ساحلی شہر کے دو سمندر
حسن منظر سے ملاقات تمام ہوئی، تو ہم ساحل کی سمت بڑھنے لگے۔
وہ عجیب سہ پہر تھی، میں داستان گوکے روبرو تھا اور وہ اپنے فن کے اوج پر تھا۔
وہ پھر وہی قصہ بیان کر رہا تھا، جو میں پہلے بھی اس سے سن چکا تھا، اسی کمرے میں، اس دل چسپی اور انہماک کے ساتھ، مگر ہربار کی طرح وہ پھر نیا معلوم ہوتا تھا کہ داستان گو اپنے فن میں یکتا تھا، اُس جیسا کوئی نہیں تھا۔ وہ جو اس سے پہلے گزرے، ان کی یاد میرے ذہن سے محو ہوئی اوروہ جو بعد میں آئیں گے،ان کے سر اس کی عظمت کے سامنے جھک جائیں گے۔
اسد محمد خاں کمیونسٹ پارٹی سے اپنی وابستگی، اپنے گھر میں ہونے والی خفیہ میٹنگز، پارٹی کے لیے پوسٹرز لکھنے اور مسجدکی دیوار پر انھیں چسپاں کرتے ہوئے گرفتار ہونے کی تفصیلات بیان کررہے تھے۔ایک پرلطف کہانی۔ وہ سنائیں، اور آپ سنتے چلے جائیں۔ وہ تھانے میں گزرے 17 دن، ادھر قیدیوں کو لیکچرز دینا، ماموں، جو ایس ایس پی تھے، ان کے سامنے اعتماد سے اپنے آدرش بیان کرنا اور ان کا منہ دبائے ہنسے جانا اور پھرمعافی نامے پر دستخط، کمیونسٹوں کی دھمکیاں، تایا کا لٹھ لیے میدان میں آنا اور آخر اُن کا پاکستان چلے آنا۔۔۔ ہے تو یہ ایک ہی قصہ، مگر اسد محمد خاںجب جب بیان کرتے ہیں، نیا نویلا معلوم ہوتاہے، من کو بھاتا ہے۔
وہ عجیب سہ پہر تھی۔ لاہور سے آئے ہمارے ایک دوست کے لیے گھر میں ظہرانے کا اہتمام تھا، جس کے بعد ہمیں اسد محمد خاں کی سمت جانا تھا، سمجھیں لیں ایک عہد سے ملنا تھا، اُسے ہمہ تن گوش ہو کر سننا تھا۔ میرا دوست، جو ہمہ وقت کتابوں سے لدا رہتا، جو معلومات کا خزانہ تھا، معلومات، جس کے پیچھے اس کا وسیع مطالعہ تھا، اس نے دوران سفر مجھ سے کہا تھا: ایسے میں جب ہندوستان میں نیئر مسعود نہیں رہے، لاہور سے انتظار حسین اور عبداللہ حسین رخصت ہوئے، فکشن نگاری میں کراچی کا پلڑا پھر بھاری ہوگیا ہے۔ اب مرکز یہاں ہے۔
وہ درست کہتا ہے۔ بے شک لاہور میں مستنصر حسین تارڑ جیسی معتبر شخصیت موجود ہے، جو میرے لیے پورا لاہور ہے، جس کی بابت ہندوستان کے ایک نقاد نے کہا تھا کہ اب ناول کا مستقبل لاہور سے وابستہ ہے کہ تارڑ وہاں رہتا ہے، تو بے شک ادھر مستنصر حسین تارڑ ہے۔ مگر تارڑ نے بھی تو خود ہی کہا ہے ''میں اسد محمد خاں کو اردوکا سب سے بڑا فکشن نگار مانتا ہوں۔ ''
یوں تو ''باسودے کی مریم'' اور''مئی دادا'' ہی بہت ہیں، جنھیں وہ جب جب جس جس محفل میں سناتے ہیں،گرویدہ بنا لیتے ہیں، لیکن ان کی زنبیل میں ''ترلوچن، غصے کی نئی فصل، گھس بیٹھیا اور''شہرکوفہ کا محض ایک آدمی'' بھی موجود ہیں۔ اس عہد میں جتنے زندہ افسانے اسد محمد خاں نے لکھے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
اسد محمد خاں کے پاس سے اٹھے، تو سہ پہر شام میں ڈھل رہی تھی، اور سمندر ہمیں پکار رہا تھا کہ ادھر ڈیفنس میں کہیں ایک ایسا درویش بستا تھا، جس نے اجنبی لوکیل کی کہانیاں اس تسلسل، مہارت اور گرفت سے لکھیں کہ منفرد ٹھہرا۔ اردو کی ادبی تاریخ میں بین الاقوامیت کو نبھانے کا جوفن اس بزرگ کے ہاں، وہ کمیاب۔ جو جملہ اس نے لکھا، وہ اب سے قبل ہم نے فقط عالمی ادب کے تراجم ہی میں پایا۔
ڈاکٹر حسن منظر مغرب کی نماز پڑھ چکے تھے۔ ہم کچھ تاخیر سے پہنچے۔ ممکن ہے، اس اثناء میں انھوں نے پکتھال کے ترجمہ قرآن یا پھر دیوان غالبؔ کے چند اوراق کا مطالعہ کیا ہو کہ وہ ہمیشہ انھیں اپنے پاس رکھتے ہیں۔ پہلے بھی کہیں لکھا تھا، معاشرتی تنوع کا بھرپور اظہار دیکھنا ہے، تو ان کی کہانیاں پڑھیے۔قریہ قریہ گھوم کر کہانیاں اکٹھی کیں اورمعاشرت کو گرویدہ بنالینے والی تفصیلات کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے ان کے افسانے ''پتے کا پانی'' کے مطالعے کے بعد لکھا تھا، ''لطف آگیا'' فیضؔ صاحب نے ان کا دوسرا مجموعہ ''ندیدی'' پڑھ کر تاسف کیا کہ حسن منظرکا پہلا مجموعہ ان تک کیوں نہیں پہنچا؟ افتخارعارف صاحبِ منزلت افسانہ نگاروں میں ان کا شمار کرتے ہیں۔ ابن انشاء کو ان کے ہاں بے تکلفانہ فکشن لکھنے کی مہارت نظر آئی تھی۔ انور سدید نے اردو افسانے کو نئی جہت عطا کرنے پر مبارک باد دی۔
مگر اس شام ہم نے حسن منظر سے فکشن پر تھوڑی بات کی، مگر طبی نفسیات کا موضوع غالب رہا۔ ڈاکٹر صاحب کا شمار چوٹی کے ماہرین نفسیات میں ہوتا ہے۔ عشروں تک حیدرآباد میں اپنا کلینک کیا (اور اسی دوران لسانی فسادات میںاپنے گھر اورکلینک پر قبضے کی ناقابل بیان اذیت سے گزرے) دل پذیر ناولوں کے علاوہ انھوں نے پورن فلموں کے بد اثرات پر ایک کتابچہ بھی لکھا ہے۔ اس تناظر میں بات کا رخ قصور میں رونما ہونے والے دل خراش واقعات اور ننھی زینب کے لرزہ خیز قتل کی سمت مڑ گیا۔
ڈاکٹر حسن منظر کبھی اپنے مریضوں کے کیس ڈسکس نہیں کرتے، اور اس روز بھی انھوں نے ایسا ہی کیا، مگر بچوں سے ہونے والی زیادتی، اس سے جنم والے نفسیاتی امراض پر کچھ روشنی ڈالی، تو دل دہل گیا۔ یہ ایک ایسی تاریک دنیا ہے، جسے کی ہولناکی اور تعفن کی وجہ سے ہم اس سمت جانے سے کتراتے ہیں، گھبراتے ہیں۔
میڈیا لاکھ براسہی، ریٹنگ کی دوڑ میں سب کچھ کر گزرتا ہے، مگر یاد رکھیے، اگر یہ میڈیا نہ ہوتا، تو نہ ہی زینب کا کیس سامنے آتا، نہ ہی ان گیارہ بچیوں کے لیے کوئی آواز اٹھتی، جو زینب ہی کے ڈھب پر اغوا کی گئیں اور زیادتی کے بعد قتل کر دی گئیں۔ صاحبو، ہم وہ ایٹمی طاقت، وہ غیور قوم ہیں، جس کے بچے محفوظ نہیں۔ مگر اب میں اپنے قلم کو یہیں روکتا ہوں کہ یہ موضوع تلخ ہے۔ مجھے دہلا دیتا ہے، ڈرا دیتا ہے، اور اسی ڈر سے فرار کے لیے میں کہانیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ داستان گو کے در پر جاتا ہوں ۔سمندر میں اتر جاتا ہوں۔
اس شام بھی ہم ایک عظیم داستان گوکے در پر تھے۔ حسن منظر سے ملاقات تمام ہوئی، تو ہم ساحل کی سمت بڑھنے لگے۔ اس کے آخری کونے کی سمت، دو دریا کی سمت، تاکہ لاہور سے آئے اپنے دوست کو ایک یادگار منظر دکھا سکیں۔ایک ریسورنٹ، جن سے ہلکی ہلکی لہریں ٹکراتی ہیں، روشنی میں نہائی ایک کشتی پاس سے گزرتی ہے، درجنوں بگلے پانی پر اترتے ہیں اور خنک ہوا آپ کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔
وہ ایسا منظر ہے، جو تارڑ کے ناولوں کی یاددلاتا ہے۔ ناول، جہاں منظر کو زبان مل جاتی ہے۔