وقت
یہ کوشش بہت کم لوگ ہی کرتے ہیں کہ تمام معمولات کو پابندی وقت کے ساتھ ادا کیا جائے۔
تقریب میں کتنے بجے جانا ہے؟
کارڈ میں ساڑھے 9 بجے کا لکھا ہے، آرام سے11بجے تک جائیں گے، اتنی جلدی کون آتا ہے۔
آج 8 بجے دوستوں سے ملاقات طے ہے، جلدی جاؤں گا۔
بے وقوف ہو کیا جو بتائے گئے وقت پر جارہے ہو، کوئی نہیں آئے گا۔
کارڈ پر ''ٹھیک 9:30 بجے'' لکھا تھا، ہم نے غلطی کی جو یقین کرکے پہنچ گئے، میزبان بھی سارے نہیں تھے۔
کس نے کہا تھا کہ کارڈ پر ٹائم دیکھ کر تقریب میں پہنچو، اب بھگتو۔
پروگرام کے وقت سے ایک دو گھنٹے بعد جانا ورنہ پریشانی ہوگی۔
یہ اور ایسے بہت سے جملے ہم روزمرہ بول چال میں تقریباً روزانہ بولتے یا سنتے ہیں۔ یہ بات بہت تلخ لیکن حقیقت سے قریب ترین ہے کہ وقت کو اہمیت نہ دینے کا رجحان ہمارے معاشرے میں بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مسائل، ذہنی پریشانیاں اور الجھنیں بھی پیدا ہورہی ہیں۔ اِ س بات میں کوئی شک نہیں کہ انھی شخصیات، اقوام اور ممالک نے دنیا کے نقشے پر اہمیت حاصل کی جنھوں نے وقت کی اہمیت کو سمجھا ۔
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ ہم سب پاکستانیوں کے لیے خاص طور پر اور دنیا بھر مں بالعموم قابل تقلید شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بابائے قوم کا یہ معروف قول تو سب کو یاد ہے کہ ''کام، کام اور بس کام''، اس میں بھی وقت کی اہمیت اور اس کے بہترین استعمال کا اصول نمایاں ہے، کیونکہ ہم بہتر سے بہتر نتائج اسی وقت حاصل کرسکتے ہیں جب اپنے آپ کو کام میں مصروف رکھیں اور بروقت کام کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ کام کا آغاز بھی بروقت کیا جائے۔
ہم وقت کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں، وقت نہ ہونے کا شکوہ کرتے رہتے ہیں لیکن یہ کوشش بہت کم لوگ ہی کرتے ہیں کہ تمام معمولات کو پابندی وقت کے ساتھ ادا کیا جائے۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جن اداروں، دفاتر یا تجارتی مقامات پر وقت کی قید کا کوئی مسئلہ نہیں، وہاں لوگوں نے اپنے اوقات خود بنا رکھے ہیں۔ مرضی ہوتی ہے تو وقت پر آتے ہیں، دل نہیں چاہے تو نہیں آتے۔ اسی طرح بہت سے دفاتر میں لوگوں کو دفتر میں آنے سے پہلے ہی واپس گھر جانے کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں اور جن دفاتر یا اداروں میں وقت کی پابندی ملازمت کے قوانین میں شامل ہے وہاں تو بہ امر مجبوری ہر کسی کو بروقت پہنچنا ہی ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ لوگ وقت کو اہم سمجھنے کے اصول کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔
جو صاحبان بہت زیادہ مصروف رہنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کا رونا بھی روتے رہتے ہیں، ان سے جب پوچھا جائے کہ فلاں تقریب میں آپ نہیں تھے؟ یا آپ کیوں نہیں آئے ؟ تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ''بھائی وقت ہی نہیں تھا''۔ بہت سارے لوگ ایسی باتوں سے سمجھتے ہیں کہ یہ بات کرنے والا بہت مصروف ہے لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے اپنے خود ساختہ معمولات اور ''کاموں'' کی وجہ سے اوقات کار کو بے ترتیب کردیا ہے۔
کچھ لوگوں کے لیے تو کہا جاسکتا ہے اور یہ رعایت دی جاسکتی ہے کہ وہ واقعی مصروف ہیں لیکن یہ بات ہر کسی پر صادق نہیں آتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے یہ بات سمجھی ہی نہیں کہ دن رات ملا کر ہر روز ہمارے پاس 24 گھنٹے ہی ہوتے ہیں اور انھی 24 گھنٹوں میں ہم نے وہ سارے کام کرنے ہیں جن سے ہمارے معمولات زندگی انتہائی متوازن انداز میں چل سکیں۔
اگر ہم روزگار، گھر کے کام، تعلیم، عبادات، کھانا پینا، آرام کرنا، لوگوں سے میل جول، بچوں کے ساتھ وقت گزارنا اور سیر و تفریح جیسے معمولات کے لیے اوقات کار بنالیں تو زندگی خودبخود متوازن اور خوبصورت ہوجائے گی۔ یہ احساس بھی رفتہ رفتہ دور ہوجائے گا کہ ہم چند کاموں میں انتہائی مصروف ہوکر بہت سے دیگر کاموں اور معمولات کو نظرانداز کررہے ہیں یا ان کی بجا آوری سے ملنے والے ثمرات سے محروم ہورہے ہیں۔ بس اس بات کو سوچنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ کامیاب لوگوں کے پاس ہمیشہ کاموں کے لیے وقت ہوتا ہے جب کہ ناکام لوگ ہر لمحہ وقت کی کمی کو رو رہے ہوتے ہیں۔ شاعر نے کہا ہے کہ
سدا عیش دوران دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
وقت کسی کے پاس نہیں ہوتا، ہر کوئی اپنے مشاغل اور معمولات میں شب و روز مصروف رہتا ہے۔ یہ بات تو سب کے علم میں ہے کہ علم ریاضی میں جمع، تفریق، تقسیم اور ضرب کے قوانین ہی چلتے ہیں، اگر زندگی میں بھی دیکھا جائے تو کچھ ایسا ہی ہے۔ کامیاب وہی ہیں جو اپنے وقت کی تقسیم اس طرح سے کرتے ہیں کہ تعلقات، رشتے داریاں، روزگار کے مواقع ضرب ہوتے رہیں، مایوسیوں، پریشانیوں اور مسائل کو وقت کے بہترین استعمال سے تفریق کردیا جائے اور ہر شعبے میں خوشیاں، ذہنی سکون اور کامیابیاں جمع ہوتی رہیں ، یہ سب کچھ اسی وقت حاصل کیا جاسکتاہے جب وقت کی تقسیم توازن کے ساتھ کی جائے ۔
کالم کے آخر میں وقت کے حوالے سے چند اہم اقوال نذر قارئین ہیں، یہ ان لوگوں کی کہی ہوئی باتیں ہیں جنھوں نے زندگی بھر وقت کو اہم سمجھا، اسے ضائع نہیں ہونے دیا اور وقت کو اہمیت دیتے دیتے وہ خود اہم ہوگئے۔
٭ کوئی کام نہ کرنے سے بہتر اسے تاخیر سے کرنا ہے لیکن اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ کام میں تاخیر نہ کی جائے۔
کسی نے تو یہ بھی خوب کہا ہے کہ ''اگر آپ اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتے ہیں تو اس کے لیے پہلا کام وقت پر جاگنا اور آگے بڑھنا ہے''۔
سائنس فکشن لکھنے والی امریکی مصنفہ کیرن جوائے فاؤلر کا کہنا ہے کہ ''اگر آپ کسی تقریب میں تاخیر سے جارہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اعلان کررہے ہیں کہ آپ کا وقت میزبان کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے''۔