مشکل حالات
ہماری جوہری قوت جو بھارت سے بہت بہتر ہے اسے آخر بھارتی آرمی چیف کیوں ان دیکھا کر رہا ہے.
جب سے بھارت نے زمین کی تصاویر بھیجنے والا جاسوس سیٹلائٹ خلا میں بھیجا ہے وہ خطے میں اس برتری کو حاصل کرکے فخر سے پھولا نہیں سمارہا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کا کہناہے کہ یہ بھارت کا ساتواں ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے جس سے بھارت کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی نگرانی کی جائے گی تاکہ دشمنوں پر نظر رکھی جاسکے۔ اس سیٹلائٹ کو ''خلا میں آنکھ'' کا نام دیا گیا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے اس سیٹلائٹ کی لانچنگ پر اپنے بیان میں کہاہے کہ اس دوہرے نوعیت کے سیٹلائٹ سے عسکری عوام استحکام پیدا ہوگا۔ بھارت اس سے پہلے بھی کئی سیٹلائٹ خلا میں بھیج چکا ہے۔ جن کا مقصد مصنوعی سیاروں کی تعداد بڑھانا تھا کہ ٹی وی نشریات میں آسانی پیدا ہوسکے اور خلائی تحقیق بتایا گیا تھا مگر اب یہ راز کھل گیا ہے کہ اس نے پہلے بھی خلا میں جو سیٹلائٹ بھیجے تھے وہ بھی دوہری نوعیت کے حامل تھے جن کی مدد سے ہی پاکستانی سرحد اور خاص طور پر کشمیر کی لائن آف کنٹرول کی تصاویر حاصل کرکے بھارت نے آزاد کشمیر میں اپنی فوج کے سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا بہ بانگ دہل اعلان کیا تھا۔ اس بھارتی در اندازی کو پاکستان کی جانب سے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیا تھا۔
ہماری طرف سے واضح طور پر کہا گیا تھا کہ یہ اپنی مایوس جنتا کو خوش کرنے کے لیے مودی نے ڈراما رچایا ہے بعد میں جب بھارتی سیاست دانوں نے بھی اس سرجیکل اسٹرائیک کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو یہ یقین ہوگیا تھا کہ بھارت محض پاکستان پر برتری حاصل کرنے کے لیے یہ شر انگیز پروپیگنڈا کر رہا تھا۔ بہر حال بھارتی سیٹلائٹ کے ذریعے اس کی فوجوں کا ہماری سرحدوں کے اندر جھانکنے کی صلاحیت کا حاصل کرنا ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔
آج کل بھارتی آرمی چیف پاکستان مخالف بیانات کی بھوچھاڑ کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔ انھوں نے کچھ دن قبل نئی دہلی میں ہونے والی سالانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بڑے زعم اور ڈھٹائی سے کہاتھا کہ پاکستان کو تکلیف پہنچانا بھارت کی قومی پالیسی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارتی فوج چین اور پاکستان پر نظر رکھے ہوئے ہے وہ ان دونوں ممالک سے بیک وقت مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
چین کے بارے میں انھوں نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ اب حالات بدل چکے ہیں چین اب ہماری سرحدوں کے اندر داخل ہونے کی جرأت نہیں کرسکتا ہم نے چین سے نمٹنے کا انتظام کرلیا ہے ساتھ ہی پاکستان کے بارے میں اپنی روایتی دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے۔ جو دہشت گردوں کو پناہ بھی دیتا ہے اور تربیت بھی دیتا ہے۔ اب موصوف کا ایک نیا حیران کن بیان بھی سامنے آیا ہے۔
فرماتے ہیں کہ وہ پاکستان کی جوہری طاقت کو ایک فریب خیال کرتے ہیں اور اگر انھیں بھارت کا سرکار حکم دے تو وہ بلاجھجھک پاکستان پر حملہ کرسکتے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف کے بیان کے رد عمل میں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہاہے کہ پاکستان پر جارحیت مسلط کرنا بھارت کی پرانی خواہش ہے مگر اسے ایسا کرنے سے ہماری جوہری طاقت نے ہی روک رکھا ہے وہ پھر بھی ہمارا عزم آزمانا چاہتا ہے تو آزماکر دیکھ لے۔
یہ حقیقت ہے کہ آرمی چیف کا عہدہ انتہائی ذمے دارانہ قول و فعل کا متقاضی ہوتا ہے۔ وہ خود اس کار کا حامل ہوتا ہے یہ منصب پوری پیشہ ورانہ زندگی کے تجربے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ ایسے شخص سے ایسی بچکانہ بات زیب نہیں دیتی۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ ایڈونچرزم کے شوق کو دل سے نکال دے ورنہ اس کا یہ شوق اسے بہت مہنگا پڑسکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کی جوہری طاقت کا تعلق ہے اسے پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ بھارت خبردار رہے اس کا ہر شہر ہمارے نشانے پر ہے۔ بھارت کو ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ اس کی آئندہ نسلیں بھی یاد رکھیںگی۔
اب سوال یہ ہے کہ ہماری جوہری قوت جو بھارت سے بہت بہتر ہے اسے آخر بھارتی آرمی چیف کیوں ان دیکھا کر رہا ہے اور اسے خاطر میں نہیں لارہا ہے۔ اس کی ویسے تو کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مگر سب سے بڑی وجہ ہمارا اندرونی انتشار ہے۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کے حکومت سے مسلسل ٹکراؤ اور ملک میں انارکی جیسی صورتحال کے پیدا ہونے نے ہماری قومی ساکھ کو کمزور کردیا ہے۔ جب کوئی قوم بیرونی خطرات سے بے خبر ہوکر خود ہی انتشار کا شکار ہوجائے تو اسے زیر کرنا دشمن کے لیے زیادہ مشکل عمل نہیں ہوتا۔
مانا کہ ہمارے پاس ایٹم بم بھی ہے اور خطرناک قسم کے میزائل بھی ہیں مگر یہ سب تو اسی وقت استعمال ہوںگے جب ہم آپسی جنگ سے باہر نکلیں گے اور یکسو ہوکر اپنی توجہ دشمن کی جانب مبذول کریںگے۔ بد قسمتی سے گزشتہ چار سال سے ملک میں خوفناک انتشار کی کیفیت طاری ہے، ملک کی بڑی سیاسی پارٹیاں جو عوام میں خاصا اثر و رسوخ بھی رکھتی ہیں جمہوری عمل سے ہٹ کر دھرنوں اور مظاہروں کے ذریعے حکومت کو گرانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہیں۔
خوش قسمتی سے ہمارا ملک ایک جمہوری نظام سے مزین ہے جس کے کچھ قواعد و ضوابط بھی ہیں۔ آئین کے تحت ہر پانچ سال بعد الیکشن منعقد ہوتے ہیں، الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی پارٹی پانچ سال کے لیے اقتدار سنبھال لیتی ہے جمہوریت کی بقا اسی میں ہے کہ ہر حکومت اپنی آئینی مدت پورا کرے جیساکہ دنیا کے دوسرے جمہوری ممالک میں ہوتا چلا آرہاہے مگر دیکھنے میں آرہاہے کہ برسر اقتدار پارٹی کو بعض مصلحتوں کی وجہ سے مقررہ مدت کے پورا ہونے سے پہلے ہی گرادیا جاتا ہے اب اس وقت ملک میں عام انتخابات کے انعقاد میں صرف چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں اگر برسر اقتدار پارٹی اتنی ہی بری ہے تو عام انتخابات میں عوام خود ہی اسے اقتدار سے بے دخل کردیںگے۔
چنانچہ حزب اختلاف کی پارٹیاں کیوں اسے وقت سے پہلے گرانے کا عذاب اپنے سر لینے پر مصر ہیں۔ حیرت تو پیپلزپارٹی پر ہے کہ جس کے دو عظیم رہنما جمہوریت کی خاطر اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں مگر وہ بھی جمہوریت مخالف مہم کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ جہاں تک ماڈل ٹاؤن سانحے کا معاملہ ہے اس کے انصاف کے لیے عدالتوں پر بھروسا کرنے کے بجائے سڑکوں اور کنٹینروں کی سیاست کسی طرح بھی ملک کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوسکتی۔
البتہ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس سانحے میں اپنی شفافیت ثابت کرنے کے لیے اس کیس کی خود دوبارہ سے انکوائری کرائے اور عدلت عالیہ سے اس کا از خود نوٹس لینے کی باضابطہ درخواست کرے۔ اگر الیکشن سے چند ماہ پہلے اپوزیشن کا استعفے کا مطالبہ مان کر اس کا احتجاج ختم کرایا جاسکتا ہے تو یہ بھی ملک کے مفاد میں کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔ اس سے ملک میں پر امن طور پر عام انتخابات کے انعقاد کا راستہ بھی ہموار ہوسکتا ہے۔
اپوزیشن پہلے ہی بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کو شکست دے کر سینیٹ کے الیکشن میں اسے اس کی مرضی کی کامیابی حاصل کرنے سے روک چکی ہے اب اگر وہ پنجاب یا وفاقی حکومت کو بھی گرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو عام انتخابات میں ن لیگ کو کافی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانا ہوگا۔ ماضی میں محض حکومت اور حزب اختلاف کی باہمی چپقلش کی وجہ سے تین مرتبہ جمہوریت کی بساط لپیٹی جاچکی ہے۔ جب جمہوریت کے رکھوالے خود ہی جمہوریت کا گلا گھونٹنے پر آمادہ ہوں تو پھر آمریت کیونکر اپنا رنگ نہیں جمائے گی۔
کاش کہ ہمارے سیاست دان ہوش کے ناخن لیں اور اپنی نہیں تو کم سے کم عوام کی پریشانیوں کا کچھ خیال کریں اور انھیں مزید مشکلات سے دو چار کرنے کے بجائے انھیں اور جمہوری دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ملک کو آگے بڑھنے دیں۔ جلاؤ گھیراؤ کی سیاست سے ملک پہلے ہی دولخت ہوچکا ہے اس قسم کے نعرے لگانا اور اسمبلیوں پر لعنت بھیجنا کسی غیر کا ایجنڈا تو ہوسکتا ہے کسی محب وطن پاکستانی کا ہرگز نہیں۔