اور اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے فلاں فلاں کو پیسے دیئے تو میں ان کی اس بات پر یقین رکھتا ہوں۔ میرے خیال میں اصغر خان کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے جونیجو مرحوم کے بعد میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کو ٹیک اوورکر لیا، اس میں کہاں تک صداقت ہے؟

حامد ناصر چٹھہ: یہ بالکل درست بات ہے کہ نواز شریف نے مسلم لیگ کو ٹیک اوور کیا اور ہماری علیحدگی کی وجہ بھی یہی معاملہ تھا۔ جونیجو صاحب جب فوت ہوئے تو میں نے نوازشریف کو کہا کہ مرحوم کا چہلم ہو لینے دیں، آپ کیوں ابھی سے یہ کام کرنا چاہ رہے ہیں، آپ کے علاوہ کوئی امیدوار ہے ہی نہیں تو آپ کو پارٹی کے صدر کے چناؤ کی کیوں جلدی ہے، یہ بات میں نے باقاعدہ ایک میٹنگ میں کہی، جو انہوں نے ہی بلائی تھی، جس میں غلام حیدر وائیں اور جمالی صاحب جیسے پارٹی کے بہت سے سینئر لوگ شامل تھے، میں نے کہا کہ آپ اکثریت کے صدر کیوں بنتے ہیں جبکہ آپ پارٹی کے متفقہ صدر بن سکتے ہیں۔

مسلم لیگ کا یہ رواج ہے کہ وہ جنرل کونسل میں جانے سے پہلے سینئر رہنماؤں سے مشاورت کرتے ہیں، جس میں ایک شخص پر اتفاق رائے پیدا ہو جائے تو پھر اسے کونسل میں لے جا کر منتخب کروا لیتے ہیں، تاکہ کوئی جھگڑا نہ ہو۔ لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی تو میں نے اپنی وزارت سے استعفی دے دیا۔ پھر انہوں نے خود کو امیدوار کے طور پر نامزد کروایا، کوئی الیکشن نہیں کروایا، بلکہ بعدازاں بہت سارے سینئر رہنماؤں کے بغیر ہی ایک اجلاس بلوا کر خود کو منتخب کروا لیا۔ اس کے بعد ہماری پارٹی کے کچھ لوگوں نے اپنی میٹنگ بلائی، جس میں مجھے منتخب کر لیا گیا، یوں ایک تنازع بھی پیدا ہو گیا۔

ایکسپریس: پاکستان کی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تب رونما ہوا جب 93ء میں صرف 18 نشستوں کے ساتھ آپ کی جماعت کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلی کا تاج مل گیا، اس وقت ایسا کیا ہوا کہ آپ کے گروپ نے کسی حد تک نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود نواز شریف کے بجائے پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا، کیا صرف وزارت اعلی کے لئے آپ نے ایسا کیا؟

حامد ناصر چٹھہ: دیکھیں! پہلی بات تو یہ ہے کہ نواز شریف سے ہماری کوئی نظریاتی ہم آہنگی تھی ہی نہیں، اگر ہوتی تو ہم سب اسی پارٹی میں نہ ہوتے۔

ایکسپریس: جناب! آپ اور وہ مسلم لیگی ہی تو تھے۔

حامد ناصر چٹھہ: نہیں، نہیں وہ (میاں نواز شریف) مسلم لیگی اس وقت تھے نہ اب ہیں، مسلم لیگی ہونا اور بات ہے جبکہ مسلم لیگ میں شامل ہونا دوسری۔ کیوں کہ مسلم لیگ ایک سوچ، نظریہ اور کیفیت کا نام ہے۔

ایکسپریس: سر وہ کیفیت کیا ہے؟
حامد ناصر چٹھہ: وہ ترجیحات ہوتی ہیں۔ ہم سب الحمداللہ مسلمان ہیں تو اس کو ایک طرف رکھیں۔ مسلم لیگی کی پہلی ترجیح ہو گی پاکستان، دوسری مسلم لیگ اور تیسرے نمبر پر وہ اپنے، اپنے خاندان کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ لیکن ان کی پہلی ترجیح اپنی ذات، دوسری شہباز شریف اور تیسری ترجیح تھی اتفاق فائونڈری جبکہ پاکستان یا مسلم لیگ چوتھے نمبر پر آتی تھی۔ اور میں یہ دعوی کرتا ہوں، ان کی آج بھی یہی ترجیحات ہیں۔

ایکسپریس: لیکن میاں نواز شریف تو کہتے ہیں میں خود ایک نظریہ ہوں؟
حامد ناصر چٹھہ: اچھا! تو بتائیں ان کا کیا نظریہ ہے؟ اگر صرف اُن ججز کے خلاف جانا نظریہ ہے تو پھر مان لیجئے، میں تو اسے صرف کینہ پروری سمجھتا ہوں۔

ایکسپریس: ہم خیال گروپ سے ق لیگ اور پھر ق لیگ سے ہم خیال گروپ کی الگ شناخت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
حامد ناصر چٹھہ: NO,NO ہم خیال سے ق لیگ نہیں۔ میں ایک دن بھی ق لیگ میں نہیں رہا، بالکل ایسے ہی جیسے میں ایک دن بلکہ ایک منٹ بھی ایسی پارٹی میں نہیں رہا، جس کا سربراہ نواز شریف ہو۔ اس کے بعد جونیجو گروپ بنا، جس کا مجھے سربراہ بنا دیا گیا اور میں اسی گروپ کے ٹکٹ پر 2002ء میں منتخب ہوا تھا، میں کسی اور پارٹی یا ق لیگ سے منتخب نہیں ہوا تھا اور ہم خیال اس وقت تھی ہی نہیں۔ تو پھر اس وقت جمالی صاحب جیسے لوگوں نے کوشش کی کہ مسلم لیگیوں کو اکٹھا کیا جائے، جس میں ہم ق لیگ میں گئے نہ ق لیگ ہم میں آئی، بلکہ سب نے مل کر پاکستان مسلم لیگ بنائی، جس کے ساتھ الف، ب، ج، د کچھ نہیں لگتا تھا۔

اس کے بعد جو ہمارا ان سے جھگڑا ہوا، وہ انہوں نے ہی پیدا کیا۔ چودھری شجاعت صاحب پرویز الہی کو صدر بنانا چاہتے تھے، جس کے ہم خلاف تھے کہ آپ اس پارٹی کو خاندانی پارٹی مت بنائیں، ہم سب مل کر بیٹھ جاتے ہیں اور جو اہل ہو گا اسے صدر بنا دیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ پھر چودھری صاحب نے کہا کہ اچھا پرویز کو نہیں بناتے تو پھر مجھے ہی تیسری بار صدر بنا دو، لیکن پارٹی کے منشور کے مطابق کوئی فرد دو سے زیادہ بار صدر نہیں بن سکتا تھا اور ہم اس پر آمادہ نہ ہوئے تو یوں ہمارے راستے جدا ہو گئے۔ بعدازاں وہ پارٹی منشور کی متعلقہ شق میں ترمیم کئے بغیر ہی تیسری بار صدر بن گئے اور دیکھیں! کہ کسی نے اعتراض بھی نہیں کیا، کیوں کہ ہم تو وہاں تھے ہی نہیں۔

ایکسپریس: تو چٹھہ صاحب پھر کیا یہ مائینڈ سیٹ ایک ہی ہے، یعنی میاں نواز شریف صاحب اور چودھری برادران کا؟
حامد ناصر چٹھہ: ہاں، ہاں بالکل یہ ایک ہی مائینڈ سیٹ ہے اور اس کی وجہ ان کی وہ سیاسی تربیت ہے، جو انہوں نے نواز شریف سے لی۔ مشرف دور سے پہلے یہ نواز شریف ہی کے ساتھ تو تھے، تو انہوں نے اسی سے سیکھنا تھا۔

ایکسپریس: 90ء کی دہائی کے بعد آپ نے 2013ء کے الیکشن سے قبل رائیونڈ میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا، وجہ میاں نواز شریف کے مزاج کی سختی کا عمومی تاثر ہے یا آپ کی ڈیمانڈ زیادہ تھی؟
حامد ناصر چٹھہ: دیکھیں! میں ذاتی حیثیت میں ان کے ساتھ الائنس نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن پارٹی میں رہتے ہوئے، اکثریتی رائے پر سر نگوں ہونا پڑا۔ ہم گئے وہاں، لیکن ان کی نیت خراب تھی۔ وہاں ایک ایم او یو سائن ہوا، جو آج بھی ہمارے پاس موجود ہے، لیکن وہ ہمیں بہانے کرتے رہے کہ آج میٹنگ ہوتی ہے کل میٹنگ ہوتی ہے، جس میں حلقوں اور امیدواروں کا انتخاب کیا جائے گا، لیکن وہ میٹنگ ہوئی ہی نہیں۔ دوسری بات ہم نے کوئی ڈیمانڈ کی ہی نہیں تھی، زیادہ یا کم کا تو سوال ہی نہیں۔

ایکسپریس: قومی اور مقامی سطح پر 2002ء تا 2007 میں آپ اپنی کارکردگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اگر اچھی کارکردگی تھی تو پھر تین بار 2008ء میں آپ خود ہارے، 2013ء اور اب ضمنی الیکشن میں آپ کا بیٹا ہار گیا۔۔۔کیوں؟
حامد ناصر چٹھہ: بات سنیئے! پہلی بار تو ہم اس لئے ہارے کہ ق لیگ کے ریلے میں بہہ گئے، تاہم پھر بھی 2008ء کے الیکشن میں، میں نے صوبائی اسمبلی کی نشست تو جیتی تھی۔ اور اس کے بعد پھر میں نے خود کوئی الیکشن ہی نہیں لڑا۔ 2013ء میں بیٹے نے الیکشن لڑا اور 61 ہزار ووٹ لئے، اور اس وقت بھی میں نے بیٹے کے لئے اقبال ڈار صاحب سے جونیجو لیگ کا ہی ٹکٹ لیا۔ اور میں چیلنج کرتا ہوں کہ سنٹرل پنجاب چھوڑ کر کسی حلقے میں کسی کے پاس اتنے ذاتی ووٹ نہیں ہو سکتے۔ پھر ضمنی الیکشن میں بیٹے نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑا، جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی کو اس حلقہ سے صرف 11 ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ ضمنی الیکشن میں 70ہزار ووٹ زیادہ یعنی 81 ہزار ووٹ ملے۔ تمام تر حکومتی مشینری اور حکومتی نمائندوں کی کثیر تعداد کی اس حلقہ میں موجودگی کے باوجود ہم صرف ہزار، ڈیڑھ ہزار ووٹ سے ہارے۔

ایکسپریس: کسی زمانے میں پاکستان میں نواب زادہ نصراللہ جیسے سیاست دان اپنی جائیداد بیچ کر سیاست کیا کرتے تھے لیکن اب یہ جو نیا رجحان پیدا ہو گیا ہے کہ رئیس، جاگیر دار یا کوئی صنعت کار اپنی جائیداد کو کئی گنا بڑھانے کے لئے سیاست میں آتا ہے، اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
حامد ناصر چٹھہ: دیکھیں! یہ جو لوگ اپنی جائیدادیں بڑھانے کے لئے سیاست میں آتے ہیں، یہ ابھی گزشتہ 20،30 سال سے ہونا شروع ہوا ہے۔ 75ء سے پہلے آپ نے کبھی سنا تھا کہ سیاست دان کرپٹ نکلا؟ یہ سب کچھ اب اس لئے ہونے لگا ہے کہ آپ نے بزنس مین کو سیاست میں شامل کر لیا ہے اور بزنس مین بزنس کرنے سے نہیں رہ سکتا۔

ایکسپریس: تو پھر اس کا حل کیا ہے؟
حامد ناصر چٹھہ: بہت سادہ اور عام فہم۔ عوام سوچ سمجھ کر ووٹ دیں۔

ایکسپریس: متحدہ مسلم لیگ کے لئے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں کیا کہیں گے؟ کیوں کہ چوہدری شجاعت صاحب جیسے لوگ وقتا فوقتاً اس حوالے سے کام کرتے رہتے ہیں؟
حامد ناصر چٹھہ: اس وقت تو میرے علم میں کچھ نہیں، کیوں کہ میں سیاست سے ریٹائر ہو چکا ہوں، تاہم خواہش ہے کہ مسلم لیگی ذہن والے اکٹھے ہوں اور وہ برسراقتدار آکر اس ملک کی تقدیر بدلیں۔ آپ دیکھیں! جب عمران خان میرے گھر آئے تو انہوں نے وہاں تقریر کے دوران کہا کہ آج اگر قائداعظم کی مسلم لیگ ہوتی تو وہ اس کے سب سے بڑے ورکر ہوتے۔ اچھا میں یہاں ایک وضاحت پھر کر دوں کہ میں پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوا اور نہ ہی پی ٹی آئی میری پارٹی ہے، اس میں میرا بیٹا شامل ہوا، جس کی بحیثیت بیٹا میں حمایت کرتا ہوں۔ تاہم میرے خیال میں موجودہ سیاسی پارٹیوں میں پی ٹی آئی ایک بہترین آپشن ہے۔

ایکسپریس: بلوچستان میں سکیورٹی کی ابتر صورت حال ہو یا لڑکھڑاتی حکومت، یہ سب کچھ کسی سازش کا نتیجہ ہے یا ہمارے حکمرانوں کی پالیسیاں حالات کے بگاڑ کی وجہ ہیں؟ بلوچستان میں سکیورٹی کے استحکام اور خوشحالی کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے؟
حامد ناصر چٹھہ: دیکھیں! بلوچستان میں پہلا سکیورٹی ایکشن ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا، تب سے اس بچارے صوبے کی قسمت میں ایکشن ہی لکھے جا چکے ہیں، جو اب تک ہوتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں سرداری نظام ہے اور میرے خیال میں سرداری نظام اور جمہوریت اکٹھے نہیں چل سکتے۔ اس وجہ سے ایک تنائو پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہیں۔

وہاں آپ کسی پڑھے لکھے نوجوان کو پوچھیں تو وہ یہی کہے گا کہ ہمارے صوبے کو سرداروں نے ترقی نہیں کرنے دی اور اس چیز کا میں خود بھی گواہ ہوں۔ جب میں وفاقی وزیر برائے پلاننگ تھا تو پیسے منظور کروا کر بلوچستان کے لئے بے شمار پراجیکٹ شروع کروانے کی کوشش کی، لیکن چھ ماہ بعد ہی وہاں سے جواب آ جاتا کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا اور پیسا ضائع ہو جاتا۔ وہاں کے حالات ایسے ہیں کہ ایک بار اچکزئی صاحب نے کہا کہ ''ہمارے علاقے میں عورت کی قدر ایک گائے سے زیادہ نہیں'' میں اچکزئی صاحب سے جلدی کسی بات پر اتفاق نہیں کرتا، لیکن یہ بات انہوں نے بالکل درست کہی۔

ایکسپریس: پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ کی نئی پالیسی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا امریکہ اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر لاد کر بھارت کی مدد سے کوئی ایڈوانچر کرنے جا رہا ہے؟
حامد ناصر چٹھہ: بھارت کی تو یقیناً یہ خواہش ہو گی، لیکن انہیں خوف بھی ہے، ہم اللہ کے فضل سے بے بس نہیں، ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں۔ پھر بھارت کے دوسری طرف چین بیٹھا ہے، جس کے ہمارے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، ایران سے تعلقات مثالی تو نہیں لیکن خراب بھی نہیں، رہی بات افغانستان کی تو حکومت کو چھوڑیں، میرا نہیں خیال کہ افغانی بھی ہمیں بری نظر سے دیکھتا ہے۔ لہذا میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کے اوپر کوئی چڑھائی کرے۔ اور امریکا بھی کوئی اتنا بے وقوف نہیں ہے، وہ صرف دبائو ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ ہم ڈومور کریں۔ حالاں کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ پوچھنا تو ہمیں امریکا سے چاہیے کہ آپ کے پاس بے پناہ وسائل ہیں، جدید ترین ٹیکنالوجی ہے تو آپ کی طرف جو بندے ہیں، انہیں ختم کر دیا آپ نے؟ آپ بھی تو افغانستان سے ان لوگوں کا خاتمہ کیجئے، جو ہمارے ملک میں آ کر تباہی مچاتے ہیں۔ تو میرا نہیں خیال کہ وہ ایسا کرے گا، لیکن ٹرمپ اور مودی کے ہوتے ہوئے کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا۔

پسند نا پسند
شکار کرنا اور اسپورٹس دیکھنا میرا محبوب مشغلہ ہے۔ ایچی سن کالج میں، میں نے سارے کھیل کھیلے، ہاکی، ٹینس، بیڈمنٹن وغیرہ، لیکن دیکھنے کا شوق صرف کرکٹ اور ٹینس ہے۔ کھلاڑی بہت سارے پسند ہیں، لیکن عمران خان، جاوید میاںداد، سرفرازنواز، سعید انور زیادہ پسندیدہ ہیں۔ موسیقی کبھی سنا کرتے تھے، اب نہیں، جب سنا کرتے تھے تو اس وقت ہلکی پھلکی موسیقی پسند تھی یعنی غزلیں وغیرہ۔ پسندیدہ گلوکار مہدی حسن اور نور جہاں۔ فلم بہت کم دیکھی، جب دیکھی تو بھی اسے کئی حصوں میں تقسیم کرکے، یعنی آدھا گھنٹہ آج دیکھا، پھر اگلے روز آدھا گھنٹہ، 15منٹ دیکھ لی، یوں کوئی ایک فلم کئی دن میں پوری ہوتی تھی۔ کوئی بھی فلم بہت زیادہ پسند نہیں آئی، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر ایک ہی وقت میں پوری فلم نہ دیکھ لیتا۔ ڈرامے میں دیکھتا ہی نہیں۔

آج کے اداکاروں کا مجھے پتہ نہیں، لیکن ایک زمانے میں ندیم، محمد علی اور وحید مراد پسند تھے۔ کتابیں میں نے بہت پڑھی ہیں، آج بھی میں رات کو سونے سے پہلے کتاب نہ پڑھوں تو مجھے نیند نہیں آتی، لیکن کسی ایک کتاب کا نام نہیں لے سکتا۔ اچھا! میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاؤں کہ اب میں بہت زیادہ سنجیدہ کتابیں نہیں پڑھتا تاکہ ذہن تروتازہ رہے۔ زندگی میں ہر کتاب ایک بار ہی پڑھی سوائے ٹیکسٹ بک کے۔ پسندیدہ سیاست دان کے بارے میں اظہار خیال کرنے کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ اُس کا نام لیا جانا چاہیے جس سے آپ ملیں ہوں اور اچھی طرح آشنا ہوں۔ تو اس ضمن میں، میں کہوں گا کہ میرے پسندیدہ سیاست دان دو ہیں، ایک محمد خان جونیجو اور دوسرا محترمہ بے نظیر بھٹو۔ اور آپ دیکھیں! کہ یہ دونوں ایسے ہیں، جو ایک دوسرے کو شدید ناپسند کرتے تھے، اور اتفاقاً دونوں سندھی بھی تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں