سیاسی جماعتیں ایک تقابلی جائزہ
سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات جس حد تک پہنچ گئے ہیں، ان میں افہام و تفہیم کی گنجائش کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔
پاکستان کی 65 برس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی سیاسی حکومت اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد رخصت ہو چکی ہے اور پاکستانی عوام کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ اگلے پانچ برس کے لیے اپنے پسندیدہ حکمرانوں کا انتخاب کر سکیں۔ اس حوالے سے سول سوسائٹی اور ذرایع ابلاغ نے بھر پور کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران خاصے بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ فعال و متحرک میڈیا ابھر کر سامنے آیا۔ سول سوسائٹی نے خود کو assert کیا۔ وکلاء تحریک کے نتیجے میں عدلیہ، انتظامیہ کے اثرات سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی مگر سیاسی جماعتیں جو اپنی ساخت، ہئیت اور طرز عمل کے باعث معاشرے میں رونما ہونے والی ان فکری تبدیلیوں کو یا تو سمجھ نہیں پائی ہیں یا اپنے مخصوص Mindset کی وجہ سے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہی ہیں۔ تبدیلی کے اس عمل کے راستے میں رکاوٹ بنتی نظر آرہی ہیں۔ حکمرانی کو بہتر بنانے اور ملک کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی، جس نے عمومی طور پر مایوسی کو جنم دیا۔
اس وقت ملک میں معاشی ابتری، امن و امان کی مخدوش صورتحال، انتظامی ڈھانچے کی فرسودگی، مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت سنگین مسائل بن چکے ہیں۔ اس لیے اگلی منتخب حکومت کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہو گا۔ خاص طور پر معاشی نمو کے لیے توانائی کے بحران پر قابو پانا، امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے انتظامی ڈھانچے کی میرٹ پر تنظیم نو، مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کو لگام دینے کی خاطر خارجہ پالیسی میں کلیدی نوعیت کی تبدیلیاں، فوری اقدمات کے متقاضی ہیں۔
اس حوالے سے ترجیحی اقدام کے طور پر پڑوسی ممالک کے ساتھ معاملات میں بہتری لا کر تعلقات کو نارمل سطح پر لانا ہو گا۔ تا کہ دفاعی اور ترقیاتی بجٹ میں توازن پیدا کیا جا سکے۔ ان تمام اقدامات کے لیے سیاسی عزم و بصیرت اور ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں کو اسی جذبے اور اسپرٹ کا مظاہرہ کرنا ہو گا جو آئینی ترامیم اور NFC ایوارڈ یا الیکشن کمیشن کی تشکیل کی صورت میں سامنے آیا۔
پاکستان میں اس وقت کم و بیش2 سو کے قریب سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹر ہیں۔ ان میں سے درجن بھر جماعتوں کو چھوڑ کر باقی تمام جماعتیں صرف کاغذوں پر ہیں، جن میں بلدیاتی کونسلر منتخب کرانے کی بھی اہلیت نہیں ہے۔ جو چند جماعتیں پارلیمان تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، ان کے سیاسی نظریات مبہم اور غیر واضح ہیں۔ جب کہ کچھ سیاسی جماعتوں کے سیاسی رویوں کے بارے میں Unpredictable کی اصطلاح بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت اہم قومی امور پر یا تو کنفیوژن کا شکار ہے یا ٹھوس اور پائیدار پالیسیاں ترتیب دینے کی اہلیت سے عاری ہے۔
یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتیں اپنی حکمت عملیاں آج بھی مجموعی قومی مفادات کے بجائے امریکا اور مغربی ممالک کی خوشنودی کے حصول یا بعض خلیجی ممالک کے حکمرانوں کی خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے تشکیل دے رہی ہیں۔ دوسرا تشویشناک مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات جس حد تک پہنچ گئے ہیں، ان میں افہام و تفہیم کی گنجائش کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے آیندہ انتخابات کے بعد معاملات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں، کیونکہ امکان یہی ہے کہ آیندہ مخلوط حکومت بننے کا قوی امکان موجود ہے۔ لہٰذا اگر رویوں میں تبدیلی نہیں آتی، تو ملکی معاملات میں کسی قسم کی بہتری کے امکانات مشکل نظر آ رہے ہیں۔
ایک ایسی صورتحال میں جب سیاسی جماعتیں، اہم قومی امور پر کوئی ٹھوس اور مربوط سیاسی ایجنڈا پیش کرنے میں ناکام ہوں، ان کے بارے میں کوئی واضح موقف اختیار کرنا مشکل ہو جاتاہے۔ لہٰذا مختلف قومی امور پران کے نقطہ نظر کا نکتہ وار جائزہ لینے سے ان کے مجموعی نظریات کا کسی حد تک تعین کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں سات (7) جماعتوں کا چھ مختلف امور پر جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان جماعتوں میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی شامل ہیں۔ وہ امور جن پر ان سیاسی جماعتوں کے موقف کو پرکھنے کی کوشش کریں گے، وہ درج ذیل ہیں:
اول، قومی پالیسی سازی میں پارلیمان کا حتمی کردار۔ دوئم، معاشی نمو کی حکمت عملیاں۔ سوئم جمہوریت کو شراکتی بنانے کے لیے اقتدار و اختیار کی نچلی سطح پر منتقلی۔ چہارم، خارجہ پالیسی میں مناسب تبدیلیاں اور پڑوسی ممالک اور امریکا سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات۔ پنجم، امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے اور مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے خاتمے کے اقدامات۔ ششم، تعلیم، صحت اور سماجی ترقی پر نقطہ نظر۔
پہلے نکتہ پر تمام جماعتیں بظاہر متفق نظر آتی ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کے علاوہ کوئی بھی جماعت قومی پالیسی سازی پر اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو ختم کرنے اور اسے منتخب سیاسی حکومت کے تابع لانے کے لیے کوئی واضح ایجنڈا دینے میں واضح نہیں ہے۔ دوسرے نکتہ یعنی معاشی نمو کے لیے توانائی کے بحران پر قابو پانے اور صنعتکاری اور زرعی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے اب تک صرف تحریک انصاف کا واضح ایجنڈا سامنے آیا ہے۔ باقی جماعتوں کا موقف محض نعرہ بازی یا(Rhetoric) سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
سوئم، جمہوریت کو شراکتی بنانے کے لیے اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کے بارے میں متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کا موقف واضح ہے، جب کہ دیگر جماعتوں کا کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ چند برس پہلے تک جماعت اسلامی بھی اس عمل کی حامی تھی، مگر اس نے بعض مخصوص مفادات کی خاطر اس مسئلے پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ چوتھے نقطہ یعنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی پر بادی النظر میں سبھی جماعتیں متفق نظر آتی ہیں۔ مگر یہاں فکری اور نظریاتی تقسیم واضح ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی بھارت اور افغانستان سمیت پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات اور امریکا کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کی حامی ہیں۔ جب کہ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف کی اس مسئلے پر پالیسیاں مبہم اور غیر واضح ہیں۔
بلکہ کسی حد تک بھارت کے ساتھ مخاصمت کے جاری رہنے کی حامی ہیں۔ پانچواں نکتہ چوتھے نکتہ سے جڑا ہوا ہے۔ جو جماعتیں بھارت اور امریکا مخالفت میں رطب اللسان ہیں، وہی مذہبی شدت پسند عناصر سے مذاکرات اور انھیں مراعات دینے کی بھی حامی ہیں۔ لیکن اس مسئلے پر مسلم لیگ (ن) بھی اس گروہ میں شامل نظر آتی ہے۔ جو ایک طرف بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی حامی ضرور ہے، لیکن فرقہ واریت اور شدت پسندی پر اس کی خاموشی پراسرار ہے۔ چھٹا نکتہ یعنی تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے اہداف متعین کرنے کا معاملہ اصل میں تیسرے نکتہ سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے جو جماعتیں اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی پر پس و پیش سے کام لے رہی ہیں، وہ اس نکتے پر بھی غیر واضح ہیں۔
پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ قیام کے وقت ہی سے ریاست کے وجود کے منطقی جواز اور نظام حکمرانی کے تعین اور آئین کی بالا دستی کے تصور سے انحراف نے قومی منصوبہ سازی پر غیر سیاسی قوتوں کے غلبہ کی راہ ہموار کی۔ نتیجتاً جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی زد پذیر (Fragile) ہو گیا۔ جمہوریت کو نقصان پہنچانے میں جہاں اسٹبلشمنٹ کا نمایاں کردار ہے، وہیں سیاسی جماعتوں کے رویوں اور کارکردگی کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ طویل آمریتوں اور ریاستی جبر کے باوجود سیاسی جماعتوں کے مزاج اور رویوں میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آ سکی ہے۔
بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ان پر ایسی شخصیات حاوی ہوتی چلی گئیں، جو اپنی سرشت میں غیر جمہوری اور Status quo کی حامی ہیں۔ لہٰذا یہ سول سوسائٹی اور ذرایع ابلاغ کی ذمے داری ہے کہ وہ اصلاح احوال کے لیے مثبت اور تعمیری تنقید کے ذریعے سیاسی جماعتوں کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرتے رہیں۔ خاص طور پر انتخابات کے موقعے پر عوام کی فکری تربیت کے لیے سیاسی جماعتوں کے کردار، نظریات اور کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیتے رہنا انتہائی ضروری ہے، کیونکہ اس طرح ہی عوام کو بہتر نمایندگی کا حق مل سکتا ہے۔