سندھ کی جیلوں میں 143 قیدی پھانسی کے منتظر

سیاسی مصلحتوں کے باعث ملک میں 526 قیدیوں کی سزائے موت التو کا شکار.


Asghar Umar March 24, 2013
حکومت پھانسی نہیں دینا چاہتی،سزا نہ دینے سے دہشت گردی کو فروغ ملے گا فوٹو: فائل

ملک میں دہشت گردی کی ایک وجہ حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کی سزا پر عملدرآمد نہ کرنا بھی ہے۔

ملک بھر میں526 قیدی ایسے ہیں جنھیں پھانسی دینے کا تمام قانونی عمل مکمل ہوچکا ہے لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا، ان قیدیوں میں143قیدی سندھ کی جیلوں کے پھانسی گھاٹ میں ہیں، ذرائع کے مطابق سندھ کی جیلوں میں قتل اور دہشت گردی کی دیگروارداتوں میں ملوث 143قیدی پھانسی کے منتظر ہیں جن میں کالعدم مذہبی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مجرم بھی شامل ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ماتحت عدالتوں سے ان مجرموںکو سزا سنائے جانے کے بعد اعلیٰ عدالتوں نے بھی ان فیصلوں کی توثیق کردی ہے اور خود صدر نے بھی انکی رحم کی اپیلیں مستردکردی ہیں تاہم جیل ذرائع کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے غیر سرکاری ہدایات ہیں کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کسی شخص کو پھانسی کی سزا نہیں دی جائیگی، ان ہدایات کے باعث متعدد بار کراچی سینٹرل جیل میں مجرموں کی پھانسی کے حتمی انتظامات ہوجانے کے بعد بھی کارروائی ملتوی کرنا پڑی جبکہ ان ملزمان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

جن کی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ نے مسترد کردی ہیں لیکن صدر مملکت کے روبرو انکی رحم کی اپیلیں زیر التوا ہیں، اس صورتحال پر ممتاز قانون دان اور سندھ سے جوڈیشل کمیشن کے رکن محمود الحسن کا کہنا ہے کہ یہ رویہ ریاست کی غیر سنجیدگی کااظہار ہے، ایک طرف ریاست دہشت گردی کا شکار ہے، عوام مررہے ہیں اور حکمران زبانی طور پر دہشت گردی کے خاتمے کے وعدے کرتے ہیں لیکن اس عزم کا عملی اظہارنظرنہیں آتا، انھوں نے کہا کہ قانون پر عمل کرنے سے ہی امن کا قیام ممکن ہے۔



دہشت گردوں کو سزا نہیں دی جاتی اور وہ شیر بن کر جیل سے واپس آتے ہیں اور بلا خوف و خطر جرائم کرتے ہیں، صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ سرکاری خرچے پرمجرموں کی پرورش کی جارہی ہے، عمومی طور پر پولیس کی غفلت، فارنسک لیبارٹریز کی کمی، مجرموں کا اثر و رسوخ اور پیچیدہ عدالتی طریقہ کار اور گواہوں کی عدم دستیابی کے باعث سزاؤں کی شرح انتہائی کم ہے، دہشت گردوں کی سزا پر عملدرآمد نہ ہونے سے ان مقدمات کے تفتیشی افسران، متعلقہ عدالتوں اور گواہوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

اس لیے جن مجرموں کو سزا سنائی جاچکی ہیں انھیں سزا دینا ضروری ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر مملکت آصف علی زرداری کے پاس اچھا موقع تھا کہ جہاں 18ویں سے لے کر20 ویں ترمیم کی گئی اگر سزائے موت کا قانون ختم کرنا چاہتے تو پارلیمنٹ سے قانون میں ترمیم کرواسکتے تھے، مگر جب تک سزائے موت کا قانون موجود ہے اس پر عمل درآمد بھی ضروری ہے، اگر سزاؤں پرعملدرآمد نہیں کرنا تو پولیس اور عدالت کے افسران کی زندگی خطرے میں ڈالنے سے گریز کیا جائے۔

حکومت موت کی سزا پانے والے مجرموں کو اعلیٰ عدالتوں اور صدر مملکت کی جانب سے اپیلیں مسترد ہونے کے باوجود پھانسی دینے سے گریز کررہی ہے جس کے باعث عدلیہ ناراض نظر آتی ہے، اس ضمن میں گزشتہ ہفتے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقع پر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھاکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عدالتیں فعال ہیں لیکن حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، عدالتی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ حکومت دہشت گردوں کو رہا کرنے کا الزام عدلیہ پر لگاتی ہے مگر عدالت سزاسنا دے تو اس پر عمل نہیں ہوتا، جو جرم کو فروغ دینے کے مترادف ہے، اگر دہشت گردوں کوسنائی گئی سزاؤں پر عمل درآمدہوتودہشت گردی روکنے میں مدد مل سکتی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں