غلطیاں نہ ماننے کی سیاست
شاید نئی نسل کو بتانے کے لیے مخالفین کی غلط باتوں کا دہرایا جارہاہے۔
QUETTA:
ویسے تو ملک کی سیاست میں غلطیاں ماننے کا اصول بہت ہی کم ہے اور جس بڑے سیاست دان نے غلط باتیں کیں بعد میں وہ اسی پر ڈٹ گیا اور اس کی کوشش رہی کہ اس کی کہی گئی بات ہی کو درست تصور کیاجائے اور اس کی غلط بات کو بھی صحیح سمجھا جائے۔ پہلے تو ہر سیاست دان اکثر غلط باتیں کر جاتا تھا اور احساس ہونے یا دوسرے کی نشاندہی پر یہ کہنا بڑا آسان تھا کہ میں نے ایسا نہیں کہا تھا بلکہ اخبارات نے مجھ سے غلط خبر منسوب کی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا سے قبل سیاست دانوں کے خیالات اخبارات کے صحافی لکھنے کے علاوہ ٹیپ بھی کرلیتے تھے اور سیاسی تردید کا ثبوت ان کے پاس ہوتا تھا اور وہ اپنے اخبار تک ہی اس کی وضاحت کر پاتے تھے۔ الیکٹرانک میڈیا میں خبر کے ساتھ فوٹیج چلتی ہیں جس میں ہر ایک کو اس کی اپنی آواز ہی میں نشر کیا جاتا ہے مگر پھر بھی بعض سیاستدان اپنی کہی کی بجائے کہتے ہیں کہ میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں تھا۔
قیام پاکستان کے بعد سیاستدانوں کی سب سے بڑی غلطی ملک ٹوٹنا تھا اور ملک دو لخت کرانے میں بعض سیاست دانوں کا بڑا کردار تھا۔ 2018ء کے انتخابات اب سر پر ہیں اور انتخابی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں اور ایک دوسرے کی غلطیاں دہرائی جانے لگی ہیں جن کا پرانی نسل کو ضرور پتہ ہے۔ شاید نئی نسل کو بتانے کے لیے مخالفین کی غلط باتوں کا دہرایا جارہاہے۔
سیاستدانوں کی سب سے بڑی غلطی ملک کا دولخت ہونا تھا کیونکہ 1970ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے مکمل مینڈیٹ عوامی لیگ کو ملا تھا اور مغربی پاکستان میں پنجاب اور سندھ کے عوام نے اپنا مینڈیٹ پیپلز پارٹی کو اور بلوچستان اور صوبہ سرحد کے عوام نے اپنا مینڈیٹ نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی کو دیا تھا جس کے نتیجے میں عوامی لیگ کو اصولی طور پر ہر حالت میں اقتدار ملنا چاہیے تھا مگر بعض سیاست دانوں نے ایسا نہیں ہونے دیا جن کی سربراہی پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کررہے تھے اور ان ہی کی پارٹی نے مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی تھی۔
اگر اقتدار عوامی لیگ کو مل جاتا تو پیپلزپارٹی کو اقتدار نہیں مل سکتا تھا اور نہ بھٹو وزیراعظم بن سکتے تھے نہ جنرل یحییٰ صدارت پر برقرار رہ سکتے تھے۔ اس لیے عوامی لیگ کو اقتدار دینے کی بجائے سازش ہوئی اور مغربی پاکستان کے دیگر سیاستدانوں کے مطالبے کے باوجود اقتدار ملک کی اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو نہیں دیا گیا اور ادھر ہم ادھر تم کی بات کرکے ملک توڑنا گوارا کرلیا گیا اور جلد اقدار حاصل کرنے کے لیے ملک دولخت کرادیا گیا۔ مگر اس کے ذمے داروں نے اپنی غلطی تسلیم کی نہ کسی کو سزا ہوئی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے 46 سال بعد حمود الرحمن رپورٹ سرکاری طور پر جاری کرنے کا مطالبہ شاید اسی لیے کیا ہے کہ ملک دولخت کرانے والوں کی نشاندہی ہوسکے۔ ہمارے یہاں بڑے سانحات پر کمیشن بن جاتے ہیں مگر ان کی رپورٹیں منظر عام پر نہیں آتیں تاکہ غلطیوں کا پتہ نہ چل سکے اور ذمے دار سزاؤں سے بچ جائیں۔
45 سال پہلے عدلیہ آزاد نہیں تھی اور حکمرانوں کے اشاروں پر چلتی تھی جس کی وجہ سے ملک ٹوٹنے کے بعد عدلیہ نے اپنے طور پر حمود الرحمٰن رپورٹ جاری ہونے میں خود دلچسپی نہیں لی تھی حالانکہ اس وقت بھی سیاسی مطالبے رپورٹ شایع کرنے کے ہوتے رہتے تھے مگر رپورٹ منظر عام پر نہ آئی جو ملک کے لیے شرمناک تھی۔
پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کمیشن کی رپورٹ تین سال دباکر رکھی اور پنجاب ہائی کورٹ کے حکم پر اسی روز جاری کردی جس میں واضح طور پر ذمے داروں کا تعین نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے طاہر القادری اس سانحے کا ذمے دار وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون کو قرار دے رہے ہیں۔ اس سانحے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد حکومت دس اور عوامی تحریک 14 قرار دیتی ہے۔ یہ ہلاکتیں کیسے ہوئیں، فائرنگ کس کے حکم پر ہوئی، ذمے دارکون تھا یا غلطی کس کی تھی رپورٹ سے کچھ پتہ نہیں چل سکا۔
پنجاب حکومت نے تین سال کیوں اس رپورٹ کو عام نہیں کیا۔ ظاہر ہے کچھ ضرور تھا جو حکومت چھپانا چاہتی تھی۔ رپورٹ میں واضح طور پر کسی کو ذمے دار قرار نہیں دیا گیا مگر تین سال رپورٹ عام نہ کرکے سیاسی غلطی کی گئی جس سے عوامی تحریک نے دھرنا بھی دیا اور سیاست بھی چمکائی۔
ختم نبوت نہایت اہم مسئلہ تھا جس کی غلطی میں تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں جس کا اعتراف مسلم لیگ ن نے تو کیا مگر اس نہایت نازک مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا اور راجا ظفر الحق کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے تاخیرکی اور ذمے داروں کا تعین جلد کرانے میں کوتاہی برتی جس کی سزا وفاقی حکومت کو ایک غیر اہم مذہبی، سیاسی جماعت کے ہاتھوں بدنام ہونا پڑا، ملک بھر میں رسوائی الگ ہوئی اور مذہبی گروہ کے آگے ہتھیار پھینک کر ان کے مطالبات تسلیم کرنے پڑے۔
حکومت نے ڈان لیکس کا ملبہ محکمہ اطلاعات کے وزیر، سیکریٹری اور اپنے ایک معاون خصوصی پر ڈال دیا جو خود کو بے گناہ کہتے آرہے ہیں مگر اپنے خاص لوگوں کو بچالیا گیا اور پھندا بے گناہوں کے گلے ڈال دیا گیا جس پر پرویز رشید کوکہنا پڑا کہ وہ آیندہ کبھی وزارت نہیں لیںگے۔
عمران خان نے دو لاکھ افراد سے لانگ مارچ کا دعویٰ کیا جو اسلام آباد میں بیس پچیس ہزار بتائے اور جب دہشتگردی کا مقدمہ بنا تو عمران خان سچ بولنے پر مجبور ہوگئے کہ پولیس بیس ہزار اور پی ٹی آئی کارکن دو ڈھائی ہزار تھے وہ ایس پی پر تشدد کیسے کرسکتے تھے۔
ہر دور میں ہر حکمران سے غلطیاں ہوئیں مگرکسی نے غلطیوں سے سبق سیکھا نہ اعتراف کیا۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو امریکا نے اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا جس پرکمیشن بنا مگر رپورٹ حکومت نے چھپادی اور عام نہیں کی اور اب امریکا نے کہاہے کہ حکومت پاکستان کو اسامہ کی وہاں موجودگی کا علم نہیں تھا۔ اس کے بعد بھی رپورٹ عام نہیں کی جارہی جس کا کمیشن پی پی دور میں بنا مگر مسلم لیگ کی حکومت وہ رپورٹ اب بھی چھپا رہی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنی بعض غلطیوں کا اعتراف اقتدار سے لگ ہوکر تو کیا مگر سیاسی حکمرانوں نے کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کی اور فرشتے بنے رہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پہلے دور میں قرض اتارو ملک سنوارو منصوبے کے تحت حکومت کو اربوں روپے دلائے تھے جس سے قرض نہیں اتارا گیا اور رقم کہاں گئی اس غلطی کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔
تیسرے دور میں ان کے رشتے دار وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نواز شریف کے اندھے اعتماد کا فائدہ اٹھاکر ملک کے لیے قرضوں کا نیا ریکارڈ قائم کرایا اور نواز شریف ان کی غلط تعریفیں کرتے رہے مگر حکومت نے نام نہاد معاشی ترقی کی معافی نہیں مانگی کیونکہ غلطیاں ماننا کبھی حکمرانوں کا شیوہ ہی نہیں رہا۔