اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے
لیجیے ادھر باغ جناح سے اڑتی اڑتی زبانی طیور کی یہ خبر آئی ہے کہ وہاں پھولوں کی نمائش سجی ہے
آئیے تھوڑی دیر کے لیے اپنے بے پیندی والے سیاسی موسم کو بھول جائیں اور اپنے اصلی اور سچے موسم کو یاد کر لیں کہ ان دنوں سرسوں بھی بہت پھولی ہوئی ہے اور گیندا بھی بہت پیار دکھا رہا ہے۔ مطلب یہ کہ ہماری دھرتی نے بسنتی بانا اوڑھا ہوا ہے۔ بسنت، یہ کونسا نام لب پر آیا کہ ایک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے۔ اور لیجیے میر نے شاید اسی دن کے لیے جو اب ہماری تقدیر میں لکھا گیا ہے یہ کہا تھا کہ؎
اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے
اور ادھر ہم سوچ رہے تھے کہ کتنے برسوں سے یہ صورت ہے کہ بسنت رت جب شروع ہوتی تو تھوڑی سی آس بندھتی ہے کہ شاید بسنت کا میلہ پھر شروع ہو جائے گا۔ مگر جب بسنت کے دن گزرتے چلے جاتے ہیں اور آسمان پر کوئی پتنگ نظر نہیں آتی تو یہ آس یاس میں بدل جاتی ہے۔ ہاں اس برس قصور سے ایک خبر آئی کہ وہاں پتنگیں اڑیں اور کتنے پتنگ باز قانون شکنی کے جرم میں پکڑے گئے۔
بہر حال قصور والوں نے یہ تو ہمیں یاد دلا دیا کہ وہ بسنت کو بھولے نہیں ہیں۔ لاہور کے جیالے پھر بھی خاموش رہے؎
خانہ خراب تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
ہاں شاید ابھی پچھلے ہفتے جب نجم سیٹھی اپنے پروگرام میں حکومت پنجاب کے پانچ سالوں کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے تھے تو شہباز حکومت کے اچھے کاموں کا ذکر کرتے کرتے کچھ ان کے غلط کام بھی گنا ڈالے۔ ان میں سے ان کی دانست میں ایک کام یہ تھا کہ بسنت میلہ نے اس شہر میں ایک بین الاقوامی میلہ کی شکل اختیار کر لی تھی، وہ اب ممنوع ہے۔ یہ کہ یہ ایک تہذیبی حادثہ بھی ہے اور اقتصادیاتی اعتبار سے بھی ایک حادثے ہی کی حیثیت رکھتا ہے۔
لیجیے ادھر باغ جناح سے اڑتی اڑتی زبانی طیور کی یہ خبر آئی ہے کہ وہاں پھولوں کی نمائش سجی ہے اور ادھر اجوکا تھیٹر کی طرف سے یاروں کو دعوت ملی ہے کہ الحمرا میں آئیے اور دیکھیے کھیل 'میرا رنگ دے بسنتی چولا۔'' مطلب یہ کہ بسنت کے نام بس اب اتنا ہی اپنا مقدور ہے۔
اور ہاں یہ جو صبح ہی صبح ہم اپنا کالم لکھنے بیٹھے ہیں تو پتہ ہے یہ کونسی صبح ہے۔ 23 مارچ کی صبح۔ ابھی ابھی اخبار والا کئی اخبار کوئی انگریزی کا کوئی اردو کا ہمارے برآمدے میں پھینک گیا ہے۔ وہی معمول کے اخبار ہمیں یاد آیا کہ کتنے برسوں سے سمجھ لو کہ آغاز پاکستان سے یہ معمول چلا آ رہا تھا کہ اس دن پاکستان کے اخبارات بڑے اہتمام سے اپنے خصوصی نمبر نکالتے تھے اور قرارداد لاہور کے پس منظر اور پیش منظر کے بارے میں مضامین شایع کرتے تھے۔ شاید اب وہ یہ خصوصی نمبر نکالتے نکالتے تھک گئے ہیں۔ بس روزانہ کی اشاعت ہی میں اس تقریب سے دو ڈھائی مضمون شامل کر لیے ہیں۔
اس تقریب سے چھپنے والے مضامین میں دو تین عنوان ہمیں بہت معنی خیز نظر آئے۔ ایک عنوان ہے ''پاکستانی قومیت کی تلاش''۔ دوسرے مضمون کا عنوان ہے 'قومیت کا فقدان''۔ تیسرے مضمون کا عنوان ہے۔ معاف کیجیے۔ یہ تینوں مضمون ایک انگریزی اخبار کی زینت ہیں۔ سو اس تیسرے مضمون کا عنوان انگریزی میں ملاحظہ کیجیے Pakistan yesterday, Today, and Tomorrow ثانی الذکر مضمون کا انٹرو ملاحظہ فرمائیے ''تلخ حقیقت یوں ہے کہ پاکستان 1947ء سے ایک مملکت کے طور پر چلا آ رہا ہے۔ مگر اس مملکت کو ہنوز ایک قوم بننے کا شرف حاصل نہیں ہوا ہے۔'' موخرالذکر مضمون کا انٹرو یوں ہے ''کتنے پاکستانی اب تک واضح طور پر یہ سمجھ نہیں پائے ہیں کہ پاکستان کا مطالبہ کیوں کیا گیا تھا اور کیسے وہ وجود میں آیا اور اس کے قیام کا مقصود کیا تھا۔''
ایک بیساختہ ہمیں یہ مصرعہ یاد آیا؎
ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بہ کجا
علامہ اقبال نے اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں بڑے وثوق سے یہ اعلان کیا تھا کہ قوم کی جدید تعریف کے اعتبار سے ہندی مسلمان ایک قوم ہیں جب کہ ہندو ابھی قوم بننے کے عمل میں ہیں۔ پوری طرح قوم بن نہیں پائے۔ تب سے اب تک پلوں کے نیچے سے پانی بہت بہہ گیا ہے۔ ہاں خطبۂ الٰہ آباد کے بعد تحریک پاکستان کے دوران بھی تو بار بار بڑے وثوق سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ہندی مسلمان ڈھاکا سے لے کر پشاور تک اور ہمالیہ کی بلندیوں سے راس کماری تک ایک قوم ہیں۔
مگر عجب ہوا کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اس اعتماد میں دڑاڑیں پڑتی چلی گئیں اور مشرقی پاکستان کے انتقال پر ملال کے بعد تو ایسی دراڑ پڑی کہ بھٹو صاحب کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ اب یہ پاکستان نیا پاکستان ہے۔ مگر اس کے بعد نئے پاکستان میں بھی اچھے برے واقعات رونما ہوتے چلے گئے۔ خیر آگے جو ہوا سو ہوا مگر دشمنوں کے کان بہرے یہ جو جمہوریت کے پانچ سال پورے ہونے پر ہم اتنے خوش ہیں وہ پاکستان پر بہت بھاری گزرے ہیں۔ عجب بات ہے کہ جس شے کی ہم آرزو کرتے ہیں وہی شے ہمارے لیے بلائے جان بن جاتی ہے۔ لیجیے میر کا ایک شعر سن لیجیے؎
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
کتنی منتوں مرادوں کے ساتھ جمہوریت کی سواری باد بہاری آئی تھی۔ مگر وہی جمہوریت ہم پر کتنی بھاری گزری ہے۔ شاعر خون میں نہانے کی بات کرتا ہے۔ ارے یہاں تو ہم ایسے لہولہان ہوئے کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے اور کراچی کی سڑکوں پر مقتولوں کے جنازے قطار اندر قطار سجے نظر آنے لگے۔
ایسی فضا میں اگر 23 مارچ ٹھنڈی نظر آ رہی ہے تو تعجب نہ چاہیے۔ جب طبیعتیں سرد ہوں اور دل غم سے نڈھال ہو تو قومی دن منانے کے لیے گرمجوشی کہاں سے آئے۔ ہاں ایک بات کی داد دینی چاہیے۔ جمہوریت کے پانچ سالوں نے جو گل کھلائے وہ سب اپنی جگہ۔ بجلی، گیس، پانی سب کا توڑا، ہر چیز مہنگی، بس انسانی جانیں سستی اور اتنی سستی کہ ایک ایک ہلہ میں پچاس پچاس، سو سو لاشے گرتے نظر آتے ہیں۔ مگر؎
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جئے جاتے ہیں
اور جمہوریت پر ایمان اس وقت پہلے سے دوگنا چوگنا نظر آ رہا ہے۔
ذرا آج کے دن مینار پاکستان پر جا کر دیکھو، جمہوریت کا میلہ امنڈا نظر آئے گا۔
لو اس پر ہمیں ایک حکایت یاد آ گئی۔ ایک حبشی دودھ سے نہا رہا تھا۔ ایک بزرگ چلتے چلتے ٹھٹھکے۔ تعجب سے بولے اے مرد ناداں، دودھ سے کیا سوچ کر غسل کر رہا ہے۔ وہ بولا کہ شاید دودھ سے میرے بدن کی کالونس کٹ جائے اور میں گورا ہو جائوں۔
اس بزرگ نے ہنس کر کہا کہ تیرے بدن کی کالونس تو دودھ سے کیا دور ہوگی مجھے اندیشہ ہے کہ اس کالونس سے دودھ کالا نہ پڑ جائے۔
سو صاحبو! جمہوریت دودھ ملائی سہی مگر کالونس ہمارے اندر باہر بہت پھیل چکی ہے۔