ساقی فاروقی اور استاد نذر حسین
ساقی یاروں کے یارے تھے لیکن ان کی حس مزاح اپنی موج میں یاروں سمیت خود ان کی اپنی ذات کو بھی لپیٹ میں لے لیتی تھی۔
ساقی فاروقی جیسے متحرک اور زندگی سے بھر پور شخص کے نام کے ساتھ مرحوم لکھنا کس قدر مشکل اور تکلیف دہ احساس ہے اس کا اندازہ وہ لوگ شاید کبھی نہ کرسکیں جنہوں نے ساقی کو صرف پڑھا ہے اسے دیکھا یا اسے کبھی ملے نہیں۔ ان سے آخری ملاقات کوئی دو برس قبل لندن میں ڈاکٹر جاوید شیخ کے گھر پر ہوئی تھی۔
اس کے بعد دو دفعہ انگلینڈ جانا ہوا مگر باوجود کوشش کے ملاقات کی صورت نہ نکل سکی کہ وہ اپنی شدید بیماری اور بے بسی کی حالت میں نہ صرف ملاقات پر راضی نہیں ہوتے تھے بلکہ کچھ اس سے ملتا جلتا اعلان بھی کررکھا تھا کہ وہ اپنے پرانے اور قریبی دوستوں کے حافظے میں ایک صحت مند اور خوشگوار ساقی کی شکل میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے اپنی بیگم کے انتقال کے بعد ان کی یادداشت نے بھی تقریباً ساتھ چھوڑ دیا تھا اور بقول ڈاکٹر جاوید شیخ اب وہ غالب کے اس مصرعے کی مثال زندہ تھے کہ ''ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے''
منو بھائی، ساقی فاروقی اور استاد نذر حسین تینوں نے طویل، شاندار اور بھر پور زندگیاں گزارنے کے بعد اس دنیائے فانی سے پردہ کیا اور اگرچہ تینوں کا آخری زمانہ ایسی علالت میں گزرا جس میں ان کا جانا تکلیف دہ تو تھا مگر غیر متوقع نہیں تھا اس کے باوجود ان کی اس اوپر تلے رخصت کی خبروں نے شعر و ادب اور فن موسیقی سے رغبت اور تعلق رکھنے والی دنیا کو بے حد سوگوار کردیا ہے کہ ان میں سے ہر ٹوٹنے والا آئینہ تمثال داری میں اپنی مثال آپ تھا۔
ساقی سے میری پہلی ملاقات ساٹھ کی دہائی میں ''فنون'' کی معرفت ہوئی انھی دنوں قاسمی صاحب نے ان کا پہلا مجموعہ کلام ''پیاس کا صحرا'' نومبر 1967ء میں اپنے اشاعتی ادارے ''کتاب نما'' کی طرف سے شایع کیا جو ساقی کی نیم روایتی شاعری پر مشتمل ہے کہ ابھی اس نے جانوروں اور مختلف النوع حشرات الارض کو اپنی نظموں اور مروجہ اور مقبول غزلیہ مضامین کو اپ سائڈ ڈاؤن کرکے غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ دینے کا سلسلہ باقاعدگی سے شروع نہیں کیا تھا لیکن اس سے مستقبل کے ساقی فاروقی کا اندازہ اس طرح سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کا انتساب انھوں نے خود اپنے یعنی ساقی فاروقی کے نام سے کیا تھا۔
ستر کی دہائی میں وہ انگلینڈ منتقلی کے بعد ایک بار لاہور آئے تو ان سے بالمشافہ ملنے کا موقع ملا وہ اچھے بھلے اسمارٹ اور خوش وضع انسان تھے۔ مگر ان کے لباس، منکوں، انگوٹھیوں اور بہت ہی منفرد قسم کی باڈی لینگوئج کے ساتھ ان کا بے حد ڈرامائی انداز میں شعر خوانی کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ ہماری (اس زمانے کی) نوجوان پارٹی نے ان کا نام بازی گر رکھ دیا۔
یہ اور بات ہے کہ ہمارے اس مذاق کو انھوں نے اس قدر سنجیدہ لیا کہ ساری زندگی کسی نہ کسی تماشے کا مرکزی کردار رہے اور نظم اور نثر دونوں محاذوں پر اس طرح سے ڈٹے کہ ان کی موجودگی پاکستان اور بھارت سمیت پوری اردو دنیا میں نہ صرف محسوس کی جاتی رہی بلکہ ان کی تحریر کی کاٹ تیزی اور شور شرابے سے قطع نظر ان کو ہمیشہ اپنے دور کا ایک اہم ترین تخلیقی نمایندہ سمجھا گیا۔
لندن میں ان کے ساتھ بہت سی ملاقاتوں کے علاوہ امریکا کے ایک مشاعراتی دورے میں بھی ہم سفری رہی اور یوں مجھے اس ساقی فاروقی کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جس کا باطن اپنے جارحانہ ظاہر سے بے حد مختلف تھا۔ ساقی زبان اور مزاج کے بھلے ہی تیز ہوں مگر رشتوں اور اقدار کی حرمت تحفظ پاسبانی اور ان پر عمل کرنے کے سلسلے میں وہ بہت محبتی، گرمجوش اور روایتی انسان تھے اور کبھی کبھی ان کو دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہوجاتا تھا کہ یہ شخص اپنے قلمی اور نظریاتی اختلاف میں اس قدر آگے بھی جاسکتا ہے کہ مزاح طنز اور طنز اعلان جنگ کی صورت اختیار کرلے۔
میرے نزدیک یہ بھی ان کے ایک سچا اور بہادر انسان ہونے کی دلیل تھی۔ البتہ بقول شخصے وہ ایک ایسے جنگ جو تھے جو وہاں بھی صلح اور مصلحت سے کام نہیں لیتے تھے جہاں ایسا کرنا آپ کو بہت سی خواہ مخواہ کی پریشانیوں سے بچا سکتا ہے۔
ساقی یاروں کے یارے تھے لیکن ان کی حس مزاح اپنی موج میں یاروں سمیت خود ان کی اپنی ذات کو بھی لپیٹ میں لے لیتی تھی۔ جملہ ضایع نہ ہو بندہ بے شک ضایع ہوجائے، کی حامل خوش طبعی نے زندگی بھر ان کو ایک متنازعہ شخصیت بنائے رکھا مگر میرٹ کے معاملے میں وہ بہت منصف مزاج اور بااصول آدمی تھے اور شدت کی لڑائی کے دوران بھی مخالف کی اچھی باتوں یا کمال فن کو اس کا صحیح مقام ضرور دیتے تھے۔
ان کا ایک محبوب شوق لندن آنے والے دوستوں کو وہاں کی ایسی جگہیں دکھانا تھا جن کا تعلق کسی بڑی اور نامور ادبی شخصیت سے رہا ہو۔ اتفاق سے مجھے اور عطاء الحق قاسمی کو ان کے ساتھ یہ گائیڈڈ ٹور کرنے کا کئی بار موقع مل چکا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک بار احمد ندیم قاسمی بھی ہمارے ساتھ تھے ان کے احترام اور محبت کی وجہ سے ساقی کا یہ محبوب پروگرام اور زیادہ طویل ہوگیا۔ چنانچہ کارل مارکس کی قبر، ڈاکٹر جانسن کے ڈکشنری آفس، ٹیگور کے لندن والے گھر، آسکر وائلڈ اور چارلس ڈکنز کے محبوب پب سے ہوتے ہوئے جب ہم کیٹس کے گھر نما میوزیم میں پہنچے تو چل چل کر ہمارا برا حال ہوچکا تھا۔
ساقی نے ہمیں باتوں میں لگانے کے لیے قاسمی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دراصل بڑے اور مشہور آدمیوں کی اس شہر میں اتنی یادگاریں ہیں کہ میرا جی آپ کو ہر جگہ لے جانے کو چاہتا ہے۔ کاش آپ کے پاس کچھ زیادہ وقت ہوتا۔ اس پر عطا نے بڑا پکا سا منہ بنا کر کہا ''ساقی بھائی یہاں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں بڑے اور مشہور آدمی بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوں'' اس پر ساقی اتنا ہنسے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔
وہیں انھوں نے یہ واقعہ بھی سنایا کہ اردو ادب کے ایک مشہور محقق کو ایک بار وہ یہ گھر دکھانے کے لیے لائے اور بتایا کہ یہ کھڑکی اس باغ کی طرف کھلتی ہے جس کے حوالے سے کیٹس نے اپنی مشہور زمانہ نظم Odd to the nightingale لکھی تھی۔ اس پر وہ صاحب بہت سنجیدگی سے بولے ''کس درخت پر بیٹھی تھی وہ بلبل؟'' ساقی نے پہلے تو ایک طویل قہقہہ لگایا اور اس کے بعد ان صاحب کی تحقیق پر جو تبصرے کیے۔ اس نے اگلے کئی دنوں تک ہمیں قہقہے لگانے پر مجبور رکھا۔ ان کی طبیعت کی اسی مخصوص شوخی کے ایک واقعے نے میرے بچوں کو بھی اپنا مستقل دوست بنالیا تھا۔
ہوا یوں کہ میری بڑی بیٹی روشین کی شادی انورمسعود کے صاحبزادے عزیزی عاقب انور سے ہونے والی تھی۔ ہم دونوں سے دوستی کے تعلق کی وجہ سے ساقی نے ہمارے ساتھ ساتھ دونوں بچوں کو بھی علیحدہ علیحدہ فون پر مبارکباد دی اور ایک ایسا دلچسپ جملہ کہا جو شاید صرف ساقی ہی کہہ سکتے تھے۔ جب بیٹی کو مبارکباد اور دعائیں دے چکے تو آخر میں بولے ''ایک بات یاد رکھنا بیٹی تمہارا باپ بے شک بہت اچھا شاعر ہے مگر میں اس سے زیادہ بڑا شاعر ہوں''
احمد فراز کی لندن جلا وطنی کے دوران ان کے اور ساقی کے تعلقات کے قصے اور لطیفے ایسے ہیں کہ جن سے ایک پوری اور بے حد دلچسپ کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔ دونوں بلا کے حاضر جواب، جملے باز اور بقول شخصے انتہائی حد تک صاف گو انسان تھے۔ افتخار عارف بھی ان دنوں وہیں تھے، وہ ان میں سے اکثر واقعات کے ناظر اور گواہ ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ انھیں محفوظ اور مرتب کردیں کہ ان دو بڑے اور خوش مذاق شاعروں کی یہ باتیں اپنی جگہ پر کسی ادبی سرمائے سے کم نہیں۔
جہاں تک استاد نذر حسین کا تعلق ہے وہ اسی طرح سے موسیقاروں کے موسیقار تھے جیسے مجید امجد مرحوم اور کچھ اور مشاہیر شاعروں کے شاعر کہے جاسکتے ہیں کہ وہ اپنی جگہ پر ایک دبستان تھے۔ ہماری موسیقی میں غزل کی گائیکی کی تاریخ کوئی بہت پرانی نہیں ہے۔ کے ایل سہگل، بیگم اختر ، استاد برکت علی خان اور طلعت محمود سے قبل بیشتر غزل گائیکوں نے (جن میں کوٹھوں پر گائی جانے والی غزلوں کی کثرت تھی) ایک محدود دائرے اور انداز کی تقلید ہی کو اپنائے رکھا۔
ریڈیو اور فلم کی معرفت آگے چل کر رفیع صاحب، مہدی حسن، غلام علی اور جگجیت سنگھ وغیرہ نے اس میں کچھ نئے رنگوں اور اپنے اپنے مخصوص انداز کا اضافہ ضرور کیا۔ مگر جہاں تک غزل کی کمپوزیشن کا تعلق ہے۔ بہت کم موسیقار ایسے ہیں جن کی بنائی ہوئی دھنیں گائیک کے کمال فن سے ہٹ کر اپنی پہچان آپ بن گئیں۔
بلا شبہ استاد نذر حسین ایسے ہی ایک منفرد اور صاحب طرز موسیقار تھے مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا تو بہت زیادہ موقع نہیں ملا لیکن ان کے کام کو دیکھنے سننے اور سمجھنے کا کوئی موقع میں نے حتی الممکن ہاتھ سے جانے بھی نہیں دیا۔ وہ ایک بہت گنی آدمی تھے غزل کے مزاج کو سمجھ کر اس کے الفاظ اور معانی کے باہمی رچاؤ کو سروں میں بانٹنے اور ڈھالنے کا جو کمال ہمیں ان کی بنائی دھنوں کے دروبست میں نظر آتا ہے وہ اس بات پر شاہد ہے کہ وہ اس خدا داد وصف کے حامل تھے جو قدرت خاص خاص لوگوں کو عطا کرتی ہے اور جو وہ ماں کے پیٹ سے اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے جانے سے میری بہت عزیز فنکارہ عارفہ صدیقی ہی بیوہ نہیں ہوئی بلکہ پوری عروسہ غزل کا سہاگ اجڑ گیا ہے۔