لعنت کا ہدف کون

کہا گیا کہ لعنت کا لفظ کم تھا، زیادہ برے الفاظ استعمال کیے جاسکتے تھے یعنی غلیظ ترین بازاری گالیاں بھی دی جاسکتی تھیں۔


Zahida Hina January 24, 2018
[email protected]

جمہوریت کا حسین ترین پہلو یہ ہے کہ اس نظام میں اختلاف رائے، احتجاج اور اپنے خیالات کے اظہار کی مکمل آزادی ہوتی ہے، لیکن شرط صرف یہ ہے کہ ان مقاصد کے لیے پُر امن اور قانونی ذرایع استعمال کیے جائیں اور جو لوگ ان حقوق اور ذرایع کو استعمال کریں وہ جمہوریت پر یقین بھی رکھتے ہوں۔

پاکستان میں ایک ایسی حقیقی جمہوریت کا قیام ہنوز ایک خواب ہے جس میں ہر امتیاز اور تفریق سے بالاتر ہوکر ریاست کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں، آئین بالادست اور پارلیمنٹ دیگر تمام ریاستی اداروں سے زیادہ با اختیار اور طاقتور ہوکیونکہ اسی ادارے کے منتخب نمایندے کسی بھی ملک کا آئین تشکیل دیتے ہیں۔گویا، پارلیمنٹ آئین کی 'ماں' کی حیثیت رکھتی ہے۔

ریاست کے دیگر تمام ادارے جن میں انتظامیہ اور عدلیہ شامل ہیں وہ سب پارلیمنٹ کے تخلیق کردہ آئین کی پیداوار ہیں۔ یہ آئین ریاست کے دیگر تمام اداروں اور محکموں کے دائرہ کارکا تعین بھی کرتا ہے۔ پارلیمنٹ، آئین میں ترمیم اور بہ وقت ضرورت قانون سازی کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اس محترم اور معزز ادارے کا سب سے بڑا تقدس یہ ہے کہ اسے عوام اپنے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے وجود میں لاتے ہیں۔

ہمارے ملک کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں ہمیشہ عوام،ان کی منتخب کردہ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے تخلیق کردہ آئین کو کبھی وقعت نہیں دی گئی۔ایسے دانشوروں اور سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد ہر وقت جمہوریت اور عوام کے منتخب نمایندوں کی تذلیل اور تضحیک کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ان کے لیے براہ راست آئین کی مخالفت کرنا مشکل ہوتا ہے لہٰذا ان کا اصل ہدف پارلیمنٹ ہوتی ہے ۔ فوجی آمر آئین شکن ہوتا ہے اس لیے وہ اسے چند صفحوں کا ایک بے کارکتابچہ قرار دے کر اپنے بوٹوں تلے روندتا ہے، اپنی مرضی کی پارلیمنٹ بناتا ہے اور عوام کی سیاسی آزادیاں اور بنیادی حقوق سلب کرلیتا ہے۔

اب دور بدل رہا ہے ، یہ 21 ویں صدی کی دوسری دہائی ہے ، سرد جنگ ختم ہوچکی ہے۔ فوجی آمروں، بادشاہوں اور دیگر طرزکی آمریتوں کے عالمی سرپرست، حامی اور مربی اپنی حکمت عملی بدل چکے ہیں ۔ آج کسی بھی ملک پر براہ راست غاصبانہ قبضہ کرنا کسی آمرکے لیے آسان نہیں رہا ہے ۔ دہائیوں تک اپنے اپنے ملکوں پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنے اور اپنے مخالفین کو بدترین سزاؤں اور اذیتوں کا نشانہ بنانے والے عناصرکو ماضی کی ''شان اور عظمت'' سے محروم ہونے کا سخت صدمہ ہے۔

اب ان کے پاس واحد حکمت عملی یہی ہے کہ اگر ریاست کو براہ راست اپنے کنٹرول میں رکھنا ممکن نہ رہے تو اس پر بالواسطہ طور سے حکمرانی کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے انھیں ایسے کرداروں کی ضرورت ہے جو بظاہر سیاسی نظر آتے ہوں، ہر لمحے جمہوریت کا راگ الاپتے ہوں،کرپشن کی بدترین مخالفت میں آگے آگے ہوں لیکن ان کا اصل مقصد اقتدار میں، جمہوری طور سے آنے کے بجائے چور دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرنی ہو۔ ایسے سیاسی اور دانشور عناصر کو جمہوریت پسندی کی ایک علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور منتخب جمہوری اور آئینی حکومتوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرکے ان کو آگے بڑھانے کی راہ ہموارکی جاتی ہے۔

پاکستان میں بھی 70 سال سے یہی کام ہو رہا ہے۔ کیسی بدبختی اور بدنصیبی ہے کہ 70 برس میں ہم اپنے ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی قائم نہیں کرسکے۔ پہلے آٹھ سال تک آئین ہی بننے نہیں دیا گیا۔ جب روتے دھوتے آئین بنا لیا گیا تو اس کے تحت عام انتخابات کرانے کے بجائے مارشل لا لگا کر اس آئین کو ختم کردیا گیا۔

ایک دو نہیں بارہ برس تک فرد واحد کی حکمرانی رہی۔ اپنی مرضی کا آئین، پارلیمنٹ اور حکومت بنائی گئی۔ حقیقی جمہوریت کی نفی سے تنگ آکر ملک کی اکثریتی آبادی نے فوجی آمرکے مسلسل قبضے کو رد کردیا اور اپنی راہ جدا کرلی۔ آج بھی اس پر تنازعہ کھڑا کیا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام ہم سے کیوں الگ ہوئے؟ اسے فوجی آمریت کا شاخسانہ قرار دینے کے بجائے کسی 'سازش' کا نام دیا جاتا ہے۔

شیخ مجیب الرحمان جن کی جماعت کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوئی تھی اور جو تحریک پاکستان کے دوران ایک مقبول نوجوان مسلم لیگی طالب علم رہنما تھے، ان کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ غدار وطن تھے اور ملک کو توڑنے کے ذمے دار تھے۔ کیا کبھی اکثریت بھی کسی ملک سے الگ ہوئی ہے؟ یہ ایک انوکھا اور نادر واقعہ تھا ۔ پارلیمنٹ کا احترام کیا جاتا اور جمہوری اصولوں کے مطابق اقتدار پارلیمنٹ اور شیخ مجیب الرحمان کے حوالے کر دیا جاتا تو کیا پاکستان دولخت ہوتا؟ ہرگز نہیں ۔ تاریخ اور وقت سچ کو اُجاگر کردیتا ہے۔ جو لوگ کل یہ نہیں مانتے تھے وہ آج ماننے لگے ہیں اور جو آج یہ بات نہیں مانتے کل وہ بھی اسے ماننے پر مجبور ہوجائیں گے۔

اب بات ہو جائے آج کی۔ پرویز مشرف کے طویل آمرانہ دور کے بعد 2008 سے جمہوری حکومتوں کو نہ چاہتے ہوئے بلکہ بڑی کراہیت سے برداشت کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ 2008 سے 2018 تک پورے ملک کو ایک ہیجان میں رکھا گیا۔ ہیجان میں اس لیے رکھا گیا کہ عام انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والی جماعتیں اور وزرائے اعظم عوام کے نمایندے تھے۔ لہٰذا ڈکٹیشن نہ ماننا ان کی مجبوری تھی۔ ان کی مجبوری اپنی جگہ لیکن اب جمہوریت عوام کی ضرورت بن چکی ہے۔

اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ عوام نے اپنے عملی تجربے سے یہ دیکھا اور سیکھا ہے کہ آمریتوں نے انھیں اور ان کے ملک کو کتنے ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے ہیں۔ پہلا آمر وفاق کی بنیادوں میں بارود بجھا گیا، دوسرے نے اس بارود کو آگ دکھا کر آدھا ملک الگ کردیا۔

تیسرے صاحب تشریف لائے، اسلام کے نام پر انھوں نے پوری دنیا کے لڑاکوں کو پاکستان بلا کر افغانستان کو خانہ جنگی اور اپنے ملک کو فرقہ واریت کے جہنم میں دھکیل دیا۔ وہ جب دنیا سے گئے یا بھیجے گئے تو اپنے پیچھے فرقہ وارانہ انتہا پسند جماعتیں، کلاشنکوف اور منشیات کا ایسا کلچر چھوڑ گئے جس کی قیمت پاکستان کے عوام اور ان کے بچے آج بھی ادا کررہے ہیں، ان کے بعد چوتھے صاحب تشریف لائے، انھوں نے جو گل کھلائے وہ سب کے سامنے ہیں۔ افغانستان میں جاری دہشت گردی کی جنگ وہ اپنے ملک میں کھینچ لائے اور اپنے لوگوں کو امریکا کے ہاتھوں بیچ کر ڈالر کمائے۔

اپنے تجربات کے بعد عوام نے یہ جان لیا ہے کہ اب جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے بغیر نجات کی کوئی راہ باقی نہیں ہے۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ اگلے عام انتخابات میں صرف چند ماہ رہ گئے ہیں۔ انتخابات ہوگئے تو جمہوریت اور پارلیمنٹ مزید طاقتور ہوجائے گی۔ جیسے جیسے انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں ویسے ویسے غیر جمہوری سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے اعصاب بھی جواب دیتے جارہے ہیں۔

اس کی بہت بڑی مثال لاہور میں ہونے والا 18 جنوری کا جلسۂ عام تھا جس میں کئی درجن جماعتوں نے حصہ لیا تھا۔ سب کا مطالبہ یہی تھا کہ حکومت ختم کی جائے۔ عوام نے انھیں مایوس کیا۔ کروڑوں روپے خرچ کرنے اور بے پناہ تشہیری مہم چلانے کے باوجود اس فلاپ شو نے ہر طرف کھلبلی مچادی۔ اسٹیج پر موجود 'عظیم قائدین' زہر ناک باتیں کرنے لگے۔ پارلیمنٹ پر بار بار لعنت بھیجی گئی ۔ یہ وہ پارلیمنٹ ہے جس کے وہ خود رکن ہیں اور جس سے وہ اب تک کروڑوں روپے سے زیادہ کی تنخواہ اور دیگر مراعات حاصل کرچکے ہیں۔

کہا گیا کہ لعنت کا لفظ کم تھا اور زیادہ برے الفاظ استعمال کیے جاسکتے تھے یعنی غلیظ ترین بازاری گالیاں بھی دی جاسکتی تھیں۔ عوام سے مایوسی اور ان پر غصے کا ایسا عالم تھا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ذرا غور کریں، کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا اس کا رجسٹرار آپ کو اچھا نہیں لگتا تو کیا آپ یونیورسٹی پر لعنت بھیجیں گے؟ کیا کسی ایسی عبادت گاہ کے لیے آپ نا مناسب الفاظ استعمال کریں گے جس کے پیشوا کا مذہب اور مسلک آپ کو اچھا نہ لگتا ہوگا۔ ایسی بات کی توقع تو بچوں تک سے بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔

کتنی المناک بات ہے کہ وہ پارلیمنٹ جس نے ہمیں آئین دیا، جس نے ادارے بنائے، جس نے وفاق کو متحد رکھا، جس کی تخلیق عوام نے اپنے ووٹوں سے کی آج اس پر لعنت وہ بھیج رہے ہیں جو خود اس کا حصہ ہیں، اس کی تنخواہ تو لے رہے ہیں لیکن سال میں دوبار سے زیادہ وہاں جانے کی زحمت تک گوارہ نہیں کرتے۔ کیا انھوں نے کبھی غورکیا ہے کہ بغیر کام کیے تنخواہ لینے والے کو ہمارے سماج میں کس نام سے پکارا جاتا ہے؟ پارلیمنٹ کی تشکیل عوام کرتے ہیں، اس پر لعنت بھیجنا دراصل بالواسطہ طور پر عوام کو اس لفظ کا ہدف بنانا ہے۔ یہ عمل سیاسی خودکشی کے علاوہ کچھ نہیں۔ لہٰذا لعنت ملامت چھوڑیے اور اپنا سیاسی مستقبل اگر بچانا ہے تو بچالیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں