عجب آزاد مرد تھا
تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے خلاف کوئی الزام نہ تھا۔
اتوار 14 جنوری 2018ء کی رات چند درجن افراد سخی حسن قبرستان میں موجود تھے ۔ بائیں بازو کے دانشور ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی تدفین عمل میں آرہی تھی ۔ خوفزدہ اور سراسمیہ کرنے والے ماحول میں تدفین میں شریک لوگوں کی سرگوشیاں فضاء میں سنائی دے رہی تھیں۔
پروفیسر سلیم میمن اور ڈاکٹر ریاض یونیورسٹی کے ماضی کے دنوں کو یاد کررہے تھے اور اسد بٹ اور خضر حبیب اس صورتحال کا تجزیہ کررہے تھے۔ ڈاکٹر ظفر عارف ہفتے کی شام کو فرید چمبر صدر میں ایک وکیل کے دفتر گئے تھے۔ ان کی صاحبزادی کو اتوارکی صبح لندن جانا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے وکیل صاحب کو بتایا کہ انھیں ڈیفنس اتھارٹی میں اپنے گھر پہنچنا تھا۔
اتوار کی صبح ہونے پرکراچی کے مضافاتی علاقے بن قاسم تھانہ جس کی حدود سمندرکے کنارے ریڑھی گوٹھ تک محیط ہے کے ایس ایچ او کو ایک کار کی پچھلی نشست پر ڈاکٹر ظفر عارف کی لاش کی اطلاع ملی تھی۔ یہ لاش جناح اسپتال پہنچائی گئی۔
جناح اسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے صحافیوں کو بتایا کہ ڈاکٹر ظفر عارف کی لاش کے پوسٹ مارٹم کے بعد ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے جسم پر کسی قسم کے تشدد کا کوئی نشان نہیں ملا۔ ڈاکٹر ظفر عارف کی پراسرار موت نے سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو ایک انجانے خوف میں مبتلا کردیا۔
انھوں نے ساری زندگی ریاستی جبرواستعداد کے خلاف جدوجہد میں گزاری۔ ان کے والدین کا تعلق یوپی کی ریاست رامپور سے تھا۔ ان کا خاندان کراچی کے نچلے متوسط طبقے کی بستی محمود آباد میں آباد ہوا ۔ ظفر عارف نے 60ء کی دہائی کے ابتدائی حصے میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں داخلہ لیا۔ وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں متحرک ہوئے، پھر برطانیہ چلے گئے جہاں انھوں نے University of Reading سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی، ہارورڈ یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا۔
ڈاکٹر ظفر عارف بائیں بازوکے نظریات رکھنے والے چند اساتذہ میں شامل تھے جنھیں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں تدریس کا موقع ملا۔ ڈاکٹر ظفر عارف نے استاد اور شاگرد کے روایتی رشتے کو تبدیل کردیا ۔ طلبہ کے ساتھ فرش پر بیٹھ کرگھنٹوں بحث ومباحثہ کرتے۔ کراچی یونیورسٹی کے کیفے میں اپنے ساتھی اساتذہ اور شاگردوں کے ساتھ دال اور انڈا گھوٹالا کھاتے اور ٹوٹی پیالیوں میں چائے پیتے۔
طلبہ سے سماجی علوم سمیت دنیا کے سب موضوعات پر وقت کی قید کے بغیر گفتگوکرتے۔ یوں فلسفے کے علاوہ سماجی، سائنس اور انجنیئرنگ حتیٰ کہ میڈیکل کالجوں کے طلبہ بھی ان محفلوں میں شریک ہوتے۔ یہ محفلیں کیمپس میں ہی واقع ان کے گھر میں بھی جاری رہتیں۔
سب سے پہلے کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہدکا آغاز کیا۔ 70ء کی دہائی میں بہت سے اساتذہ برسوں سے ایڈھاک بنیادوں پرکام کررہے تھے، ان میں کچھ وہ تھے جو پانچ برسوں سے ایڈھاک ہی تھے۔ ڈاکٹر صاحب جیسے ہی کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے، ان کی قیادت میں اساتذہ نے کئی دنوں تک ایڈھاک اساتذہ کو مستقل کرنے کے مطالبہ کو منوانے کے لیے ہڑتال کی۔
اس ہڑتال کی اطلاع اخبارات کے ذریعے صدر ذوالفقار علی بھٹو کو ملی تو انھوں نے فوری طور پر مداخلت کی، یوں اساتذہ مستقل آسامیوں پر تعینات ہوئے۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی کے تحت یونیورسٹی اساتذہ کو ترقیوں اور مراعات دلوانے کا بیڑا اٹھایا جس کی بناء پر اساتذہ کو وہ مراعات ملیں جن کا پہلے تصور نہیں تھا۔ انھوں نے علمی آزادی کے حق کے لیے آواز اٹھائی۔ یونیورسٹی کی خودمختاری اور اساتذہ کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی حکومت کی کوششوں کو ناکام بنایا۔
ڈاکٹر ظفر عارف کو کئی دفعہ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی (K.U.T.S) کا صدر منتخب کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب بائیں بازو کے دانشور محمد میاں کے ہمراہ مزدور کسان پارٹی کے حلقے میں شامل تھے۔ مزودر کسان پارٹی خیبر پختون خواہ میں ہشت نگر میں کسانوں کی مسلح جدوجہد کو منظم کررہی تھی۔ ایم کے پی کے کراچی کے سیکریٹری جنرل انوار کاظمی بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر ظفر عارف ہشت نگر گئے اور 15 دن تک کسانوں کے ساتھ رہے۔
ڈاکٹر حسن ظفر عارف جنرل ضیاء الحق کے دور میں فوجی آمریت کے خلاف مزاحمتی تحریک کے ایک نمایاں کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ انھوں نے اساتذہ اور طلبہ کو اس مزاحمتی تحریک میں سمونے کی مسلسل کوشش کی۔ یہ وہ وقت تھا کہ کراچی یونیورسٹی دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کے تھنڈر اسکواڈ کی زد میں تھی۔ پی آئی اے کے طیارے کی ہائی جیکنگ کے بعد بائیں بازو کے طلبہ کی سرگرمیاں ماند پڑگئی تھیں۔
ڈاکٹر ظفر عارف اور محمد میاں وغیرہ نے طلبہ میں شعور پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بائیںبازوکے طلبہ یونائیٹڈاسٹوڈنٹس موومنٹ (U.S.M) میں متحد ہوگئے۔ کراچی پولیس نے کراچی یونیورسٹی کو اسلحے سے پاک کرنے کے لیے دائیں بازو کی فکر کے اسیر شعبہ اردو کے ایک پروفیسرکی رہائش گاہ سے اسٹین گن برآمد کرلی۔ فوجی حکمراں کے دباؤ پر متعلقہ پولیس افسر نے ڈاکٹر ظفر عارف کو اس الزام میں گرفتار کیا کہ ان کی قیام گاہ کے باہر سے بندوق کی گولیاں برآمد ہوئی ہیں۔
یہ ڈاکٹر صاحب کا جیل جانے کا پہلا تجربہ تھا۔ وہ چند دن کراچی کے مختلف تھانوں کے لاک اپ میں بند رہے۔ پھر دونوں اساتذہ ضمانت پر رہا ہوئے۔ کراچی یونیورسٹی میں فائرنگ میں بلوچ طالب علم یونس شاد سمیت کئی طالب علم زخمی ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے یونس شاد کو برطانیہ میں علاج اور انھیں بھجوانے کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کی مہم منظم کی جس کی وجہ سے یونس شاد سینے میں پیوست گولی کو نکلوا کر لندن سے واپس آئے۔
اس دوران محکمہ انکم ٹیکس کے ایک افسر ڈاکٹر جمیل جالبی کو کراچی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ان کی شکایت پر گورنر سندھ اور کراچی یونیورسٹی کے چانسلر لیفٹیننٹ جنرل جہانداد خان نے ڈاکٹر ظفر عارف کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا۔ اس نوٹس میں الزام لگایا گیا کہ ظفر عارف اسٹاف ٹاؤن کی پلیہ پر بیٹھ کر اساتذہ اور طلبہ کو بغاوت پر اکساتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر عارف نے اپنے جواب میں یہ سوال اٹھایا کہ جنرل ضیاء الحق اور ان کے معاونین کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا کیا قانونی حق تھا؟
یوں ڈاکٹر ظفر عارف ملازمت سے محروم کر کے کراچی سینٹرل جیل نظر بند کردیے گئے۔ ڈاکٹر صاحب دو سال سے زائد عرصے تک کراچی سمیت صوبے کے دیگر کئی جیلوں میں نظربند رہے۔ انھیں 1986ء میں سندھ ہائی کورٹ کے دو ججوں پر مشتمل ریویو بورڈ نے ثبوت نہ ہونے پر رہا کردیا۔ ڈاکٹر ظفر عارف پیپلز پارٹی کی قیادت کے انتہائی قریب ہوئے، بعد ازاں سیاسی اختلافات کی بناء پر مستعفی ہوگئے۔
تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے خلاف کوئی الزام نہ تھا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے انھیں ملازمت پر بحال نہیں کیا۔ ڈاکٹر صاحب شہید بھٹو گروپ میں رہے اورکچھ عرصہ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ سے آشنائی رہی ۔ انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) کے پہلے کوآرڈینیٹر رہے۔
گزشتہ سال ایم کیو ایم زیر عتاب آئی تو اس کی کمان سنبھال لی، یوں قیدوبند کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔دل کی بیماری کوکبھی خاطر میں نہ لائے اور ہمیشہ مظلوم طبقات کے لیے جدوجہدکو اپنا راستہ جانا، اگرچہ ڈاکٹر ظفر عارف کی صاحبزادی نے واضح کیا کہ ڈاکٹر صاحب کے جسم پرکوئی تشدد کا نشان نہ تھا مگر ان کی موت پراسرار ضرور ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی موت سماجی جبر کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لیے بڑا نقصان ہے ۔ ناصرکاظمی نے شاید ظفر عارف کے لیے ہی یہ شعر کہا تھا۔
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیراں کرگیا وہ