ڈرون خونی جنگوں سے لے کر فصلوں کی رکھوالی تک
مستقبل قریب میں اُڑنے والے ان روبوٹوں کا روزمرہ زندگی میں استعمال عام ہوجائے گا۔
''چند ماہ قبل میں نے ایک کمپنی ''پیرٹ''سے ایک بغیر پائلٹ طیارہ حاصل کیا جس کا نام ویسے تو AR.Drone 2.0 تھا لیکن میں اسے آسانی کے لیے ''پیرٹ'' ہی کہوں گا۔
پیرٹ گذشتہ سال مئی میں فروخت کے لیے مارکیٹ میں آیا تو اس کی قیمت تین سو ڈالر تھی۔پیرٹ چار پروں والا تھا یعنی یہ ایک قسم کا کھلونا ہیلی کاپٹر تھا جسے ڈارتھ وائڈر نامی انجینئر نے تیار کیا تھا۔یہ خاصا شور کرتا اور غلط ملط پیغام بھیجتا تھا۔
اس طرح یہ خاصی مشکل سے واپس لینڈ کرتا تھا۔لیکن اگر یہ اچھی کارکردگی دکھانے پر آئے تو بڑا زبردست تھا۔پیرٹ کو اسمارٹ فون کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔یہ اسمارٹ فون پر بڑی شاندار ویڈیو بھی بھیجتا تھا۔اسمارٹ فون پر ٹیک آف کا بٹن دبانے سے یہ ہوا میں بلند ہوتا اور آپ کے آس پاس چکرلگانے کے علاوہ ہوا میں کھڑا بھی رہ سکتا تھا۔
چھوٹے بچے گرمیوں میں اس کے نیچے کھڑے ہوکر اس کی ٹھنڈی ہوا سے بھی لطف اندوز ہوسکتے تھے جو اس کے پروں کے گھومنے سے آتی تھی۔یہ ایک مشینی کھلونا تھا جسے آپ کسی پالتو جانور کی طرح اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔ لیکن جس طرح بلیاں اور کتے شیروں اور بھیڑیوں جیسے ہوتے ہیں ، اسی طرح پیرٹ بھی ان مہلک ''مشینی قاتلوں'' سے ملتا جلتا تھا جنہیں دنیا ''ڈرون'' کے نام سے جانتی ہے اور جو پاکستان، افغانستان ، عراق ، فلسطین ،یمن اور دیگر شورش زدہ ملکوں میں ہزاروں افراد کی جانیں لے چکے ہیں۔ ''
مذکورہ بالا الفاظ ''ٹائم میگزین'' کے اسٹاف رائٹر لیو گراس مین کے ہیں۔ڈرون طیاروں کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون طیارے جو آج کل جنگوں میں استعمال ہورہے ہیں اور انسانوں کی جانیں لے رہے ہیں ، مستقبل قریب میں یہی ڈرون زمانہ امن کے بے شمار مثبت کاموں کے لیے بھی استعمال ہوں گے۔
ایک دلچسپ احساس
ڈرون کو اڑانا، چاہے یہ کھلونا پیرٹ ہی کیوں نہ ہو، ایک دلچسپ احساس ہے جس سے آپ کو پتہ چلتا ہے کہ یہ کس قدر شاندار ٹیکنالوجی ہے۔ڈرون محض ایک آلہ ہی نہیں ہے بلکہ جب آپ اس کو استعمال کرتے ہیں تو یوں سمجھیں کہ آپ اس کے ذریعے دیکھتے اور حرکت کرتے ہیں۔آپ اس میں سوار ہوتے ہیں۔
یہ آپ کے جسم اور دماغ کی رسائی کو اسی طرح وسیع کردیتا ہے جیسے انٹرنیٹ آپ کے دماغ کی رسائی کو وسعت دیتا ہے۔انٹرنیٹ ہماری ورچوئل موجودگی جبکہ ڈرون جسمانی موجودگی کو وسعت دیتا ہے۔ گذشتہ دس سال کے دوران جو شاندار ٹیکنالوجیز دنیا کے سامنے آئی ہیں ان میں اسمارٹ فون اور تھری ڈی پرنٹنگ کے ساتھ یہ ڈرون بھی شامل ہیں۔
جہاں تک امریکی فوج کا تعلق ہے تو ان ڈرونز نے تو اس کی کایا ہی پلٹ دی ہے۔اب امریکی حکومت نے لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے اپنی طبعی موجودگی کو بے تحاشا وسعت دیدی ہے۔دس سال قبل پنٹاگون کے پاس صرف بچاس ڈرون تھے اور اب ان کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے۔اس وقت امریکی فضائیہ کے بیڑے میں جو طیارے ہیں ، ان میں ایک تہائی بغیر پائلٹ والے ہیں۔
امریکی فوج کی رپورٹ کے مطابق 2012 کے پہلے گیارہ ماہ میں افغانستان میں 447 ڈرون حملے کیے گئے جو کہ 2011 سے 294 حملے زیادہ تھے۔امریکی صدر اوبامہ کے اقتدار میں آنے سے لیکر اب تک امریکا صرف پاکستان میں تین سو سے زائد خفیہ ڈرون حملے کرچکا ہے حالانکہ پاکستان کے ساتھ امریکا کی کوئی جنگ نہیں ہورہی۔ 2013 میں اب تک پاکستان کے خلاف پانچ خفیہ ڈرون حملے کیے جاچکے ہیں۔ یمن میں آٹھ حملے کیے گئے۔پنٹاگون شمال مغربی افریقہ میں ڈرون طیاروں کا اڈہ بنانے کی منصوبہ بندی بھی کررہا ہے۔
امریکی فوج کی طاقت میں اضافہ
ڈرون طیاروں نے امریکی فوج کو پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور بنادیا ہے۔اب امریکی فوج اپنے جوانوں اور سازوسامان کو خطرے میں ڈالے بغیر اپنے اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بناسکتی ہے۔اس کے علاوہ وہ جغرافیائی طورپر بھی کسی کی محتاج نہیں ہوتی۔بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے سینئر فیلو اور جنگی ماہرپیٹر سنگر کا کہنا ہے کہ ڈرونز نے جنگ کے میدان میں تدبیراتی چالوں tacticسے لیکر ڈاکٹرائن اور مجموعی حکمت عملی تک سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔
میدان جنگ کی کایا پلٹنے کے بعد اب ڈرونز زمانہء امن کی کایا بھی پلٹنے کے لیے تیار ہیں۔ایک سال قبل صدر اوبامہ نے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (FAA)کو حکم دیاکہ وہ بغیر پائلٹ طیاروں کے سول معاملات میں استعمال کے حوالے سے طریق کار مرتب کریں۔سول معاملات میں ان کے استعمال کا مطلب ہے کہ پولیس ان کو جائے وقوعہ کے مطالعے اور نگرانی کے لیے استعمال کرے گی۔
کسان اور کاشتکار ان کو اپنی فصلوں کی رکھوالی کے لیے استعمال کریں گے۔تعمیراتی کمپنیاں سائٹس کی نگرانی کے لیے ان کا استعمال کریں گے۔ ہالی وڈ ان کو فلموں کی تیاری میں استعمال کرے گی۔مشاغل پسند لوگ ان کو تفریح کے لیے استعمال کریں گے۔ فوٹوگرافی کے شوقین حضرات شاندار شاٹ لینے کے لیے ان کا استعمال کریں گے۔حتیٰ کہ پیزا کی ڈیلیوری کے لیے بھی ان کو استعمال کیا جائے گا۔
ڈرونز کی ابتدائی اشکال
اگرچہ ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی گذشتہ دس سال کے دوران کھل کر دنیا کے سامنے آئی ہے تاہم ان کی ابتدائی اشکال سو سال قبل بھی موجود تھیں۔نکولا ٹسلا نامی ایک انجینئر نے 1898 میں ریموٹ کنٹرول وائرلیس پاور بوٹ پیٹنٹ کرائی تھی۔ امریکا نے پہلی جنگ عظیم کے دوران بغیر پائلٹ بائی پلین طیارہ تیار کرلیا تھا تاہم اسے جنگ میں استعمال نہیں کیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک کمپنی ''ریڈیوپلینز''نے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرونز تیار کیے تھے۔1944ء میں امریکی نیوی کے منصوبے کے تحت B-24 طیارے کو ڈرون کی طرح استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ طیارے کو بموں سے بھر کر جرمنی کے خلاف حملے کے لیے بھیجا گیا۔
منصوبہ یہ تھا کہ جرمنی سے کچھ دور پائلٹ پیراشوٹ کے ذریعے جہاز سے زمین پر کود جائے گا اور بموں سے بھرا طیارہ جرمنی میں گر جائے گا۔ تاہم یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا کیونکہ طیارے میں موجود بم وقت سے پہلے ہی پھٹ پڑے جس سے پائلٹ جوزف کینیڈی کو بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑے جوکہ بعدازاں امریکا کاصدر بننے والے جان ایف کینیڈی کا بڑا بھائی تھا۔امریکا نے ویت نام کی جنگ میں بھی نگرانی کے لیے ڈرونز کو استعمال کیا۔ تاہم ڈرون کا اصل عہد 2001 کے بعد شروع ہوا جب امریکا نے ''پریڈیٹر'' نامی ڈرونز کا افغانستان میں استعمال شروع کیا۔یہ پریڈیٹر طیارہ اب واشنگٹن کے نیشنل ائیر اینڈ سپیس میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔
امریکی ڈرونز کی شاندارکامیابی
اگر اعداد وشمار کو مدنظر رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ امریکا کی ڈرون مہم زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ نیوامریکا فاؤنڈیشن نامی ایک پبلک پالیسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں کے ذریعے امریکا نے القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے پچاس سے زائد انتہائی مطلوب رہنماؤں کو کامیابی سے ہدف بنایا۔
تاہم اس کے باوجود ڈرون مہم کو خاصی تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا اور الزام عائد کیا گیا کہ ان کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بے گناہ افراد بھی ہلاک ہورہے ہیں ۔2012ء میں صدر اوبامہ نے دعویٰ کیا کہ ڈرون مہم ٹارگٹ کلنگ میں کامیاب رہی اوراس کا نشانہ زیادہ تر وہی لوگ بنے جو دہشت گردی کے واقعات میں مطلوب تھے۔رپورٹ کے مطابق جہاں تک افغانستان کی ڈرون مہم کا تعلق ہے تو اس کو امریکی فوج چلا رہی ہے اور کھلے بندوں چلا رہی ہے لیکن دنیا کے بہت سے علاقوں میں یہ مہم سی آئی اے چلارہی ہے جو زیادہ تر خفیہ ہے۔
ڈرون سے ہلاکتوں کے اعداد وشمار میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔یوکے کے بیورو آف انوسٹی گیٹو جرنلزم کے مطابق 2004 ء سے اب تک صرف پاکستان میں ڈرون حملوں سے 2,629 سے لے کر3,461 افراد ہلاک ہوچکے ہیںجن میں پانچ سو سے نو سو تک سویلین یعنی بے گناہ لوگ تھے۔دوسری جانب نیوامریکا فاؤنڈیشن کے مطابق مارے جانیوالوں کی تعداد 1953 سے 3,279 کے درمیان ہے جبکہ ان میں بے گناہوں کی تعداد 261 سے 305ہے۔
قانونی و اخلاقی جواز
ڈرون طیاروں کا جنگ میں استعمال اوران میں لوگوں کی ہلاکتوں کا قانونی و اخلاقی جواز تو ایک الگ بحث ہے۔ لیکن جو بات قابل غور ہے ، وہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد مثبت مقاصد کے لیے ان کا استعمال کس قدر فوائد کا حامل ہوسکتا ہے۔پانچ سال قبل تک کھلونا پیرٹ ڈرون کا وجود نہ تھا۔یہ اس نئی ٹیکنالوجی کا زبردست شاہکار ہے۔پانچ سال قبل تک اس قدر چھوٹے کیمرے اور کمپیوٹر چپس بھی
نہ تھیں۔بیٹریاں بھی اس قدر ہلکی اور دیرپا نہ تھیں جو آج کل ہیں۔اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کو ابھی بہت ترقی کرنا ہے۔اس طرح پیرٹ کھلونا ڈرون میں جس قسم کے ننھے ننھے سنسرز نصب ہیں، وہ بھی ان کو ایک شاہکار بناتے ہیں۔اس کے علاوہ ان میں جو ٹیکنالوجی ہوتی ہیں ان میں ایکسیلرومیٹر، گائرو اسکوپ ، میگنیٹو میٹر ، الٹراساؤنڈ الٹی میٹرز شامل ہیں۔اب پیرٹ کمپنی نے اس میں ایک نیا اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ جی پی ایس سسٹم ہے اور اس کے ساتھ پیرٹ اس سال کے آخر میں مارکیٹ میں آجائے گا۔
روبوٹس اور ڈرونز
ایک طرح سے ڈرون کی پیدائش اس وقت ہی شروع ہوگئی تھی جب روبوٹکس کے زمانے نے جنم لیا تھا۔ترقی یافتہ ممالک میں مختلف کاموں کے لیے روبوٹ تیارکرنے کی کوششیں خاصے عرصے سے جاری تھیں اور اب بھی جاری ہیں۔کئی عشروں کی کوشش کے باوجود موثر انداز میں امور کو سرانجام دینے والے روبوٹ تیار نہ کیے جاسکے۔
یہ روبوٹ زمین پر چلتے تو ان کی رفتار بہت کم اور اٹکی اٹکی ہوتی۔ان کے لیے ا دھر ادھر مڑنا بھی مشکل دکھائی دیتا ۔جلد ہی یہ نتیجہ سامنے آگیا کہ زمین روبوٹوں کے لیے موزوں جگہ نہیں۔ لیکن جب یہی روبوٹ ہوا میں جاتے ہیں تو زیادہ تیزی اور خاموشی سے کام کرنے لگتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ روبوٹ اصل میں ڈرونز ہی بننا چاہتے تھے۔
اس طرح اگر اوپر بیان کیے گئے ''پیرٹ''کھلونا ڈرونز، قاتل مشین پریڈیٹر ڈرون سے ملتے جلتے ہیں تو دوسری جانب یہ کھلونا ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کی طرح بھی ہیں جن کو ریڈیو کنٹرول کے ذریعے اڑایا جاتا ہے۔ تاہم ڈرونز کی رینج ، طاقت اور اضافی سنسر ان کو صحیح معنوں میں زبردست بناتے ہیں۔یہ ایک طرح سے ان لوگوں کی ہی توسیع ہوتے ہیں جو ان کو اڑاتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعے وہ اپنے دماغ اور جسم کو دشمنوں کے خلاف طویل فاصلے سے استعمال کرسکتے ہیں۔پنٹاگون کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ ان ڈرون کو چلانے والے ''پائلٹ'' طویل فاصلے پرائرکنڈیشنڈ بینکروں میں بیٹھے ہوتے ہیں اور شام کو اپنے گھر واپس چلے جاتے ہیں تاہم اس کے باوجود ان افراد کی 30 فیصد تعداد کسی نہ کسی طرح سے زخمی بھی ہوتی ہے اور ان کو نفسیاتی دھچکوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگرچہ وہ خطرے میں نہیں ہوتے لیکن ان کا کوئی نہ کوئی حصہ جنگ میں ضرور شریک ہوتا ہے۔
ڈرونز پاپولرکلچر میں
تاہم امریکیوں کی زیادہ تر تعداد کے لیے ڈرونز ابھی ''مہمان اداکار'' کی طرح ہیں۔یہ پاپولر کلچر کے کردار ہیں۔ان کو کارٹون فلموں اور ہالی وڈ فیچر فلموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔سائنس فکشن لکھنے والوں کے لیے بھی یہ ایک محبوب مصالحہ ہیں۔پیرس میں ہونے والے کانز فلم فیسٹول میں ان ڈرون طیاروں کے اسکواڈ کا ایک ڈانس بھی پیش کیا گیا جن کو یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے طالب علموں نے تیار کیا تھا۔
تاہم اگر قریب سے دیکھا جائے تو حقیقت خاصی تلخ ہے۔ڈرونز میںایک بھید ہے۔
ڈرونز کو اڑانا تو بڑے مزے کا کام دکھائی دیتا ہے یعنی جو لوگ ڈرون کو اڑا اور کنٹرول کررہے ہیں ، ان کو تو اس میں بڑا مزا آرہا ہے لیکن جو لوگ ان کو اڑتا دیکھ رہے ہیں ، وہ پریشان ہیں۔ وہ ان سے خوفزدہ ہوسکتے ہیں کیونکہ ڈرانے کے لیے ان کا نام ہی کافی ہے۔اگر آپ ان ڈرونز کو عوام میں اڑائیں توکئی قسم کے رد عمل سامنے آسکتے ہیں۔لوگ چیخ وپکار کرسکتے ہیں۔
لوگ خوفزدہ ہوکر بھاگ سکتے ہیں کہ کہیں ان پرکوئی میزائل نہ فائر ہوجائے۔یہ ایسی اڑن مشینیں ہیں جن کے اندر بھوت بیٹھا ہے اور یہ بھوت کہہ رہا ہے:''میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں لیکن تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔''ایک کمپیوٹر بلاگ پر بلاگر ان کے بارے میں کچھ اس طرح لکھتا ہے:''آپ کو ایک ایسی چیز کا سامنا ہے جو حاضر بھی ہے اور غیرحاضر بھی۔وہ آپ کو کچھ بھی کہہ سکتا ہے اور کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اس سے آپ کو تو نقصان ہوگا لیکن اس کو نہیں۔''
رپورٹ کے مطابق ڈرون حقیقی دنیا میں ایک بے آہنگ حرکیاتی قوت لے کر آئے ہیں۔یہ ایک حقیقی انسان کا ورچوئل روپ ہے۔جنگ و جدل کے میدان میں انھوں نے ایک نئے قسم کا اضطراب پیدا کردیا ہے جو 1980 کی دہائی کی ایٹمی دہشت یا 1990 کی دہائی کے سازشی نظریات سے بالکل الگ ہے۔ان کے لشکر کے لشکر آرہے ہیں۔ ان کی موجودگی مسلسل ہے۔ یہ زمین کی سطح کے قریب ہیں اور مسلسل موجود ہیںاور سب سے بڑی بات کہ یہ گمنام ہیں۔یہ ڈرون القاعدہ کے بھی ہوسکتے ہیں اور آپ کی حکومت ، دوستوں اورہمسایوں کی شرارت کا نتیجہ بھی ہوسکتے ہیں۔اس وقت ہم مستقبل کی بات کررہے ہیں۔
تجارتی نکتہ نظر سے بات کی جائے تو کھلونا ڈرون ''پیرٹ'' ایک ایسی پراڈکٹ ہے جسے ڈرون اڑانے کے شوقین گروہوں سے ہٹ کر کسی مارکیٹ کی تلاش ہے۔اگر آپ فضا سے زمین پر موجود اشیاء کی تصاویر لینا چاہتے ہیں تو اس صلاحیت سے پیرٹ فی الحال قاصر ہے۔اس سے سوال اٹھتا ہے کہ پھر سوائے ا نسانوں کو مارنے کے ڈرونز کا اور کیا فائدہ ہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ ان کے بے شمار فائدے ہیں۔
امریکا کا کسٹم اور بارڈر پروٹیکشن کا ادارہ 2005 سے میکسیکو کے بارڈر کی نگرانی کے لیے ان ڈرونز کااستعمال کررہا ہے۔اس کے پاس دس ڈرونز ہیں جبکہ مزید چودہ ملنے والے ہیں۔گذشتہ سال ناسا نے سمندری طوفان ناڈائن کے مطالعے کے لیے ''گلوبل ہاک'' نامی ڈرون کا استعمال کیا۔تاہم تفریح کے علاوہ کسی بھی مقصد کے لیے ڈرون اڑانے کے لیے امریکی فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی(ایف ایف اے) کا اجازت نامہ درکار ہے اور یہ اجازت نامہ بہت مشکل سے ملتا ہے۔حکومت اس عمل کو درست کررہی ہے۔گذشتہ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اوبامہ نے ایف ایف اے ماڈرنائزیشن اینڈ ریفارم ایکٹ پر دستخظ کیے جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ ایف اے اے کو حکم دیا گیا کہ وہ ڈرونز کے تجربات کے لیے چھ اڈے قائم کرے۔ ڈرونز کے استعمال کے لیے درخواستوں کو جلدی نمٹائے اور 2015 تک امریکی فضاؤں میں ان کے استعمال کی اسکیم تیار کرے۔
ڈرونز اڑانے کے امیدوار
تاحال ڈرون اڑانے کے لیے امیدواروں کی جو فہرست ہے وہ زیادہ تر یونیورسٹیوں ، سرکاری ایجنسیوں اور ڈرون تیار کرنے والے اداروں پر مشتمل ہے۔ایف اے اے کو دی گئی ایک درخواست کے مطابق واشنگٹن ریاست کا محکمہ ٹرانسپورٹ برفانی چٹانوں کو پھسلنے سے روکنے کے لیے ان کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈرون استعمال کرنا چاہتا ہے۔امریکا کامحکمہ توانائی فضائی نمونہ جات اکٹھے کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر ڈرون کا استعمال چاہتا ہے۔فارسٹ سروس جنگلوں میں لگنے والی آگ بجھانے کے لیے ان کا استعمال چاہتی ہے۔میری لینڈ ، الابامہ ، ٹیکساس ، فلوریڈا ، واشنگٹن ، آرکنساس اور یوٹاہ ریاستوں کے پولیس کے محکموں نے بھی ڈرون کے استعمال کی اجازت مانگی ہے۔
کولورویڈو میں میسا کاؤنٹی شیرف کا دفتر پہلا دفتر ہے جس نے پولیس کے کام میں ڈرون کا استعمال کیا ہے۔یہ ڈریگن فلائی ایکس سکس اور فالکن نامی ڈرونز استعمال کررہا ہے ۔میساکاؤنٹی کے ڈائریکٹر بین ملر اس سلسلے میں بتاتے ہیں:''اگر کوئی تدبیراتی آپریشن ہو، جیسے کسی رکاوٹ وغیرہ کا سامنا ہو یا اسی قسم کی کوئی چیز ہو تو ہم ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے۔لیکن اب اس کے لیے ڈرون استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس طرح فضائی فوٹوگرافی کے لیے بھی ہم زمین سے پچاس سے ساٹھ فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے تمام جائے وقوعہ کی تصویر لے سکتے ہیں۔اس طرح اگر پہاڑوں میں کوئی ہائیکر گم ہوگیا ہے تو اس کی تلاش کے لیے فالکن ڈرونز استعمال کیے جاسکتے ہیں اور یہ ہیلی کاپٹر کے مقابلے میں بہت سستے پڑتے ہیں۔''
1970ء کی دہائی میں جس طرح پرسنل کمپیوٹر اپنی ابتدائی شکل میں تھے، اسی طرح یونیورسٹیوں کی لیبارٹریز اور مشاغل پسند لوگوں کے گروہوں میں ڈرونز ابتدائی شکل میں ہیں۔یہ لوگ ڈرونز تیارکرتے ، ان میں ردوبدل کرتے اور اپنے شوق کے لیے انھیں اڑاتے ہیں۔DIY Drones نامی ایک آن لائن تنظیم ہے جو ڈرونز اڑانے کا شوق رکھنے والوں کی تنظیم ہے اور اس کے ارکان کی تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔
تاہم ڈرونز اڑانے کی اجازت عام ہونے اور قانون سازی نرم پڑنے پر ڈرونز کی انڈسٹری زبردست طریقے سے پھیلتی دکھائی دے رہی ہے۔گذشتہ سال لاس ویگاس میں ڈرونز انڈسٹری کی جانب سے ایک شو کا انعقاد کیاگیا جس میں پانچ سو کے قریب کمپنیوں نے اپنے ڈرونز نمائش کے لیے پیش کیے۔ان ڈرونز کے ذریعے ہجوم اور طوفانوں کی فلمیں بنائی جاسکتی ہیں۔فصلوں کے علاوہ پاور لائنز ، کوئلے کی کانوں اور تعمیراتی سائٹس کی نگرانی کی جاسکتی ہے۔گیس کے اخراج اور آثارقدیمہ کی کھدائی کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ پالو آلٹو کیلی فورنیا کی ایک کمپنی ڈرونز کا ایک ایسا نیٹ ورک تیار کرنا چاہتی ہے جس کے ذریعے چھوٹے لیکن فوری ترسیل کے متقاضی پارسلز جیسے ادویات وغیرہ کو ٹرانسپورٹ کیاجائے گا۔
دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ڈرونز کا سویلین مقاصد کے لیے استعمال بڑھ رہا ہے۔فضائی ویڈیو اس کا ایک اہم استعمال ہے۔یوکے کی ایک کمپنی سکائی پاور نے آٹھ پروں والا ایک ڈرون ''سائنی پرو'' بنایا ہے جو کہ سینما کوالٹی کے معیار کا مووی کیمرہ لے کر اڑسکتا ہے۔کوسٹاریکا میں آتش فشانوں کے مطالعے کے لیے ڈرونز کااستعمال ہورہا ہے۔
جاپان میں فصلوں کی رکھوالی اور ایمرجنسی مقاصد کے لیے ان کا استعمال جاری ہے۔کینیا میں ڈرونز خریدنے کے لیے فنڈ ریزنگ جاری ہے تاکہ نایاب نسل کے سفید گینڈوں کی نسل معدوم ہونے سے بچانے کے لیے ان کی نگرانی اور مطالعہ کیا جائے۔اگرچہ ڈرونز کو بیرون ملک بھیجنے کے حوالے سے امریکا سب سے آگے ہیں ، لیکن اندرون ملک سویلین مقاصد کے لیے ان کے استعمال میں یہ بہت پیچھے ہے۔
روزمرہ زندگی میں ڈرونز کے عام استعمال میں ایک بڑی رکاوٹ یہ بھی ہے کہ ڈرونز کریش بہت ہوتے ہیں۔پریڈیٹر ڈرونز اپنی شکل وصورت اور چال ڈھال کی وجہ سے بہت بارعب بلکہ بھیانک دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں لگا ہوا انجن بہت نازک ہوتا ہے۔بیش قیمت ڈرونز کے گر کر تباہ ہونے کی خبریں عام ہیں۔
گذشتہ جون میں گلوبل ہاک Global Hawk نامی ڈرون جس کی مالیت 233 ملین ڈالر تھی تجرباتی پرواز کے دوران سالسبری کے قریب جنگل میں گر کرتباہ ہوگیا۔دسمبر میں Reaper ''ری ایپر'' نامی ڈرون نواڈا کے صحرا میں گرگیا۔بیرون ملک امریکی ڈرونز کے گرنے کی خبریں بھی ہیں جن میں سیشلز میں دو ڈرونز کے گرنے کی خبر بھی ہے جہاں صومالی قزاقوں پرنظر رکھنے کے لیے ری ایپر ڈرونز کا استعمال کیا جاتا تھا۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر گلوبل ہاک ، پریڈیٹر اور ری ایپر سب سے زیادہ کریش ہونے والے ڈرونز ہیں۔
ڈرونز کے حوالے سے ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ معمول کے ائر ویز میں سفرکے لیے موزوں نہیں ہیں۔امریکا کے گورنمنٹ اکاؤنٹیبیلیٹی آفس نے ستمبر میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ان میں ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس کے ذریعے یہ فضاء میں اڑنے والے مسافر طیاروں اور دیگر طیاروں میں تمیز کرسکیں۔ اس کی وجہ سے یہ دیگر ائرٹریفک کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔گذشتہ سال ٹیکساس یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے ایک مظاہرہ کرکے ثابت کیا کہ کس طرح ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ایک ڈرون کو دوران پرواز ہیک کیا جاسکتا ہے اور اس پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ ادارہ ڈرونز کے ذریعے حاصل اور استعمال کیے جانے والے اعدادوشمار کے حوالے سے پرائیویسی میں مداخلت کے حوالے سے اعتراضات بھی ظاہر کرچکا ہے۔اور بھی کئی اطراف سے یہ اعتراضات اٹھائے جاچکے ہیں۔ڈرونز نگرانی کے لیے استعمال کیاجانے والا اب تک کا طاقتور ترین آلہ بن چکا ہے۔ری ایپر ڈرون میں گورگون سٹیرGorgon Stare نامی سنسر نصب ہوتے ہیں جو ایک ہی وقت میں ڈھائی میل کے علاقے پر بارہ زاویوں سے نگاہ رکھ سکتا ہے۔اس کے ایک حلقہ نگاہ میں پورا شہر سما سکتا ہے۔اس طرح پنٹا گون کے ڈیفنس ایڈوانس ریسرچ پراجیکٹ ایجنسی (ڈی اے آر پی اے) نے ایک ایسا امیجنگ سسٹم تیار کیا ہے جو بیس ہزار فٹ کی بلندی سے چھ انچ کی شے کو بالکل صاف دیکھ سکتا ہے۔یو ایس اے ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق امریکی ائرفورس حکام کو ڈرونز کے ذریعے لاکھوں کی تعداد میں تصاویر موصول ہوئیں جن کوایک نظر دیکھنا بھی ممکن نہ تھا جس پر ان کی ایڈیٹنگ کے لیے اسے ای ایس پی این (ESPN) سے رجوع کرنا پڑا۔
ڈرون کے ذریعے مویشی چور گرفتار
قارئین تصور کریں کہ اگر گورگون سٹیر آپ کی جانب گھور رہا ہو تو آپ کو کیسا محسوس لگے گا۔ یہ کوئی تصوراتی آئیڈیا نہیں۔جون 2011ء میںنارتھ ڈکوٹا کا ایک کاؤنٹی شیرف دوچوروں کی تلا ش کررہا تھا جو تین گائے چوری کرکے بھاگ رہے تھے۔اس بات کا بھی شبہ تھا کہ ان کے پاس ہتھیار ہیں۔انھیں اس سلسلے میں ایک بڑے علاقے میں تلاش کا کام کرنا تھا۔چنانچہ انھوں نے ایک مقامی ائربیس سے پریڈیٹر ڈرون حاصل کیا۔اس ڈرون نے نہ صرف چوروں کو تلاش کرلیا بلکہ یہ بھی پتہ چلالیا کہ کہ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ پریڈیٹر ڈرون کو امریکی شہریوں کی گرفتاری میں استعمال کیا گیا تھا۔
اب تک پریڈیٹر ڈرونز اس طرح کے واقعات میں کتنی مرتبہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرچکے ہیں، اس بارے میں صحیح طور پرمعلوم نہیں ہوسکا تاہم اس واقعے کے بعد الیکٹرانک فرنٹئیر فاؤنڈیشن کی درخواست پر ایک قانون منظور کرنے پر غور کیاجارہا ہے۔دوسری جانب دونوں پارٹیوں میں کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جو اندرون ملک ڈرونز کے استعمال کے خلاف قانونی رکاٹیں کھڑی کرنے پر غور کررہے ہیں۔ ورجینیا ریاست میں اے سی ایل یو اور ورجینیا فیڈریشن آف ٹی پارٹی پیٹریاٹس کی جانب سے اس حوالے سے قانون کی حمایت کی جارہی ہے۔
شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ امریکی کانگریس میں ڈرونزکی زیادہ حمایت نہیں پائی جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔کانگریس میں ساٹھ ارکان پر مشتمل ایک ایسا فورم بھی وجود رکھتا ہے جو ان کے اندرون ملک استعمال کا حامی ہے۔ اس کا نام Congressional Unmanned Systems Caucus ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ آئندہ دس سال تک ڈرونز کے بین الاقوامی استعمال پر اخراجات کو دوگنا کرکے 11.3ارب ڈالر کردیا جائے گااور ڈرونز تیار کرنے والے صنعتی گروپس جیسے اے یو وی ایس آئیAUVSI اس حوالے سے اپنے لابنگ بجٹ میں تیزی سے اضافہ کررہے ہیں۔
پیزا بیچنے کے لیے بھی ڈرونز
رپورٹ کے مطابق اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ڈرونز جیسی جدید ٹیکنالوجی جلد فوجی استعمال سے نکل کر غیرفوجی سویلین استعمال میں چلی جائے گی اوریہ کہنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے اور یہ نتائج غیرمتوقع بھی ہوسکتے ہیں۔آنے والے وقت میں ڈرونز کے ذریعے شہر بھر میں پیزا تقسیم کیے جائیں گے اور ادویات کی سرحد پار ترسیل کی جائے گی۔
ان کے ذریعے جرائم پیشہ افراد کو تلاش کیا جائے گا اور مشہور شخصیات کو گھر میں قابل اعتراض حالت میں دیکھا جائے گا۔ڈرونز سستے اور ان کا استعمال آسان ہوجائے گا۔ اس وقت کیا صورت حال ہوگی جب کوئی شخص پچاس ڈالر میں ڈرونز حاصل کرے گا اور پھر اپنے آئی فون کے ذریعے اسے اڑاکر اپنے مقاصد حاصل کرے گا۔گذشتہ سال سٹین فورڈ لاء اسکول اور نیویارک یونیورسٹی نے ایک رپورٹ جاری کی جو تیس پاکستانیوں کے انٹرویو ز پر مشتمل تھی۔ رپورٹ میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی کے الفاظ کچھ یوں تھے:''ڈرونز ہر وقت میرے زہن میں موجود رہتے ہیں۔ان کی وجہ سے سونا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ مچھر کی طرح ہیں۔آپ کو ان دیکھ نہ سکیں لیکن ان کی آواز ضرور سن سکتے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ یہ آس پاس کہیں موجود ہیں۔''
فی الحال امریکا واحد ملک ہے جو ڈرونز کا بڑے پیمانے پر استعمال کررہا ہے۔لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوگا۔ڈرونز اڑانا مشکل ہے لیکن اتنا بھی مشکل نہیں۔اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے 76ممالک ڈرونز تیار کررہے ہیں یا ان کو خریدنے کی کوشش کررہے ہیں۔حزب اللہ اور حماس پہلے ہی ڈرونز اڑانے کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ گذشتہ نومبر میں میساچوسٹس کے ایک شخص کو سترہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
کیونکہ وہ ریموٹ کنٹرول ڈرون کے ذریعے پنٹاگون اور دارالحکومت کو نشانہ بنانے کی کوشش کررہا تھا۔جس طرح امریکا اپنے مفادات کے لیے دوسرے ممالک کے اندر ڈرونز استعمال کررہا ہے ، کل کو کوئی اور ملک بھی اپنے مقاصد کے لیے امریکا کے اندر ڈرونز استعمال کرے گا۔اس طرح امریکا جو مثال پیش کرچکا ہے ، ہوسکتا ہے کہ کل اسے اس پر افسوس ہو۔