بُک شیلف
’’کلیلہ و دمنہ‘‘ کا شمار قدیم ہندوستانی ادب میں ہوتا ہے۔
کلیلہ ودمنہ
بیان نو: ارشد رازی
پبلشر: نگارشات پبلشرز' 24 مزنگ روڈ' لاہور
صفحات : 208
قیمت: 300روپے
''کلیلہ و دمنہ'' کا شمار قدیم ہندوستانی ادب میں ہوتا ہے۔
اس کی حکایتوں میں جانوروں کی باہمی گفتگو کے رنگ میں حکمت و دانائی کی باتیں سمجھائی گئی ہیں اور واقعات میں منطقی افسانوی ربط ملتا ہے۔ زیر نظر کتاب کے شروع میں ممتاز اسکالر عابد علی عابد کا دیباچہ دیا گیا ہے' جو کہ اسی کتاب کے انیسویں صدی کے شروع میں ہونے والے ایک مشہور ترجمے ''فرد امروز'' کے لئے لکھا گیا تھا۔ اس دیباچے میں کتاب کے پس منظر سے جدید دور تک مختلف صورتوں پر محققانہ نظر ڈالی گئی ہے۔ فاضل دیباچہ نگار کے خیال میں رائے دابشلیم نامی راجہ کے لئے بطور ہند نامہ لکھے جانے کی جو روایت' ''کلیلہ و دمنہ'' کے متعلق معروف رہی' تحقیقات سے ثابت نہیں۔ محققین کی اکثریت کے نزدیک ''کلیہ و دمنہ'' ہندوستان کے تین مقبول اور قدیم ادبی فن پاروں کا انتخابی مجموعہ ہے۔
اس ہندوستانی کلاسک کا دنیا کی چالیس بڑی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کتاب کو اب نئے انداز میں نگارشات پبلشرز نے شائع کیا ہے۔
فرہنگ میر (چراغ ہداہت کی روشنی میں)
تحقیق و ترتیب:۔ عبدالرشید
ناشر:۔ مکتبہ جمال' تیسری منزل' حسن مارکیٹ' اردو بازار' لاہور
صفحات:۔ 400
قیمت:۔ 350روپے
سراج الدین علی خان آرزو (1689-1756ء) کی مرتبہ لغت ''چراغ ہدایت''کو میر کے تقریباً تمام شارحین نے میر فہمی کے ضمن میں اہم گردانا ہے۔ میر کے کلام میں ایسے سیکڑوں الفاظ نظر آتے ہیں' جو کہ ''چراغ ہدایت'' میں موجود ہیں' اور یہ الفاظ وتراکیب مذکورہ بالالغت کے معنوں کے موافق استعمال ہوئے ہیں۔
زیر نظر کتاب کے فاضل مصنف لکھتے ہیں:'' کلام میر سے متعلق جو تحقیق کی گئی ہے' جو تنقید لکھی گئی ہے یا جو لغات مرتب کی گئی ہیں ان میں ''چراغ ہدایت'' کا بس سرسری ذکر ملتا ہے یا پھر ''چراغ ہدایت'' کے بہت سے مندرجات کی تعبیر و تفہیم میں محققین،مترجمین اور مرتبین سے لغزش ہوئی ہے۔ اس مطالعے کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ کلام میر کے بعض الفاظ' تراکیب اور محاورات کی تعبیر کی کوشش ''چراغ ہدایت'' کی روشنی میں کی جائے۔ اس مطالعے سے اردو کے لسانی دائرے کی وسعت کے علاوہ اردو میں اخذ و استفادے کی جو صلاحیت رہی ہے اس کے کچھ ثبوت بھی یکجا ہو سکیں گے اور اردو کی ادبی فرہنگ کا ایک خاص پہلو بھی روشن ہو سکے گا۔''
مصنف عبدالرشید کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ محققانہ کاوش بہت عرق ریزی اور پیہم محنت کا نتیجہ ہے۔ ہندوستان میں یہ کتاب فرہنگ کلام میر (چراغ ہدایت کی روشنی میں) کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ہمارے پاکستانی پبلشر نے کتاب کے نام میں ترمیم کر دی ہے' جس کی کوئی وجہ اور ضرورت سمجھ نہیں آتی۔
نرالے لوگ
مصنف: جیون خان
ناشر: پیس پبلیکیشنز 42 اردو بازار لاہور
قیمت: 500 روپے' صفحات: 368
جیون خان سابق سول سرونٹ' کالم نگار اور مصنف ہیں۔ کئی سال تک ایک معاصر قومی روزنامے کے لئے ہفتہ وار کالم لکھے اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں' جن میں ''تہمتیں چند'' ''دیپتی'' (چھوٹا دیا) اور ''جیون دھارا'' کی دو جلدیں شامل ہیں۔ زیرنظر کتاب''نرالے لوگ'' میں انہوں نے مختلف قومی اور غیر ملکی شخصیات پر قلم اٹھایا ہے' جو مصنف کے نزدیک انسانی بھیڑ میں ''نرالے لوگ'' ہیں۔ مصنف ان نرالے لوگوں کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں :
''انسانی بھیڑ میں یہ نرالے لوگ تھے۔ جی چاہا کہ انہیں سلام پیش کیا جائے نرالا پن ہی ان کی قدر مشترک ہے۔ نہ سب فرشتے تھے۔ کسی کو معصومیت کا دعویٰ بھی نہیں تھا۔ اگرچہ کئی ایک شاید فرشتوں سے بھی اچھے ہیں۔ کئی دنیادار بھی تھے۔ سبھی دھن دولت سے بے نیاز بھی نہیں تھے۔ مگر مایاوتی جیسے شہاب ثاقب (shooting Stars) بھی دھن کے پکے تھے۔
چمار کی بیٹی کا ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کا وزیراعلیٰ بن جانا اگر انوکھا پن نہیں تو کیا ہے۔ اگر مایاوتی ثریا تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر من موہن سنگھ ضلع چکوال کے گاؤں سے چل کر وزیراعظم ہند بن سکتا ہے۔ بچپن میں لوگوں کے جوتے پالش کرنے والا لولا جنوبی امریکا کے سب سے بڑے ملک برازیل کا ہر دلعزیز صدر بن سکتا ہے۔ اگر احمدی نژاد اور ایود ماریلز غریب والدین کے ہاں جنم لینے کے باوجود ایران اور بولیویا کے صدر بن سکتے ہیں تو کیا کچھ نہیں ہوسکتا۔ امکانات کی کوئی حد نہیں ہے۔ انسانی عزم کے سامنے پہاڑ تک حائل نہیں ہوسکتے۔ کوہ گراں تک سرنگوں ہوجاتے ہیں۔ ہمت مرداں پہلی شرط ہے۔ خودی جب اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو مدد خدا شامل حال ہوجاتی ہے۔ کامیابی کی یہی دوسری اور آخری شرط ہے۔''
ان شخصیات میں اے آر رحمان' طیب اردگان' مارٹن لوتھرکنگ' ڈاکٹر مہاتیر محمد' اور محمود احمدی نژاد جیسے نام شامل ہیں۔ ملک کے چند نیک نام معروف اور غیر معروف شخصیات پر مضامین بھی شامل کتاب ہیں۔ مصنف نے اپنے مخصوص اسلوب میں ان شخصیات کا تعارف کرایا ہے۔ دلچسپ اور معلوماتی شخصی مضامین اور خاکوں پر مشتمل یہ کتاب لائق مطالعہ ہے۔
حوا کی بیٹی جنوبی پنجاب میں
مصنفہ : عمرانہ کومل
ایڈریس: سیٹ نمبر 22بشیر خان بلاک' ضلع کچہری ملتان
قیمت: 250 روپے' صفحات: 128
عمرانہ کومل شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ زیر نظر کتاب کا تعارف کراتے ہوئے وہ لکھتی ہیں، ''حوا کی بیٹی'' جو ماں' بہن' بیٹی' بیوی ہر روپ میں اس معاشرے کا اہم ستون ہے، لیکن آج بھی مظالم کی سولی پر چڑھائی جا رہی ہے۔
اس کتاب میں میں نے شعبہ صحافت سے منسلک ہونے کے بعد جن حوا کی بیٹیوں کو تیزاب گردی' کاروکاری' قتل' گھریلو تشدد سمیت مختلف جرائم کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا' ان کے مسائل اجاگر کئے اور اس کے ساتھ ساتھ ان پر ہونے والے جرائم کی وجوہات' تعصب' معاشی' عالمی' شعوری' معاشرتی تنزلی سمیت ان کے انصاف میں حائل رکاوٹوں بارے میں قلمی جہاد کیا اور ان کے دکھوں کو اپنے دل میں محسوس کیا۔ اس کتاب میں انہی کے دکھ بیان کئے گئے ہیں جن کے آنسو میرے ''اشعار'' بن گئے۔''
لفظیں دے پھل
شاعر: جمشید کلانچوی اعوان
ناشر: ادکامی سرائیکی ادب' بہاولپور
قیمت : 300 روپے' صفحات: 184
زیر نظر کتاب ''لفظیں دے پھل'' سرائیکی زبان میں جمشید کلانچوی اعوان کا شعری مجموعہ ہے۔ رحمت دی چھاں (نعتیہ مجموعہ) اور جھوکاں تھیسن آباد ول (ناول) سمیت ان کی چار کتابیں اس سے پہلے شائع ہو چکی ہیں۔ انہوں نے سرائیکی شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ دیباچہ نگار کے مطابق شاعر نے روایت کے پابند ہونے کے باوجود' نئی فکر اور نئے اندازمیں شعر لکھنے میں تساہل سے کام نہیں لیا اور لہجے کی مٹھاس کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف مضامین کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
دلیپ کمار
مصنف: بنی روبن
مترجم: محمد احسن بٹ
ناشر: نگارشات پبلشرز' 24 مزنگ روڈ لاہور
صفحات: 520 قیمت: 800روپے
فلمی دنیا میں دلیپ کمار (یوسف خان) کی بے مثال پذیرائی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ وہ برصغیر پاک و ہند کے مقبول فلمی سٹارزکے بھی آئیڈیل مانے جاتے ہیں۔
بہت سے نام ور اداکاروں نے ان کے سٹائل کو کاپی کرتے ہوئے داد اور مقبولیت سمیٹی۔ دلیپ کمار نے بھرپور فلمی سفر گزارا ہے' جس میں کوئی دوسری شخصیت ان کے مقابل نظر نہیں آتی۔ انہیں حکومت ہند اور حکومت پاکستان دونوں کی طرف سے اعلیٰ شہری اعزازات سے نوازا گیا ہے۔
اپنے وقت کے لیجنڈ اور آج کے Living Legend ہمارے مقبول فنکار کس طرح بالی وڈ میں داخل ہوئے، جبکہ وہ ایک چھوٹی کینٹین کا ٹھیکا حاصل کر کے اپنے کاروبار کا آغاز کرنے لگے تھے، پشاور میں پیدا ہونے والے یوسف خان نے آغاز میں کیسے اپنے فلمی کیریئر کو اپنے والد صاحب سے چھپائے رکھا' ان کے پیشہ ورانہ سفر کی تفصیل اور ذاتی زندگی کے اہم واقعات پر یہ کتاب روشنی ڈالتی ہے۔
زیر نظر کتاب کے مصنف بنی روبن شوبز جرنلسٹ اور دلیپ کمار کے ذاتی دوست ہیں۔ وہ بالی وڈ اداکار راج کپور اور محبوب خان کی سوانح عمریاں بھی لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے دلیپ کمار کی زندگی اور کیریئر کا قریب رہ کر مشاہدہ کیا اور پھر کئی دوسرے اہم لوگوں کے انٹرویوکرنے اور تحقیق کرنے کے بعد دلیپ کمار کی زندگی پر قلم اٹھایا ہے۔ پانچ حصوں پر مشتمل اس کتاب میں ہمارے اس ہر دل عزیز فنکار کی زندگی کے تمام نمایاں اور غیر نمایاں گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
عام قارئین اور فلمی دنیا سے دلچسپی رکھنے والے لوگ اس کتاب کو یقیناً مفید پائیں گے اور یہ کتاب ریفرنس بک کا بھی درجہ بھی رکھتی ہے۔ مترجم محمد احسن بٹ نے سلیس اور بامحاورہ زبان میں بڑی عمدگی سے اس کتاب کو اردو میں منتقل کیا ہے۔
سہ ماہی اجرا (ادبی جریدہ)
مدیر: احسن سلیم
صفحات:576، قیمت: 400
ملنے کا پتا:1-G-3/2، ناظم آباد، کراچی
سہ ماہی اجرا، کراچی کی اشاعت کا سلسلہ تیسرے سال میں داخل ہوگیا ہے۔
کتابوں سے بڑھتے فاصلے اور مطالعے کے گھٹتے رجحان کو مدنظر رکھا جائے، تو کسی ادبی جریدے کی متواتر اشاعت ایک بڑی کام یابی ہے۔
اِس تمہید کے بعد بات کرتے ہیں زیرتبصرہ شمارے کی۔ اِس بار اجرا کے سرپرست، شاہین نیازی نے اپنے مضمون ''گفت گو'' میں موجودہ صدی کی ہنگامی خیزی کو موضوع بناتے ہوئے سائنسی طرز فکر کی اہمیت اجاگر کی ہے، اور اپنے ادیبوں اور دانش وَروں سے یک جا ہو کر دنیا کے سامنے مذہب کی اصل روح پیش کرنے کا تقاضا کیا ہے۔
اداریے میں احسن سلیم نے سماجی و معاشی مسائل کے خلاف زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے، کسی نہ کسی پلیٹ فورم پر، یک جا ہونے کی نشان دہی کرتے ہوئے اِس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اِس پورے عمل میں شاعر اور ادیب کہیں نظر نہیں آتے۔ ادبی کرپشن کو اِس کی کلیدی وجہ قرار دیتے ہوئے اُنھوں نے اپنی تحریک ''ادب برائے تبدیلی'' کے منشور پر روشنی ڈالی ہے۔
مستقل سلسلوں پر نظر ڈالی جائے، تو ''موضوع سخن'' میں شامل ڈاکٹر سلیم اختر کا مضمون ''سبکِ منٹو'' خاصے کی چیز ہے۔ ذکی احمد کا مضمون ''کائنات کا ریاضیاتی تصور'' ایک پیچیدہ، مگر منفرد تحریر ہے۔ سلسلے ''فلک آثار'' میں 23 شعرا کی نظمیں شامل ہیں۔ نثری نظموں کے لیے الگ حصہ مختص ہے۔ سلسلہ ''سخن سخن'' 14 شعرا کے کلام پر مشتمل ہے۔ ''مشرق و مغرب'' میں اطالوی ادیب اتالو کلوینو کا تعارف اور اُن کی ایک کہانی کا ترجمہ شامل ہے، جو نجم الدین احمد کے قلم سے نکلا ہے۔
مترجمین کی فہرست میں اسد محمد خان اور محمد عاصم بٹ کے ناموں کی موجودگی خوش آیند ہے۔ ''داستان سرائے'' 17 افسانوں پر مشتمل ہے۔ سلسلے ''خرد افروزیاں'' میں شامل ڈاکٹر ممتاز احمد خان کا مضمون ''اردو ناول کی زوال پذیری کا غیرضروری شکوہ'' ایک جامع تحریر ہے۔ ''نافۂ نایاب'' میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے منٹو کے طرز بیاں اور رئیس فاطمہ نے منٹو کی خاکہ نگاری کو موضوع بنایا ہے۔ سلسلے ''وسعت بیاں'' میں 7 کُتب پر تبصرہ شامل ہے۔
مجموعی طور پر اِس شمارے میں مطالعے لائق خاصا مواد ہے، جس میں تنوع نمایاں ہے۔
شاعر: چودھری غلام حسن آفاقی
ناشر: مکتبہ جمال' تیسری منزل' حسن مارکیٹ' ارود بازار لاہور
چودھری غلام حسن آفاقی گوجری زبان کے شاعر اور پیشے کے اعتبار سے معلم ہیں۔
''تسبیح حمد و نعت'' ''حریت کا نغماں'' اور ''انوکھیں ریت'' کے نام سے گوجری زبان میں ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ''تسبیح حمد و نعت'' میں حمداور نعتیں شامل ہیں' ''حریت کا نغماں'' میں انہوں نے کشمیر کی آزادی کا نغمہ بلند کیا ہے' جس سے ان کی ارض کشمیر سے محبت عیاں ہوتی ہے۔ ''انوکھی ریت'' میں غزلیں اور شاعری کی دوسری اصناف میں طبع آزمائی شامل ہے۔
ہمارے ہاں بوجوہ بعض علاقائی زبانیں محض بول چال کی زبانیں بن چکی ہیں' جنہیں نظم و نثر کے ذریعے تخلیقی اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا گیا۔ تاہم چودھری غلام حسین آفاقی کی اپنی زبان سے وابستگی محض عام بول چال کی حد تک نہیں ہے' بلکہ انہوں نے اسے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنا کر اپنے آپ کو گوجری زبان کے شاعر کے طور پر منوایا ہے اور اپنے شعری مجموعہ کو پورے اہتمام سے شائع کرا کے اسے تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے۔